Thursday, December 22, 2022

امی جان

میں اپنے والدین کی قبروں پر فاتحہ پڑھ کر فارغ ہی ہوا تھا کہ میری نظر اس پر پڑی ۔ ملگجا اور بے تاثر چہرہ، کھچڑی بال اور داڑھی، سر پر ٹوپی جو گرد میں اٹ کر اپنا اصلی رنگ کبھی کا کھو چکی تھی ، پرانے کپڑے اور بغل میں دبی بیساکھی ۔ "ہونہہ پھر آ گیا حرام خور" میرے دل میں دبی گداگروں کیلئے فطری نفرت پھر سے عود آئی۔ "میرے سامنے آیا تو اسکو اوقات یاد دلا دوں گا" میں نے دل ہی دل میں گویا دانت پیسے اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔

میرا اس شخص سے سامنا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ ہفتے میں ایک بار دفتر کے بعد فاتحہ کیلئے رکنا میرا برسوں کا معمول تھا۔ شہر کی بھیڑ بھاڑ سے دور قبرستان میں چند لمحے رک کر بینچ پر وقت گزارنے اور خود کلامی سے مجھے بہت سکون ملتا۔ تدفین کے علاوہ یہاں لوگ شاذونادر ہی نظر آتے ۔ ویسے بھی غرض کے رشتے نبھانا تو صرف زندوں کو ہی زیب دیتا ہے ۔ ان خاموش مکینوں سے کسی کو کیا دلچسپی ہو سکتی تھی ۔ 

چند ہی روز گزرے تھے کہ اس سے ایک بار پھر مڈبھیڑ ہو گئی۔ اب کی بار میری ناگواری کا احساس قدرے کم تھا۔ شاید اسکے پیچھے وہ احساس تفاخر تھا جو آج صبح سے میرے رگ و پے میں سمایا ہوا تھا۔ دراصل آج صبح ہی باس نے بلا کر میرے کام کی تعریف کی تھی اور اگلے سال کی پروموشن کے امیدواروں کیلئے میرا نام منتخب کیے جانے کا مژدہ سنایا تھا۔ فطری طور پر میرے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے ۔ اسی خوشی میں میں نے بیوی بچوں کیلئے کچھ خریداری بھی کر لی تھی۔ 

اسی احساس کے زیر اثر قبروں کے درمیان سے اپنا راستہ بناتے ہوئے اسکے پاس سے گزرتے ہوئے آج میں نے اپنی خود ساختہ عظمت اور سخاوت کی تسکین کیلئے اسکی جانب پانچ سو روپے کا نوٹ بڑھا دیا۔ "میں مانگنے والا نہیں ہوں۔" اسکے دھیمے لہجے میں بھی ایسی تپش تھی کہ میرا جسم یکلخت سنسنا سا گیا۔ "میری مردم شناسی ناکام نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک پیشہ ور بھکاری ہے '۔ میرے اندر کہیں ایک کھوکھلی سی آواز گونجی ۔ "تو پھر تم یہاں روز کیا کر رہے ہوتے ہو؟' میں نے اپنی بوکھلاہٹ کو بمشکل چھپاتے ہوئے قدرے رعب دار آواز میں پوچھا۔ جواب میں اس نے محض مجھے نظر بھر کر غور سے دیکھا۔ آج پہلی بار مجھے اسکی آنکھوں میں جھانکنے کا اتفاق ہوا۔ دو سلگتی آنکھیں جن میں شاید برسوں کے نوحے پوشیدہ تھے۔ یکایک میرے اندر موجود خود ستائی کا وہ آخری بت بھی شاید ڈھے گیا۔ 

اسنے اپنے بائیں جانب ایک کتبے کی طرف اشارہ کیا۔ "پیاری امی جان ۔ رضیه بی بی۔ تاریخ وفات 13 مارچ 2003"۔ میں ابھی اس سالخوردہ کتبے کو پڑھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ وہ قدرے نرم آواز میں بولا۔ "یہاں اپنے ماں باپ کیلئے آتے ہو"؟ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ "ان سے بہت پیار کرتے تھے" ؟ پھر میرے جواب کا انتظار کئے بنا بولا۔ "بیٹھو گے؟" میرے پاس گویا انکار کی گنجائش ہی نہ تھی۔ وہ جو غالباً میرے چہرے پر ثبت سوچ کو پڑھ چکا تھا، ایک توقف کے بعد گویا ہوا۔ "یہ سب ویسا نہیں ہے جیسا تم سوچ رہے ہو۔ میری عمر سینتالیس سال ہے اور میری اپنی ماں سے آخری ملاقات چار سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ تب سے اب تک۔۔۔" یہاں تک پہنچ کر شاید اندرونی انتشار کے آگے اسکے الفاظ ہار گئے ۔ چند لمحوں بعد اس نے اپنی میلی سے بوتل سے چند گھونٹ پانی پیا اور یوں شروع ہوا ۔

"میرا نام شفیق ہے اور میرا تعلق یہاں سے دو کوس دور ایک گاؤں سے ہے۔ میرا ماموں بتاتا ہے کہ میری پیدائش پر ماں باپ نے پورے گاؤں میں برفی بانٹی تھی۔ شاید یہ میرے وجود سے متعلق پہلی اور آخری خوشی تھی۔ میرا باپ گاؤں کے ساتھ والے بس اڈے پر مرونڈے اور مونگ پهلیاں بیچتا تھا جبکہ ماں کھیتوں میں دیھاڑی پر فصل کی کٹائی کرتی تھی۔ باپ کا خیال تھا کہ میں بڑا ہو کر اسکا کام ساتھ والے گاؤں میں پھیلاؤں گا۔ ہم غریب لوگ اس سے زیادہ اونچے خواب دیکھنے کی جرات کر بھی نہیں سکتے۔" 

"جب میں نے چلنا شروع کیا تو میری ٹانگ میں لنگڑاہٹ تھی جو وقت کے ساتھ بڑھتی چلی گئی ۔ ساتھ ہی ایک ٹانگ سوکھنا شروع ہو گئی۔ گاؤں کے ڈسپنسر نے باپ کو بتایا کہ یہ پولیو ہے جو خاندان میں اوپر تلے کی شادیوں کی وجہ سے ہوا ہے اور لاعلاج ہے۔ یہ جان کر بابا کی آنکھوں کے دیپ بجھ سے گئے۔ شاید انکا بوجھ بانٹنے والا خود ایک بوجھ بن کر رہ گیا تھا۔"

یہاں پہنچ کر شفیق ایک لمحے کیلئے خاموش ہو گیا جیسے اپنی سوچوں کا تانا بانا بن رہا ہو۔ پھر گود میں رکھے ہاتھوں کو گھورتے ہوئے گویا ہوا۔ "زندگی ایک سست سی ڈگر پر چل رہی تھی۔ میری حالت کی وجہ سے ماں مجھے کام پر ساتھ نہیں لے جا سکتی تھی چنانچہ میں گھر پر یا گلی کے تھڑے پر اسکی راہ دیکھتا رہتا۔ کھیل کود میں حصہ نہ لے پانے کی وجہ سے محلے کے بچے بھی مجھ سے کتراتے بلکہ اکثر تو آتے جاتے مجھ پر استہزائیہ جملے بھی اچھال دیتے۔ انکے لئے میں صرف ایک لنگڑا تھا، محلے کا ایک ناکارہ اور غیر ضروری سا حصہ۔ سنا ہے بچپن زندگی کا سب سے خوبصورت دور ہوتا ہے۔ میرے لئے تو یہ صرف ایک تکلیف دہ یاد تھا اور بس۔ ان سب میں واحد سہارا ماں کا ہوتا تھا جب وہ کھیتوں سے آ کر مجھے اٹھا کر گھر لے جاتی، مجھے نہلا دھلا کر صاف ستھرا کرتی اور میرے ساتھ باتیں کرتی۔ میرا پورا دن ان چند گھنٹوں کے انتظار میں گزرتا"۔

"پھر وہ تاریک دن آ پہنچا جہاں سے میری اصل بدقسمتی کا آغاز ہوتا ہے۔ ابھی سورج ڈوب رہا تھا۔ ماں ہانڈی پکا رہی تھی اور میں فرش پر بیٹھا تنکے سے مٹی کرید رہا تھا کہ اچانک گلی میں شور سا اٹھا۔ کچھ لوگ میری ماں کو اونچا اونچا پکار رہے تھے ۔ اور پھر آنا فانا گھر کے صحن میں چادر میں بندھا ہوا ایک خون آلود کچلا ہوا وجود پڑا تھا جسے میں صبح تک اپنا باپ کہتا تھا۔ روڈ پر دو بسوں کی اندھی ریس نے ایک لمحے میں میرا اور میری ماں کے سر کا سایہ نگل لیا۔ "

"دو تین دن تک ہمارے گھر میں سوگ اور رونا پیٹنا چلتا رہا۔ پھر ماں دوبارہ کام پر جانے لگی۔ خوشی ہو یا غمی، ہم غریب اسکو ایک حد سے زیادہ نہیں سہار سکتے۔ خالی پیٹ ہمارے طبقے کا سب سے بڑا سوگ ہوتا ہے۔ رہ گیا میں، تو میرا شعور ابھی آگہی کی اس منزل تک نہیں پہنچا تھا کہ يتیمی کے درد کا احساس کر سکتا۔ ہاں مجھے کندھے پر بٹھا کر پھرانے والے بازو کہیں کھو گئے تھے"۔

"شب و روز واپس اسی ڈگر پر آ گئے۔ بس فرق اتنا پڑا کہ ماں اور میں اٹھ کر نانا نانی کے گھر آ گئے جو دو گلیاں چھوڑ کر ہی تھا۔ تحفظ کے احساس کے علاوہ وہاں کچھ نیا نہیں تھا۔ وہی بیگانگی اور وہی اجنبیت ۔ ماں بھی اب کمہلا سی گئی تھی ۔ میری ضروریات اب بھی وہی پوری کرتی، مگر اسکے لہجے میں اب کچھ تھکن اور چڑچڑاہٹ سی در آئی تھی"۔ 

"چھ مہینے ایسے ہی گزر گئے۔ گو کہ ماں نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا مگر پھر بھی لوگ ہم سے کنی کتراتے۔ ہم جیسے لوگوں میں دوسروں سے اجتناب بھی اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کا ایک انداز ہوتا ہے۔ ماں نے چونکہ کم عمری میں ہی زندگی کا یہ بهیانک رنگ دیکھ لیا تھا اسلئے اس پر ایک خاموشی سی طاری ہو گئی تھی۔ ایسے میں ایک دن محلے کی ایک عورت کے توسط سے اس کیلئے باسط کا رشتہ آ گیا"۔

"باسط کی ہمارے علاقے میں کریانے کی دکان تھی جبکہ گھر کسی اور بستی میں تھا۔ رنڈوا اور اکیلا تھا۔ عمر میں ماں سے شاید دوگنا تھا۔ شادی کی واحد شرط یہ تھی کہ اسے میرا بوجھ اٹھانا گوارا نہیں تھا۔ میری عمر اس وقت چار سال تھی۔ ماں نے حسب توقع انکار کردیا جس پر گھر میں طوفان سا آ گیا۔ منت ، التجا اور پھر آخر میں دھمکیاں سب کچھ کیا گیا۔ ان سب میں ماموں پیش پیش تھے کیونکہ سردیوں میں انکی شادی طے شدہ تھی اور نئی دلہن کی سردی سے حفاظت کیلئے دوسرے کمرے کی اشد ضرورت تھی جہاں میں اور ماں قیام پذیر تھے۔ نئے کمرے کے نام پر لیا گیا جہیز پہلے ہی فصل کی کاشت پر لگ چکا تھا ۔ قصہ مختصر ماں کو اس شرط پر تیار کر لیا گیا کہ ماموں میرا خیال اپنی اولاد کی طرح رکھیں گے اور یوں چند روز بعد ماں کی سادگی سے شادی اور رخصتی ہو گئی۔ ہمارے یہاں ویسے بھی دوسری شادی دنیاوی کے بجاۓ مسنون طریقے سے کرنا احسن سمجھا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے اس روز ماموں مجھے بہلا کر کھیت کی سیر کرانے لے گئے تھے اور میں اس غیر متوقع محبت کے سحر میں ساتھ چلا گیا تھا ۔ واپس آ کر جب ماں کو غائب پایا تو بہت تڑپا اور مچلا مگر ماموں اور نانا نانی کے آگے میری ایک نہ چل پائی"۔

"ماں کی شکل میں میری زندگی میں جو واحد رنگ تھا وہ بھی ختم ہو چلا تھا۔ میں نے اپنے آپ کو ایک خول میں قید کر لیا۔ ویسے بھی میرے اردگرد کوئی ایسا نہیں تھا جسے میری کیفیت سے کوئی فرق پڑتا ۔ ماں ہر دو تین ہفتے بعد چند گھنٹوں کیلئے نانا نانی سے ملنے آتی۔ اس وقت مجھے گھر سے غائب کر دیا جاتا۔ اسکے شوہر کا کام کافی چل نکلا تھا جس پر محلے والوں کا خیال تھا کہ یہ سب ایک بیوہ کی دست گیری کی برکت ہے۔ نجانے لوگ ایسی نیکیاں کرتے وقت کیوں بھول جاتے ہیں کہ یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنا بھی تو ایک اتنی ہی عظیم نیکی ہوتی ہے۔ شائد ہمارے معاشرے میں نیکی کے پیمانوں میں جسمانی اور مالی ضروریات کے مطابق گنجائش رکھی جا سکتی ہے۔ چونکہ ماں کا شوہر خوشحال تھا اسلئے وہ گاہے بگاہے تھوڑی بہت مالی مدد بھی کرتی رہتی تھی تاہم اسکے اثرات مجھ تک کبھی نہیں پُہُنچے"۔ 

"ماموں کی شادی کے بعد میں نے لاشعوری طور پر ممانی میں ماں ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر انہوں نے مجھے اس قدر بے رحمی سے دھتکارا کہ مجھے دوبارہ کبھی ہمت نہ پڑی۔ رہنے کیلئے مجھے اناج والی کوٹھری میں جگہ مل گئی تھی اور وہی میری کل کائنات تھی"۔ 

"آٹھ نو سال کا ہوا تو ماموں نے مجھے منياری کا کام سیکھنے کیلئے علاقے کی مارکیٹ میں استاد صادق کی دکان پر بٹھا دیا۔ میں نے بھی اس فرار کو اپنے لئے غنیمت جان کر پوری محنت کے ساتھ کام سیکھنا شروع کر دیا۔ دکان میں ہفتے میں چھ دن صبح سے رات تک کام کرنا ہوتا۔ سکھائی کی کوئی تنخواہ نہیں تھی مگر دوپہر کا کھانا استاد کے ذمے تھا"۔ 

"شروع شروع میں تو استاد کا رویہ میرے ساتھ اچھا تھا مگر جوں جوں اسکو میرے گھر کے حالات معلوم ہوئے تو اسکا برتاؤ جارحانہ ہوتا گیا۔ اور پھر ایک دن موقع پا کر دکان کے اوپر بنے سٹور میں اس نے مجھے اپنی حیوانیت کا نشانہ بنا ڈالا۔ میں بہت رویا چلایا مگر اس پر وحشت سوار تھی۔ آخر میں اس نے مجھے دھمکی دی کہ اگر میں نے زبان کھولی تو وہ میرے ماموں کو میری بدکرداری کی شکایت لگا دیگا۔ یہ حربہ کارگر رہا۔ پھر رفتہ رفتہ یہ معمول بنتا چلا گیا۔ مجھے اعتراف ہے کہ میرا ذہن خوف اور صدمے سے ماؤف ہو چکا تھا جسکا استاد نے پورا فائدہ اٹھایا۔ اس دن مجھے اپنے باپ کی کمی بہت شدت سے محسوس ہوئی۔ اگر وہ میرے سر پر ہوتا تو شاید مجھے اس عذاب سے نہ گزرنا پڑتا۔ اسکی یہ شیطانیت تقریباً دو سال تک جاری رہی۔ پھر اسکی توجہ نئے شاگردوں پر منتقل ہو گئی"

"ایک کے بعد دوسری دکان پر کام کرتے کرتے میری عمر تقریباً بیس سال ہو گئی۔ چونکہ میری زندگی میں اسکے علاوہ کوئی اور مقصد کوئی اور مصروفیت نہیں تھی چنانچہ میرے کام میں پختگی آتی گئی اور میرا کڑھائی کا کام پسند کیا جانے لگا۔ اس دوران میں نے کئی بار ماں کی خبر لینے کی کوشش کی۔ اسکے باسط سے دو بیٹے ہو چکے تھے اور وہ پوری طرح اپنی نئی زندگی میں مصروف ہو چکی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ میری یاد بھی اسکے ذہن سے محو ہو چکی ہو کیونکہ وہ نانا نانی کے گھر بھی کئی کئی مہینوں بعد ہی آتی تھی۔ ویسے بھی ان دونوں کے انتقال کے بعد وہ گھر اب صرف ماموں کے استعمال میں تھا۔ رہا میں تو میری آمد صرف رات کو سونے کیلئے ہی ہوتی۔ باقی سارا دن کا وقت میں مارکیٹ کی نذر کر دیتا۔ ماموں ممانی کی مہربانی تھی کہ وہ میرا وجود اب تک برداشت کر رہے تھے"۔

"انہی دنوں ایک روز لاہور کی ایک پارٹی مارکیٹ میں مال لینے آئی ۔ وہ لوگ میرے کام کی نفاست سے متاثر ہوئے اور مجھے لاہور میں اپنے ساتھ کام کرنے کی آفر کی جسے میں انکار نہ کر سکا۔ ویسے بھی میرا اب یہاں کوئی ایسا رشتہ نہ بچا تھا جو میرے پاؤں کی زنجیر بنتا۔ یوں تین ہفتے بعد میں انار کلی بازار پہنچ گیا۔ شوروم کے مالک محب صاحب تھے جو پڑھے لکھے اور خدا ترس انسان تھے۔ انکے ساتھ کام کرکے مجھے کبھی غیریت اور اجنبیت کا احساس نہ ہوا۔ تھوڑا تھوڑا کر کے انہوں نے مجھے پڑھنا لکھنا بھی سکھا دیا اور یوں مجھے کتابوں کی صورت میں تنہائی کا ایک سہارا مل گیا۔ یوں بھی صنف نازک کی نہ مجھے کبھی کوئی توجہ ملی تھی نہ ہی مجھے اس حوالے سے کوئی خوش فہمی تھی اسلئے مجھے اندازہ تھا کہ میں نے باقی زندگی اکیلے ہی گزارنی ہے"۔ 

"میری زندگی لاہور آنے کے بعد کسی حد تک پرسکون ہو گئی تھی۔ اپنے شہر سے دور ہو جانے کی وجہ سے تکلیف دہ یادوں کی چبھن بھی کم ہو چلی تھی۔ محب صاحب اور انکے خاندان کا رویہ بھی میرے ساتھ بہت دوستانہ تھا جسکی وجہ سے مجھے کبھی بھی وہاں سے جانے کا خیال نہیں آیا۔ انہوں نے میری ذمہ داریاں اور تنخواہ بھی بڑھا دی تھیں اور گاہے بگاہے میرے پڑھنے کے شوق کو دیکھتے ہوئے رسائل، ناول اور دینی کتابیں وغیرہ خرید کر بھی بھجوا دیتے تھے۔ اسی طرح دس گیارہ سال گزر گنے"۔ 

"محب صاحب نے مجھے مارکیٹ کے قریب ایک الگ کمرہ بھی رہائش کیلئے کراۓ پر لے دیا تھا۔ رات کو کام سے فارغ ہو کر آتا تو اکثر ایک معصوم اور بے ضرر سا آوارہ کتا اکثر باہر بیٹھا ہوا ملتا۔ میں کبھی کبھار اپنا بچا ہوا کھانا اسکو ڈال دیتا جس وجہ سے وہ مجھ سے کافی مانوس ہو چلا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ روٹین سی بن گئی تھی ۔ میں روز اپنے کھانے سے کچھ بچا کر شاپر میں لے آتا ۔ وہ دم ہلاتا ہوا آتا اور اپنا کھانا اٹھا کر لے جاتا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اگر مجھے آنے میں دیر سویر بھی ہو جاتی تو شائد اسکو میری آمد کا احساس ہو جاتا اور وہ میرے دروازے پر پہنچنے سے پہلے ہی لپک کر نمودار ہو جاتا۔ یوں لگتا تھا کہ میں اور وہ غیر محسوس طریقے سے ایک رشتے میں بندھ گئے تھے۔ میں نے اسکا نام ٹامی رکھ دیا تھا"۔

"شاید سب یوں ہی چلتا رہتا اگر ایک دن نثار احمد کی شکل میں میری جھیل میں ایک پتھر آ کر نہ گرتا۔ نثار میرے محلے کا رہنے والا تھا۔ بعد میں اس نے بھی مارکیٹ میں دھاگے بٹن کا کام شروع کر دیا تھا۔ یہ وہ واحد شخص تھا جس سے میری تھوڑی سی دعا سلیک تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ میرے گھریلو حالات سے بھی تھوڑی بہت واقفیت رکھتا تھا۔ لاہور آنے کے بعد میری کچھ عرصۂ خط و کتابت رہی تھی مگر اب اس بات کو بھی کئی سال گزر چکے تھے۔ چند روز قبل دکان کا سامان خریدنے کیلئے اسکی لاہور آمد ہی تھی۔ کام سے فراغت کے بعد وہ دکان کا پتا ڈھونڈتا ہوا میرے پاس پہنچ گیا۔ سچ پوچھو تو مجھے اسکی بے موقع آمد سے کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ شائد میں خود بھی اپنے حالات کے ہاتھوں کسی حد تک مردم بیزار ہو چکا تھا۔ بہرطور وہ تقریباً دوپہر کے کھانے کے وقت پہنچا تو میں نے اسے اخلاقاً ساتھ کھانے کی دعوت دے دی۔ کھانے کے دوران میرے نہ چاہتے ہوئے بھی گھوم پھر کر بات ہمارے شہر کے حالات پر جا پہنچی۔ اسکی زبانی معلوم ہوا کہ ماموں چند سال قبل چارے کی مشین میں اپنا ایک ہاتھ حادثے میں گنوا بیٹھے تھے اور اب بہت مشکل سے کھیتوں کا کام کر پا رہے تھے۔ استاد صادق کو سانپ نے کاٹ لیا تھا۔ بروقت علاج سے جان تو بچ گئی تھی مگر زہر پھیلنے کی وجہ سے ٹانگ ناکارہ ہو گئی تھی اور وہ بستر کا ہو کر رہ گیا تھا ۔نجانے کیوں مجھے یہ سن کر ایک عجیب سی مسرت محسوس ہوئی ۔ شائد تلخی کی رشتوں میں ایسا ہی ہوتا ہے"۔

"نثار کا اگلا انکشاف میرے سر پر گویا بم بن کر گرا۔ تقریباً ایک مہینہ قبل باسط اور ماں رات کو کسی شادی میں شرکت کے بعد واپس آ رہے تھے کہ ایک بس نے انکی گاڑی کو ٹکر مار دی۔ "شفیقے یہ وہی روڈ تھی جہاں سے تیرے ابّا کو گاؤں والے اٹھا کر لاۓ تھے" ۔ نثار اپنی دھن میں بولتا رہا۔ "باسط تو اپنی زندگی ہار گیا جبکہ تیری ماں تب سے اب تک ہسپتال میں پڑی ہے۔ آدھے سے زیادہ جسم مفلوج ہو گیا ہے اور سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے یاداشت اور آنکھیں ضائع ہو چکی ہے۔ اسکی اولادوں کو تو باپ کے پیسوں کی غرض ہے۔ گاؤں میں علاج ممکن نہیں تھا تو ماں کو شہر کے سرکاری ہسپتال میں پھینک کر غائب ہوگئے ہیں"۔

"میں نے حتی الوسع کوشش کی کہ اپنے آپ کو غیر جذباتی اور لاتعلق ظاہر کرتا رہوں مگر میں اندر سے ہل کر رہ گیا تھا ۔ نثار کے رخصت ہونے کے بعد میں نے محب صاحب سے اجازت لے کر دکان سے جلدی نکل آیا۔ رات گئے تک بے مقصد سڑکوں پر پھرتا رہا۔ کھانے کا سوچا مگر آج بھوک بھی شاید مر سی گئی تھی ۔ اسی جھکڑ جھکڑ سے ذہن کے ساتھ آخر تھک ہار کو کمرے میں آیا تو ٹامی کو سامنے پایا۔ آج پہلی بار میں نے اسکو نظر انداز کر کے دروازہ کھولا اور اندر آ کر بے سدھ ہو کر سو گیا"۔ 

"اگلے چند روز انتہائی سخت ذہنی کشمکش میں گزرے۔ میں تو اپنی ساری زنجیریں توڑ کر اور ماضی کے طرف لے جانے والے تمام راستے بند کر کے آیا تھا تو پھر یہ بے کلی کیسی تھی۔ ماں نے تو مجھے خود اپنی زندگی سے الگ کیا تھا تو اب ایسا کیا ہے کہ میرا دل اسکی تکلیف سن کر تڑپ اٹھا ہے۔ ذہن سمجھا رہا تھا کہ مڑ کر دیکھوں گا تو پتھر کا ہو جاؤں گا مگر دل تھا کہ کسی تاویل کو خاطر میں نہیں لا رہا تھا۔ واقعی خون کے رشتے زخم پر آئی کھرنڈ جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ان کو کھرچنے کی قیمت رستے لہو سے ہی چکانی پڑتی ہے"۔ 

"اسی ادھیڑ بن میں دو ہفتے گزر گئے۔ اس دوران میرا کام اور صحت دونوں بہت بری طرح متاثر ہوئے ۔ محب صاحب نے بھی چیز نوٹ کی مگر میری پچھلی کارکردگی کی وجہ سے خاموش رہے۔ آخر کار آہستہ آہستہ میرا استدلال میرے اضطراب پر غالب آ گیا . مگر مجھے اعتراف ہے کہ اسکا نتیجہ سکون کے بجاۓ مزید کرب میں نکلا۔ میری بھوک پیاس اور رات کی نیند اڑ گئی۔ میں راتوں کو سجدے میں گر کر اللّه سے سکون اور ارتکاز کی التجا کرتا مگر شاید میرے اللّه نے میری زندگی میں مزید امتحان لکھے ہوئے تھے"۔ 

"اس سارے عرصے میں جہاں میرے باقی معمولات متاثر ہوئے وہیں ٹامی کا رات کا کھانا بھی ختم ہو کر رہ گیا۔ وہ بے زبان مجھے دیکھ کر روز دم ہلاتا ہوا آتا مگر میں اسے نظر انداز کر دیا کرتا۔ مگر وہ بھی رضا کی تصویر بنا روز پہنچ جاتا۔ کبھی کبھی مجھے اسکی مستقل مزاجی سے چڑ ہوتی۔ ایک دن تو جھنجھلا کے اس کی جانب ایک پتھر بھی اچھال دیا مگر اگلے روز وہ ڈھیٹ پھر وہیں موجود تھا۔ تنگ آکر میں نے اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا"۔

"چند روز بعد ایک دن میں رات گئے کمرے پر پہنچا تو وہ حسب عادت کہیں سے نکل آیا۔ مگر آج غیر معمولی چیز یہ ہوئی کہ اسکے منہ میں ایک شاپر دبا ہوا تھا جو اسنے دروازے پر رکھ دیا اور خود ایک قدم پیچھے ہو کر دم ہلانے لگا۔ میں نے اچنبھے میں جھک کر تھیلی کھولی تو اس میں کسی کا بچا ہوا کھانا تھا۔ ابھی میں اس پر غور کر رہا تھا کہ میرے ذہن میں جھماکہ سا ہوا۔ شاید اس بے زبان نے ان تین چار ہفتوں میں میری بے رخی سے یہ نتیجہ نکالا کہ میرے پاس کھانے کو نہیں ہے اور بیچارہ میرے لئے کہیں سے یہ تھیلی ڈھونڈھ لایا" ۔ 

"یکایک مجھے شرمساری کے احساس نے گھیر لیا ۔ اس حیوان نے میرے چند روز کے جوٹھے ٹکڑوں کر عیوض بھی وفاداری نبھائی اور ایک میں ہوں کہ اس ماں کے وجود سے ہی انکاری ہو گیا جس نے مجھے پیدا کیا اور معذوری میں پالا پوسا۔ مجھے معلوم تھا اس کی دوسری شادی اور مجھ سے علیحدگی ایک مجبوری کا مسلط کیا گیا فیصلہ تھا۔ مگر کیا میں کتے سے بھی بدتر نکلا کہ اس کی محبت کا قرض اتارنے میں بھی تاویلیں اور حیلے تلاش کرتا رہا۔ مجھے یوں لگا کہ اچانک میرے ذہن پر چھاۓ بدل چھٹ گئے ہیں۔ایک چوپاے نے مجھے ایک لمحے میں میری آگہی سے ہمکنار کر دیا"۔ 

"اگلے روز میں محب صاحب سے ملا اور بلا کم و كاست پوری کہانی بیان کر دی اور ساتھ اپنا استعفیٰ پیش کر دیا ۔ انہوں نے مجھے لمبی چھٹی کا مشورہ دیا مگر میں اب فیصلہ کر چکا تھا ۔ اسی روز شام کی بس سے میں نے لاہور کو الوداع کر دیا"۔ 

"اگلے دن جب بس نے مجھے اڈے پر اتارا تو میں سیدھا وہاں سے ہسپتال پہنچا۔ وہاں ہر سرکاری ہسپتال کی طرح افراتفری کا عالم تھا۔ میں ایک وارڈ سے دوسرے وارڈ میں بھاگتا رہا مگر مجھے ماں کی صورت نظر نہیں آئی۔ ایسے میں شریف وارڈ بواۓ مجھے لیکر نرسنگ انچارج کے پاس چلا گیا۔ جب میں نے اسے پوری صورتحال سے آگاہ کیا تو اس نے مجھے بیٹھا کر پانی پلایا اور انتظار کرنے کو کہا۔ تقریباً دو گھنٹے کے بعد ایک نیک صورت ڈاکٹر صاحب آے اور مجھے ساتھ آنے کیلئے کہا ۔جب انہوں نے تصدیق کیلئے سوال جواب کیے تو میں نے اپنا دل کھول کر سامنے رکھ دیا ۔ میری کہانی جان کر وہ ایک لمحے کیلئے خاموش ہو گئے۔ پھر کہنے لگے "میں تمہیں تمہاری ماں سے ملوانے لے جا سکتا ہوں۔ وہ اب سکون سے ہے۔ مگر تمہیں میری ڈیوٹی ختم ہونے کیلئے شام تک انتظار کرنا ہوگا"۔ میں تو ماں تک پہنچنے کیلئے کچھ بھی کر سکتا تھا چنانچہ باہر بینچ پر جا کر بیٹھ گیا"۔ 

"شام پانچ بجے ڈاکٹر صاحب فارغ ہوکر میرے پاس آۓ اور ساتھ چلنے کا کہا۔ پورا راستہ وہ گاڑی میں خاموش رہے۔ مختلف سڑکوں سے ہوتی ہوئی جب گاڑی قبرستان کے دروازے پر پہنچی تو میرا دل بیٹھ سا گیا۔ انہوں نے خاموشی سے میرا ہاتھ تھپتھپایا اور آنے کا اشارہ کیا ۔ مختلف قطاروں سے گزرتے ہوئے ہم آخر ایک تازہ قبر پر پُہُنچے جس پر چونے سے ایک نمبر لکھا ہوا تھا ۔ "تمہاری ماں کا انتقال تقریباً دس دن پہلے ہو چکا تھا۔ چونکہ اسکے ورثا اپنا فون نمبر چھوڑ کر چلے گئے تھے اسلئے ہم نے ان سے رابطہ کیا جس پر ہمیں سرد مہری سے جواب ملا کہ وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اسلئے آخری رسومات زکات فنڈ سے ادا کر دے جائیں۔ آخر کار ہم نے ضروری کاروائی تک انکو سرد خانے میں رکھا اور پھر ایک ہفتہ قبل انکو یہاں دفنا دیا۔ تم یہاں آنے والے پہلے شخص ہو"۔ مجھے لگا کہ میری ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے اور میں وہیں بیٹھ گیا۔ شدید صدمے کے احساس سے میرا ذہن مفلوج سا ہوگیا تھا"۔ 

"آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھے ساتھ واپس چلنے کیلئے کہا مگر میں نے منع کر دیا ۔ مجھے نہیں معلوم کہ میری کیفیت دکھ کی تھی، احساس پشیمانی کی یا صدمے کی، مگر میری سوچنے سمجھنے کی قوت ختم ہو چکی تھی۔ مجھے اندازہ ہی۔ نہیں ہوا کہ کب شام ڈھلی اور رات کی تاریکی چھا گئی۔ میرا یہ قبرستان آنے کا پہلا واقعہ تھا۔ تدفین کیلئے تو عزیز رفقا کی خاطر آنا پڑتا ہے اور میری زندگی تو ہمیشہ اکیلے ہی گزری تھی۔ قسمت کے کھیل ایسے کہ میں یہاں اپنی ماں کی تلاش میں آیا اور وہ بھی ایسے وقت میں کہ اسکو بے نام و نشان دفنا دیا گیا تھا۔ میرے آنسو کبھی کے خشک ہو گئے تھے ۔ رات گہری ہوئی تو میں اسی قبر سے لپٹ کر سو گیا"۔ 

"اگلی صبح گورکن آیا تو میری مٹی سے اٹی حالت دیکھ کر سمجھا کہ میں کوئی مجذوب یا کفن چور ہوں۔ جب اسکو میرے حالات سے آگاہی ہوئی تو اس نے ترس کھا کر مجھے اپنی کوٹھری میں پناہ دے دی۔ تب سے آج تک میں وہیں رہتا ہوں۔ یا تو قبرستان کے چھوٹے موٹے کاموں میں اسکی مدد کر دیتا ہوں یا کبھی کبھار مارکیٹ سے کڑھائی کا کوئی کام اٹھا کر رزق کا سامان کرتا ہوں۔ باقی وقت اسی جھوٹی آس میں گزار دیتا ہوں کہ شاید ایک دن ماں پھر اٹھے گی، میرے الجھے ہوئے بالوں میں کنگھی کرے گی، مجھے گلے سے لگا کر مجھ سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرے گی اور چولہے کے ساتھ بٹھا کر اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاۓ گی۔ اب بس دعا ہے کہ اللّه جلد مجھے میرے ماں باپ سے ملا دے۔ میں اس زندگی کی تکلیف مزید نہیں سہہ سکتا"۔ 

میں نے اپنی نم آنکھیں اٹھا کر دیکھا تو اسکا دامن آنسووں سے بھیگ چکا تھا۔ "بس بابو جی آپ سے ایک التجا ہے۔ اپنے رشتوں کو کبھی ضد یا انا کی بھینٹ نہ چڑھائیے گا۔ توبہ کا دروازہ ایک بار بند ہو جاۓ تو پیچھے صرف پچھتاوے رہ جاتے ہیں ۔ اس شفیق جیسے زندہ، تڑپتے اور روز روز مرتے ہوئے پچھتاوے"۔ وہ میرے سامنے ہاتھ جوڑے ہچکیاں لے کر رو رہا تھا اور میں برف کی ایک سل کی طرح جامد قبروں کی قطار کو تک رہا تھا۔ 

رات ڈھل چکی تھی۔۔۔۔ 
(عدیل کاظمی )

Share this


0 Comments