بھنا ہوا مرغا
ہمیں بچپن سے سکھایا گیا کہ جھوٹ مت بولو اور جو دل میں ہو وہی کہو۔ ابا میاں نے تربیت ہی ایسی کی تھی۔ سکول جانے لگے۔ ایک دن لائیو اسٹاک کی کلاس میں استانی جی نے پوچھا، "آپ کو کون سا جانور پسند ہے؟"
"بھنا ہوا مرغا"، ہم نے دل کی آواز کو سچ کی زبان دی۔ استانی جی نے غصیلی نظروں سے ہمیں دیکھا، کالر سے پکڑا اور پرنسپل صاحب کے پاس لے گئیں۔
پرنسپل صاحب نے پوری بات سنی، ہم سے استفسار فرمایا اور ہمارا مدعا بغور سماعت فرمانے کے بعد خوب کھل کر ہنسے۔ ہمیں آئیندہ ایسا نہ کہنے کی تنبیہہ کر کے رخصت فرمایا۔ اس تمام واقعہ پر ہماری حیرانی بدستور موجود تھی۔ گھر آ کر ابا میاں کو تمام واردات سے تفصیلاً آگاہ کیا۔ وہ بھی بہت ہنسے اور ہمیں آئیندہ ایسی بات نہ کرنے کی نصیحت کی۔
ہم زمانے کے اس دوغلے پن کو سمجھ تو نہ سکے تاہم دل ہی دل میں آئیندہ ایسی بات نہ کرنے کا عہد کیا۔
اگلے دن استانی جی نے دوبارہ وہی سوال دہرایا۔
"زندہ مرغا" ہمارا جواب سن کر خوش ہوئیں اور اگلا سوال پوچھا، "کیوں؟"
"تا کہ اسے بھون سکیں"، ہمارا فطری جواب تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم دوبارہ پرنسپل صاحب کے رو بہ رو پیش کر دیے گئے۔ وہ پھر ہنسے آور آئیندہ ایسا نہ کہنے کی نصیحت کر کے رہا کر دیا۔
استانی جی نے اگلے دن پھر وہی سوال دہرایا۔
"زندہ مرغا"، ہم نے اطمنان کے ساتھ جواب دیا۔
"کیوں؟"
"تا کہ اس کی افزائشِ نسل کر سکیں"، ہم اعتماد سے بولے۔ خوشی کی ایک لہر ان کے چہرے پر دوڑتی ہوئی نظر آئی۔
"کیوں؟" اگلا سوال۔
"تا کہ ہمارے پاس پیارے پیارے چوزے ہوں"، ہمارا اعتماد بحال رہا۔
"ان کا کیا کرو گے؟" ان کے لہجے میں فتح کا تاثر تھا۔
"ان کی پرورش کریں گے تا کہ وہ سب صحت مند مرغے بن جائیں"، ہمیں محسوس ہوا ہمارا اندازِ گفتگو انتہائی پیشہ ورانہ تھا۔
"کیوں؟" استانی جی نے اپنا تکیہ کلام جاری کیا۔
"تا کہ ان سب کو بھون سکیں"، نہ چاہتے ہوئے بھی ہماری زبان سے یہ فقرہ پھسل گیا۔
اگلے دن پھر ہمیں پرنسپل کے سامنے پیش کیا گیا
لیکن
ایک نئے سکول میں
😂😂😂😂
0 Comments