ٹیکنالوجی کی ترقی یا بے حیائی کا فروغ
پوری تاریخِ انسانی میں کسی کو گناہ کے اتنے مواقع نہ تھے جتنے آج دستیاب ہیں۔کسی نے گانا سننا ہوتا یا عورتوں کے جسم کو دیکھنا اور ان کو ناچتے دیکھنا ہوتا تو اس کو باقاعدہ کوئی ایسا فحاشی کا اڈہ تلاش کرنا پڑتا تھا اور پھر وہاں جانا پڑتا تھا، اور پھر شاید پیسہ خرچ کرنا پڑتا تھا یا منت ترلے کرنے پڑتے تھے۔
گانا اچھا لگا؟ دوبارہ کیسے سنیں؟ گانے والی کے پاس دوبارہ جائیں، وہی سارا سیاپا کریں اور اس سے گانے کی درخواست کریں؟ اس کا موڈ ہو نہ ہو، پیسے لگیں۔ وغیرہ۔
منظر اچھا لگا؟ دوبارہ کیسے دیکھیں؟ وہی سیاپا۔
یعنی گناہ ایک بار کر بھی لیا تو دوبارہ کرنا مشکل۔
لیکن ٹیکنالوجی کے افراط کے ساتھ ساتھ گناہ کی لذت بھی عام ہوئی۔ بٹن دباؤ تو ایک نہیں، دو نہیں، لاکھوں کروڑوں گانے والے اپنے پورے کے پورے بینڈ باجوں سمیت حاضر، اور بار بار بٹن دبانے پر بار بار حاضر۔۔۔ اور وہ بھی بالکل مفت۔ نہ کہیں جانا پڑتا ہے، نہ یہ ڈر کے کون آپ کو ایسی جگہ جاتے دیکھ رہا ہے، نہ گانے والوں کا موڈ دیکھنا پڑتا ہے۔ ایک پسند نہیں آیا تو لاتعداد دیگر موجود ہیں۔ بٹن دبائیے اور "لطف اندوز " ہو جائیے۔
یہی حال بصارت کی لذت، یعنی "آنکھیں ٹھنڈی" کرنے سے ہے۔ حقیقی دنیا میں کسی کی مجال کہ کوئی جب چاہے نامحرموں کو جھانک کر نہ صرف دیکھے بلکہ ان کی جلد کا ہر زاویہ سے اچھی طرح معائنہ کرے، اس کے جسمانی اعضا کو ہر وقت تکتا رہے،
لیکن ٹیکنالوجی کی بدولت برہنگی دیکھنے کو ایک بٹن کی مسافت پر موجود۔ اور وہ بھی ایک یا دو عورتوں کی عارضی جھلک نہیں، بلکہ لاکھوں کروڑوں سراپا برہنہ۔۔۔ ہر جگہ، ہر وقت۔۔۔ ایک بٹن کی مسافت پر۔۔۔
ٹیکنالوجی کے افراط کے ساتھ گناہ کا افراط ہوا تو رفتہ رفتہ گناہ کے بارے میں احساسات بدل گئے۔ گناہ نارمل سی بات بن گیا اور گناہ کے کے کاموں کے لئے مستعمل الفاظ بھی بدل گئے، تاثرات بھی بدل گئے۔۔
گانے بجانے والی نائکہ اب فنکارہ اور آرٹسٹ ہو گئی۔
اپنی "نرم و ملائم اور سفید" جلد اور اپنے جسم کی نمائش کر کے جنسی ہوس بھڑکانے والی عورت بھی اب فنکاارہ، ماڈل اداکارہ اور آرٹسٹ کہلائی۔ (اگرچہ چند ایک جسم کی نمائش کی مرتکب تو نہ تھیں، لیکن بہرحال بےحجابی سے ہر وقت بچنا بھی ناممکن تھا)
چنانچہ: بیہودگی آرٹ ہو گئی۔
اسی پر بس نہیں۔۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت میڈیا نے ترقی کی تو یہ سب "فنکار" اب سٹار اور پھر سپر سٹار کہلائے جانے لگے۔
( سب ازلی حقیقت بھول گئے کہ ستارے تو اصل میں بڑے تقدس کی چیز ہیں ، رب کی نشانیاں ہیں، جن کا ذکر کر کے ہمارے رب نے قسم کھائی۔ )
ابھی تک اس ترقی یافتہ میڈیا پر طوائفوں اور ناچنے گانے والیوں ، المعروف "سٹار" بننے کے لئے باقاعدہ کوئی میڈیا ہاؤس، کوئی ٹی وی چینل پر منت سماجت کر کے مواقع حاصل کرنا ہوتے تھے۔
وقت کا پہیہ مزید گھوما اور ہر ایک کے ہاتھ میں سمارٹ فون اور پورا کا پورا "میڈیا ہاؤس" اور "ٹی وی چینل" آ گیا۔۔۔۔۔ یوٹیوب اور پھر ٹک ٹاک کی صورت میں۔ بٹن دبایا، اور لاکھوں لوگوں کو "انٹرٹین" کرنا شروع۔ چٹخارے دار باتیں، لطیفے،ذو معنی فقرے، حسن و شباب کی نمائش۔۔۔۔ لاکھوں کروڑوں لذت کے رسیا کان اور آنکھیں، جنسی میلان کو جنسی ہوس اور پھر بھانبھڑ میں بدلتی پوری کی پوری نسلیں۔ اور پھر اس پر بھی تسکین نہ ملنے پر پورن ویب سائٹس ایک یا دو بٹن کلک کی دوری پر۔ ٹک ٹاک اور پورن سائٹس پر دیکھ کر روز روز لمحہ لمحہ ذہن میں جنسی خیالات کے ابال۔ چنگاریاں بھانبھڑ۔اور پھر اس جنسی پیاس اور بھانبھڑ کو مزید ایندھن فراہم کرنے کے لئے کسی جنسی عمل کی تلاش۔
اکثر کوئی نیم برہنہ اور اخلاق باختگی کو ابھارنے والی بازاری عورت نہ ملی تو ٹھیک۔ ورنہ کوئی ماڈرن لباس والی سہی، کہ ماڈرن لباس کی وجہ سے وہ جسم کو ڈھانپنے کی اتنی قائل نہیں۔ اور یہ بھی نہیں تو پھر باحجاب کو ہی "چھو" کر لذت لینے کی کوشش۔
جب ہوس ناکی میں یہ تلاش جاری تو ساتھ میں روز وہی ٹک ٹاک اور پورن ویب سائٹس سے اس "پیاس" کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش۔ لیکن یہ کیا۔یہ بھانھڑ تو بجھنے کا نام نہین لیتا۔
جب بے حجاب "شکار" ہاتھ نہ لگے تو پھر کسی کمسن بچی کا شکار۔ جنسی زیادتی جیسے خبیث ترین عمل کے بعد بے حسی کا غلبہ، اور پھر اس زندہ لاش کا قتل اور ٹھکانے لگانا۔
اور پھر جب یہ بھی نہیں تو پھر کسی حجابی پر ہی حملہ۔
اور پھر۔
چڑیلوں ڈائنوں سمیت معاشرے کے اچھے خاصے "سمجھدار روشن خیالوں" کی طرف سے چیخ و پکار۔۔۔۔ "ارے دیکھو، اس والی نے تو کپڑے پہن رکھے تھے"
"ارے یہ سب مرد خبیث ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ "
ایسا کہنے والوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو بِن باپ کے پیدا ہو گئے ہوں۔ ان کے باپ بھی مرد ہی ہیں۔
یہ جو سب مَرد خبیث ہوتے ہیں۔۔۔۔ ان سب نے عورتوں کے ذریعہ جنم لے کر ان کی پرورش اور تربیت حاصل کی تھی۔ وہ عورتیں کیا ہوتی ہیں؟
رکیے جناب، یہ حادثات اچانک نہیں رونما ہو جاتے۔ دسیوں سال لگے ہیں گناہ کو "کارِ ثواب" اور خوبی کی چیز بنا کر اذہان میں بار بار انڈیل کر پختہ کرنے میں۔
بہت ممکن ہے کہ جنسی جرم کے شکار افراد کا لباس اس جرم کی وجہ نہ ہو۔ لیکن مجرموں کے اذہان میں کئی سال تک پکنے والی گندگی کا تعلق اسی بے حجابی، بے لباسی ، گانے بجانے، اور شباب کی نمود و نمائش سے ہو جو پہلے بڑے جتن کر کے ۔۔۔۔کوئی ایک آدھ بدقماش۔۔۔۔ کبھی کبھار طوائف کے کوٹھے پر جا کر ہی حاصل کرتا تھا اور آج ۔۔۔۔ہر دوسرا شخص ۔۔۔"سٹارز" اور "سپر سٹارز" اور پورن سائٹس دیکھ کر کسی بھی وقت، ہر وقت، ہر روز ہر لمحہ حاصل کرتا ہے۔
پہلے طوائف کے تماشبین ہوتے تھے
اب سٹار کے فینز ہوتے ہیں۔
کان ادھر سے پکڑ لو یا ادھر سے۔
بہت ممکن ہے اس والی "سٹار" نے کوئی بیہودہ حرکت نہ کی ہو، برہنگی نہ دکھائی ہو۔ لیکن ہیجان ، ہوسناکی اور حیوانیت کا تو ایک پورا پس منظر ہے، جس کا "کھُرا"بے حجابی سے حاصل ہونے والی لذت میں ہے۔
پس:
اذالم تستحي فاصنع ما شئت
جب تم حیا نہ کرو تو پھر جو چاہے کرو ! (حديث)
قاری عارف کی پوسٹ
0 Comments