Sunday, May 8, 2022

یہ وقت بھی گزر جائے گا

#یہ_وقت_بھی_گزرجائےگا۔۔ 

 میں ایک ضروری کام سے سفر میں تھا کہ راستے میں نماز عصر کا وقت ہوا تو میں ایک مسجد میں نماز کیلئے رک گیا۔۔ 

 وضو خانہ میں رش تھا۔ ایک صاحب نے بتایا کہ مسجد کے بیسمنیٹ میں بھی وضو کی جگہ ہے وہاں چلے جایئں۔ میں اس طرف گیا تو وہ مسجد کا مدرسہ تھا۔ جہاں بچوں کی رہائش تھی انکا سامان پڑا ہوا تھا اور انہی کیلئے وضو کی جگہ بھی بنی ہوئی تھی۔ نماز میں چونکہ ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ سو میں نے وضو کیا اور ان چھوٹے چھوٹے فرشتہ نما صاف ستھرے مدرسہ کے بچوں کے قریب بیٹھ کر انکی معصومانہ گپ شپ سے مستفیض ہونے لگ گیا۔ 

 میرے بالکل سامنے ان کے چھوٹے چھوٹے ٹرنک پڑے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک پرانا سا جستی چادر کے ایک ٹرنک پہ ایک جملہ دیکھ کر نجانے کیوں میں چونک گیا۔ اس ٹرنک پہ لکھا تھا کہ ، 

 یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ 😟😰😭

 میں بے ساختہ کھڑا ہوا۔۔اس ٹرنک کے پاس گیا اور اس لکھائی پہ ہاتھ پھیرنے لگ گیا۔ 
  میری یہ حرکت بے ساختہ تھی۔  
 اور میرے گرد پتہ نیئں کیوں دکھ، درد اور کرب کا ایک ہالا سا بن گیا تھا۔ میں نے اس بچے کے بارے میں پوچھا کہ اس ٹرنک کا مالک بچہ کون ہے۔؟ پتہ چلا وہ اوپر مسجد میں نماز کیلئے چلا گیا ہے۔ باقی بچے بھی جارہے تھے میں بھی انہی کیساتھ اوپر آگیا۔ 

  میں بظاہر نماز میں کھڑا تھا مگر دوران نماز بھی ٹرنک پہ لکھا وہ جملہ کہ "یہ وقت بھی گزر جائے گا " میرے حواس پہ چھایا رہا۔نماز سے فارغ ہو کر میں دوبارہ نیچے آگیا اور اس بچے سے ملا۔ میں نے اسکی انگلی پکڑی اور اسکو ٹرنک کے پاس لے گیا۔ یہ آٹھ سال کا ایک خوبصورت بچہ تھا جس کا نام عبدالشکور تھا۔ میں نے اس ننھے فرشتے سے حال احوال پوچھا اور اس جملے کے معانی پوچھنے لگ گیا۔ 

  وہ ٹال مٹول سے کام لینے لگ گیا۔ میں اصرار کرنے لگا کہ آپ نے اس جملے کو کہاں سے لیا اور اپنے ٹرنک کیلئے اسی جملے کا انتخاب کیوں کیا۔۔وہ مسکرایا ۔

 اور یوں مسکرایا کہ اسکی آنکھیں نم ہو گیئں۔۔آنسووں کی ایک لکیر اسکی آنکھوں سے نمودار ہوئی اور گالوں سے ہوتی مسجد کی صفوں پہ جزب ہو گئی۔۔وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر کہہ نہیں پا رہا تھا۔۔۔ 

 میں نے اسکو تسلی دی، ایک بچے کو پانی لانے کا کہا اور اسکے پاس بیٹھ گیا۔ زرا سی دیر بعد وہ کچھ بحال ہوا اور بتایا کہ میں تین سال کا تھا کہ میرے والد محترم ایک حادثہ میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔۔ایک بہن ہے جو مجھ سے دو سال بڑی ہے۔ والدہ محترمہ اور بہن گھر میں ہیں۔ والد صاحب کی خواہش تھی کہ میں حافظ بنوں۔ انہوں نے اس خواہش کا اظہار امی سے کیا تھا۔ وہ فوت ہوئے تو امی نے انکی خواہش پوری کرنے کا ارادہ کر لیا۔ رشتہ دار ہیں نہیں۔ بس چھوٹا سا کنبہ ہے۔ امی اور بہن لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں اور مجھے یہاں داخل کروا گئی ہیں۔ میں ایک سال سے یہاں پڑھ رہا ہوں۔ مہینہ بعد وہ آتی ہیں اور مجھے دو دن کیلئے گھر لے جاتی ہیں۔۔اس دوران ابو کی قبر پہ بھی جاتے ہیں اور بتا کر آتے ہیں کہ انکی خواہش پہ میں حافظ بن رہا ہوں۔ میں گھر، امی جی اور بہن کو دیکھ کر پریشان ہوتا ہوں تو امی کہتی ہیں شکورے یہ وقت بھی گزر جائے گا۔۔مجھے یہ بات بہت اچھی لگی اور ایک دن ایک پینٹر انکل مسجد کا کام کرنے آئے تو میں نے ان سے اپنے ٹرنک پہ یہی جملہ لکھوا لیا۔ 

  رات کبھی کبھی مجھے دیر تک نیند نہیں آتی۔۔ابو یاد آتے ہیں۔۔امی اور بہن کا کام کرنا یاد آتا ہے۔۔بے چین ہوتا ہوں تو میں اٹھ کر اس جملے کو دہرا لیتا ہوں۔۔احساس کا کوئی لمحہ آئے یا بچوں کے پاس کوئی ایسی چیز دیکھوں جو باوجود خواہش کے میں حاصل نہیں کرپاتا تو میں اپنے اس ٹرنک کے سامنے آ کر کھڑا ہوتا ہوں اور پوری توجہ سے امی جی کے اس قول کو پڑھ لیتا ہوں۔۔۔ 

 اس کے بعد اس نے کیا کہا۔۔اور میں نے کیا سنا۔۔یہ میں نہ تو لکھ سکتا ہوں اور نہ بتا پاوں گا۔۔بس اتنا عرض ہے کہ ملک بھر میں اس طرح کے بچے بھی ہمارے بچے ہیں۔ان پر زبانیں اچھالی جاتی ہیں یہ معلوم نہیں کہ یہ معصوم کن کن حالات سے گزرکر ہمارے امام وپیشوا بنتے ہیں کچھ نادان ان پر زبان درازی کرتے ہیں انہیں کیامعلوم کہ ان کی حفاظت اللہ کے نورانی فرشتے کرتےہیں ان کے پاؤں تلے فرشتے پر بچھاتے ہیں آخر کوئی وجہ توہے کہ زبان درازی کرنے والے مصلیٰ رسول کے قابل نہیں ہوتے بلکہ یہ ہی معصوم پھول مصلیٰ رسول پر ہمارے امام بنتے ہیں. اس لیے ان کے خلاف نہ بولاکریں کیوں کہ سورج پرتھوکنے سے اسکی شان کم نہیں ہو جاتی اورنہ سورج پر بھونکنے سے بےنورہوتاہے... 

  اور جب کبھی آپکا چکر لگے ان کا حال احوال پوچھ لیا کریں۔ 

  اہل محلہ ان کے احوال سے باخبر رہا کریں۔ اللہ تعالی کے یہ ننھے منے مہمان فرشتے ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔۔ ہمارا فرض ہے کہ انکا خیال رکھیں۔۔یہ ہماری عاقبت کیلئے مفید ہوگا۔۔باقی وقت تو انکا بھی گزر ہی جائے گا۔۔

Share this


0 Comments