Thursday, July 7, 2022

مارفن سنڈروم (Marfan Syndrome)

آج نوشہرہ ورکاں بازار میں ایک بوڑھی اماں کے ساتھ ینگ لڑکی دیکھی جسکا قد کوئی چھ فٹ 2 سے 3 انچ ہوگا۔ ہر کوئی اسے ہی مڑ مڑ دیکھ رہا تھا۔۔ انتہائی لمبے بازو اور ٹانگیں دیکھیں تو شک ہوا مارفن سنڈروم ہے۔ اتفاق سے وہ دونوں ایک جگہ رک کر کھجوریں لینے لگیں تو میں بھی رک گیا لڑکی کی انگلیاں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ دوکاندار میرا واقف ہی تھا اسنے مجھے اندر اپنے پاس بلا لیا۔ لڑکی کے ہاتھ کی لمبائی کوئی 10 انچ ہوگی ۔ اور انتہائی دبلا پتلا سا ہاتھ اور ویسے ہی پتلے اور لمبے بازو ۔ 
تھوڑا سا آگے ہوکر بوڑھی اماں کو سلام کیا اور سر آگے کیا۔۔اماں نے سر پر ہاتھ رکھا اور بولیں بیٹا میں نے تمہیں پہچانا نہیں ۔ میں نے بتایا کہ میں بھی آپکو نہیں جانتا یہاں ہی سپیشل بچوں کے سرکاری سکول میں ٹیچر ہوں۔ فلاں گاؤں کا رہنے والا ہوں۔ آپ سے آپکی اس پوتی کے متعلق ایک منٹ بات کرنا چاہتا ہوں اگر آپ کو جلدی نہیں اور برا نہ منائیں تو ۔۔ وہ بولیں ہاں بیٹا کرو بات۔۔ میں نے پوچھا کہ اس بچی کی عمر کیا ہے؟ وہ بولیں 17 سال۔ میں نے کہا آپ کہاں سے ہیں تو انہوں نے بتایا ہم فلاں گاؤں سے ہیں۔۔ اس بچی سے پوچھا کہ آپ سکول جاتی ہیں؟ وہ بولی کالج جاتی ہوں میٹرک کے بعد ابھی سمر کیمپ لے رہی۔ 
اسے پوچھا کہ آپکو دل کی نالی کا کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔ بولی بہت زیادہ مسئلہ ہے۔۔ ہر ماہ کارڈیالوجی ہسپتال جاتے ہیں دوائی اور چیک اپ کے لیے ۔۔ میں نے کہا آپ کے سینے کی ہڈی تھوڑی سی اندر یا باہر تو نہیں ۔ بولی انکل کافی اندر کو مڑی ہوئی ہے۔۔ میں نے اسے ایک پرچی پر Marfan Syndrome لکھ کر دیا اور اسے بتایا کہ میری معلومات کے مطابق آپ کو یہ مسئلہ ہے۔ وہ بولی ہمیں آج تک نہیں معلوم کہ میرے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔ میں نے کہا کسی اچھے دل کے ڈاکٹر سے ملیں۔ اس سنڈروم کو ٹیسٹوں کے بعد کنفرم کریں۔ کسی پرچی پر دیکھیں بھی کہ کسی ڈاکٹر نے یہ دو لفظ لکھے تو نہیں ہوئے۔ اور دوا بھی جاری رکھیں۔ بوڑھی اماں نے میرا نام سکول کا پتا وغیرہ پوچھا اور سکول کھلنے پر وہ ضرور آئیں گی یہ کہہ کر چلی گئیں۔ میرا فون نمبر بھی لے لیا۔ 
مارفن سنڈروم کے ساتھ آج پہلی بار کسی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔۔ یہ ایک سنڈروم ہے جو پیدائشی طور پر ہمارے جینز میں موجود ہوتا۔ بنیادی طور پر یہ Connective tissues یعنی ایک دوسرے کے ساتھ اسکن مسلز اور ہڈیوں کو جوڑنے والے خلیات کا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔۔ یہ لوگ 5000 میں سے 1 ہوتے ہیں۔۔ یعنی بہت ہی کم۔۔ لڑکوں اور لڑکیوں میں یہ سنڈروم یکساں پایا جاتا ہے۔ اور انکی تشخیص ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہے۔ اکثریت میں دل سے باقی جسم کو آکسیجن ملا ہوا خون سپلائی کرنے والی ہمارے جسم کی سب سے بڑی نالی Aorta اس سنڈروم میں ڈیمج یا متاثر ہوتی ہے۔۔ جسکی وجہ سے جسم کے کسی بھی حصے میں خون کی سپلائی متاثر ہونے کے ساتھ دل کے بھی کئی مسائل ہونے لگتے ہیں۔ 
اورٹا نالی اور دل کے مختلف ٹیسٹ، آنکھوں کے کئی ٹیسٹ اور ہڈیوں کے ایکسرے اور کئی کیسز میں جنیٹک ٹیسٹنگ جس میں FBN1 نامی جین کی ساخت کو دیکھا جاتا ہے۔ کئی قسم کے ٹیسٹوں کے بعد مارفن سنڈروم کی شناخت ہو پاتی ہے۔۔ اس میں لوگوں کے مسائل ایک دوسرے سے مختلف اور کم یا زیادہ ہو سکتے ہیں۔ اگر باقاعدہ علاج نہ ہو سکے تو کم و بیش 32 سال کی عمر تک یہ لوگ زندہ رہ پاتے ہیں۔ 
فزیکل معائنہ میں سب سے پہلے انکے بازوؤں ہاتھوں اور ٹانگوں کی پیمائش کی جاتی ہے۔ وہ قد اور دھڑ کے حساب سے زیادہ لمبے ہونگے۔ ایسے ہی ہاتھ پاؤں دبلے پتلے اور ایورج سے اچھے خاصے لمبے ہونگے ۔۔ پھر بات ٹیسٹوں کی طرف جاتی ہے اور تشخیص کے بعد علاج۔ یہاں ایک مسئلہ یہ کہ والدین کی تعلیم کم ہوتی اور دوسرا ڈاکٹرز بھی ایسے مریض کو کلئیر مسئلہ نہیں بتاتے کریں بھی تو گندہ مندہ سا کسی کونے میں لکھ دیتے ہیں۔ جو کسی ماہر کے سوا کوئی نہیں پڑھ سکتا ۔ یار معذوری یا ایسی کنڈیشن کو تو قلم کی سپیڈ زرا کم کے واضح لکھا کرو اور مریض کو بیماری اور عمر بھر کی معذوری میں فرق بتایا کرو۔ 
وہ بیچارے اسی آس میں کہ دوا چل رہی ہے ہم ٹھیک ہو جائیں گے ۔۔ایک سے دوسرے تیسرے چوتھے ڈاکٹر کے پاس جاتے رہتے مگر انہیں اصل کہانی معلوم ہی نہیں ہوتی۔ میں امید توڑنے کی بات نہیں کرتا مگر وہ اپنا پیسہ اور وقت اور ذہنی سکون تو کسی کبھی ناں ہونے والے معجزے کے انتظار میں عمر بھر نہ برباد کرتے رہیں۔ ہاں جن کو سچ بتا دیا جاتا وہ کب اسے مانتے ہیں جہاں کوئی بتاتا پھر سے امید لیکر چلے جاتے۔ ایک مسکولر ڈسٹرافی ، ایک سی پی، ایک ڈاؤن سنڈروم، ایک آٹسٹک ایک مارفن سنڈروم کے ساتھ بچہ کیا کبھی سو فیصد مکمل ٹھیک ہوسکتا ہے؟ کبھی بھی نہیں۔ 
ایسی سینکڑوں کنڈشنر ہیں جو عمر بھر کی ہیں۔ ان میں اور عارضی بیماریوں میں فرق سمجھیں اور اپنے سپیشل بچوں کو انکی الگ دنیا کا باسی مانتے ہوئے قبول کریں۔ انہیں جہاں بھی دی جا سکتی دینی اور دنیاوی تعلیم دیں۔ انکی کپیسٹی کے مطابق کوئی ہنر سکھائیں اور زندگی کے دھارے میں شامل کریں۔۔نہ کہ اپنی صلاحیتیں اور وسائل ہمیشہ ان کو ٹھیک کرنے پر ہی لگاتے رہیں۔ 
ایک سوال مجھ سے اکثر ہوتا کہ ہمارا بچہ کب ٹھیک ہوجائے گا؟ جہاں دائمی معذوری ہو میں والدین کو یہ کہتا ہوں اگلے جہاں میں جاکر ان شاءاللہ بلکل ٹھیک ہوجائے گا۔ اس دنیا میں یہ ایسے کیوں آیا ہے؟ اس کو ہی کیوں چنا گیا؟ اسکا جواب بھی وہاں جاکر ہی معلوم ہوگا۔ 

خطیب احمد

Share this


0 Comments