Wednesday, August 3, 2022

سیلاب اور ہم

سن 2010 میں وطن عزیز کو بھیانک سیلاب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان دنوں میری رہائش اپنے آبائی شہر سیالکوٹ ہوا کرتی تھی۔ دریائے چناب نے بند توڑتے ہوئے بجوات، مرالہ و گوندل کے اطراف بستیوں کو ڈبو دیا تھا۔ نو لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا انسانوں و جانوروں کو بہا لے گیا تھا۔ پانی کچھ اترا تو ایک بین الاقوامی مشہور زمانہ ادارے نے سیلاب متاثرین میں راشن کے تھیلے تقسیم کرنا تھے۔ انہوں نے اس کی کوریج کے لئے مجھ سے رابطہ کیا۔ اداروں کی مجبوری کہ امدادی کام کی "کوریج" نہ ہو تو ڈونر کو مطمئن کیسے کریں اور یہ سب نہ دکھائیں تو مزید فنڈز کہاں سے لائیں ؟ سو غریب ملکوں سے غربت و افلاس ہی ایکسپورٹ ہوتی ہے جس کے بدلے "زرمبادلہ" پاکستان آتا ہے اور دال جوتیوں میں بٹتی ہے۔ یہ ادارہ اتنا بڑا تھا کہ اس کے ڈونر افراد نہیں بلکہ ممالک تھے۔۔۔ 

راشن کے تھیلوں سے بھرے چار فوجی ٹرک موجود تھے۔ پاک فوج سے اس سلسلے میں خدمات اس لئے بھی لی گئیں کہ پاک فوج سیلاب سے متاثرہ دیہاتوں میں ریسکیو کے کاموں میں پیش پیش تھی اور سب سے اہم یہ کہ فوجی ٹرکوں کی اونچائی بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے وہ پانی کے درمیاں آسانی سے گزر سکتے تھے۔۔۔ ایک ٹرک کی فرنٹ سیٹ پر گلے میں کیمرا لٹکائے میں سوار ہو گیا۔ 

چناب کنارے آباد بجوات کے دیہاتوں میں پہنچے جو پانی میں اب تک ڈوبے ہوئے تھے۔ بجوات سیکٹر بھارت کی سرحد ہے۔ 72 گاوں پر مشتمل یہ علاقہ بہترین چاول کاشت کرنے کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔ فوجی جوان سامان تقسیم کرتے رہے۔ ان کی مانیٹرنگ بین الاقوامی ادارے کے پاکستانی عہدے داران کر رہے تھے۔ ایک فوجی چوکی پر پہنچنا ہوا۔

درجن ہرنوں کی پھولی ہوئی لاشیں میرے سامنے پڑی تھیں۔یہ بڑے خوبصورت ہرن تھے ،کچھ بچے تھے ۔بجوات کے گاؤں حسن آباد کی فوجی چوکی میں بیٹھا میں صوبیدار کی باتیں سن رہا تھا۔صوبیدار نے بتایا کہ یہ بجوات کے جنگل کے ہرن تھے۔ پانی اترنے پر لاشیں ملیں۔ پتہ نہیں اور کتنے مر گئے ۔ یہ بتاتے اس کی آواز بھر آئی تھی۔ خاموشی کے ایک مختصر وقفے کے بعد صوبیدار صاحب بولے  "کشتی میں چار بھائیوں کو بٹھانا چاہا تو ایک بھائی نے سوار ہونے سے انکار کر دیا۔ وه بولتا تھا کہ میرے ڈنگر ہیں، ان کے بنا نہیں جاؤں گا ۔ستر بھینسیں اس کی ڈوب گئیں اور خود بھی بہہ گیا۔میں نے پانیوں پر انسانوں ، جانوروں ، درختوں ، کھرلیوں ، کتوں ، اور گھروں کے سامان کو ایسے بہتے دیکھا کہ لگتا تھا طوفان نوح آ گیا ہے۔نو لاکھ کیوسک کا ریلا تھا کئی گاؤں بہا لے گیا"

صوبیدار کی آنکھ میں نمی جھلکنے لگی۔میں نے پھر سے ہرنوں کو دیکھا جن کے جسم پر بنی دهاریاں اب بھی چمک رہی تھیں ۔جدھر انسان بہہ گیا ہرنوں کا نوحہ کون پڑھتا۔صوبیدار بھٹی رحم دل انسان تھا۔ 

راشن تقسیم کرتے دوپہر ڈھلنے لگی۔ شام ہونے کو آئی۔ خالی ٹرک واپس لوٹنے لگے۔ مجھے سیالکوٹ شہر میں اتر جانا تھا۔ اترنے لگا تو دم رخصت این جی او کے ایک بڑے صاحب بولے " بخاری صاحب، آپ کے لئے 2 تھیلے رکھے ہوئے ہیں وہ لیتے جایئے گا"۔۔۔ یہ جملہ سن کر میں نے حیرت سے پوچھا " میرے لئے راشن کے تھیلے ؟ وہ کیوں ؟ "۔۔۔ ہنستے ہوئے جواب آیا "سب ہی لیتے ہیں۔ کام آ جائیں گے گھر میں" ۔۔۔ یہ سن کر اب کے جو میں نے ٹرک میں دیکھا تو لگ بھگ 30 سے 40 تھیلے "بچ" چکے تھے جو مستحقین کا حق تھا اور یہ "مال" عملہ اپنے لئے حلال سمجھ رہا تھا۔۔۔ 

مجھے غصہ آیا مگر جذباتی ہو کر انکار کرنے سے قبل میں نے سوچا اگر میں نہ لوں گا تو یہ کسی اور کو دے دیں گے یا آپس میں خود بندر بانٹ کر لیں گے۔ اس سے اچھا میں اپنا "حصہ" لے کر کسی مستحق کو دے دوں۔ میں نے مسکراتے ہوئے صاحب کو کہا " دو نہیں ، چار تھیلے تو دیں ناں مجھے" ۔۔۔ صاحب نے باچھیاں پھیلائیں اور آواز لگائی " چار تھیلے اتار دو" ۔۔۔ 

ان کے رخصت ہوتے وہ چار تھیلے میں نے رکشے میں ڈالے اور دو ایسے گھروں میں پہنچا آیا جو محلے دار تھے اور مستحق تھے۔ جن کے حالات میں ذاتی طور پر جانتا تھا۔ 

اس رات میں دیر تلک یہ سوچتا رہا تھا کہ آج کے دن ایک صوبیدار بھٹی ملا جو ہرنوں کو رو رہا تھا اور وہیں چند ایسے لوگ ملے جو غریب انسانوں کا مال ہضم کرنے پر تلے تھے۔ صوبیدار بھٹی آج کے اس بے حس دور میں یقیناً ولی تھا۔ ایسے ہی درد دل رکھنے والوں سے دنیا قائم ہے۔ ابھی قیامت نہیں آئی ۔۔۔ آنکھ تو ڈبڈباتی رہے گی۔۔۔

تحریر..... ایس ایم بخاری

Share this


0 Comments