میں ایک پاکستانی
وہ پاکستان جو گندم کی پیداوار میں 7واں بڑا ملک ہے۔
یہ میری وہ کتابیں ہیں جو آج تک مجھ سے جدا نہیں ہوئی۔ کلاس نہم سے لیکر ماسٹر تک سارا نصاب ابھی تک موجود ہے۔ لیکن زندگی نے جو سبق دیا وہ ان میں سےکسی کتاب میں نہیں۔ جو ان کتابوں میں پڑھا ایسا کچھ بھی میری زندگی میں نہیں۔ نہ قائد اعظم کے چودہ نکات۔ نہ اکبر بادشاہ۔ نہ الجبرا۔ نہ مسٹر چپس۔ نہ سطح مرتفع پوٹھوہار۔ نہ ہی وہ پاکستان جو گندم کی پیداوار میں ساتواں خود کفیل ملک ہے۔
مجھے پیسے کمانے کا طریقہ تو بتایا نہ گیا۔ بس فوٹو سنتھسیز کا عمل پڑھاتے رہے۔ سارا دن کمسٹری کے فارمولے کو رٹہ لگواتے رہے۔ حالانکہ ہر چیز بنی بنائی ملتی ہے وہ بھی پیسوں سے۔ تو پیسہ کمانا تو کسی ماسٹر نے نہیں
سکھایا۔
بیالوجی کی کتنی شاخی ہیں اگر یاد نہ ہوا تو فیل۔ لیکن میرے سے کتنے لوگوں کی امیدیں وابسطہ ہیں یہ کہیں نہیں لکھا۔
تمام helping verb یاد ہیں مجھے لیکن helping work کوئی بھی یاد نہیں۔
مجھے my father مضمون آج بھی یاد ہے۔ لیکن father خوش کیسے رہتا ہے یہ نہیں پتا۔
میں نے پڑھا ہے کہ پاکستان میں نمک کی اپنے بڑے بڑے پہاڑ ہیں۔ لیکن مجھے اپنے اس پہاڑ کا ایک چھوٹا سا پتھر 100 روپے میں ملتا ہے۔
سوچنے لگا کہ اپنے اساتذہ سے پوچھو کہ آپ نے جو پڑھایا وہ صحیح تھا۔ جب استاد کا دروازاہ کھٹکھٹایا تو آواز آئی کہ وہ مردم شماری کے لئے گئے ہیں۔ دوسرے استاد کا پتا کیا تو معلوم ہوا کہ وہ سکول کے بعد ڈینگی مہم کی میٹنگ میں ہیں۔ تیسرے استاد کا کی طرف گیا وہ پولیوں ۔ یعنی میرے استادوں کو اصل مقصد سے ہٹا کر دوسرے کاموں میں لگا دیا۔ پھر ایک استاد یاد آیا کہ وہ اس وقت گھر ہوں گے۔ انکے گھر پہنچا تومعلوم ہوا کہ 3 گھنٹے ہو گئے وہ آٹا لینے گئے واپس نہیں آئے۔
پھر مجھے سمجھ آگیا کہ کچھ بھی نہیں ان کتابوں میں جو مجھے 3 وقت عزت کی روٹی دے سکے۔ اتنی کتابیں پڑھنے کا کیا فائدہ ہوا اگر مزدوری ہی کرنی تھی۔
آخر میں تلخ بات یہ کہ کتابیں مجھے اتنا بھی نہ سکھا سکی کہ جو کتابیں پڑھ کے میں زمانے میں معتبر ٹھہرا۔ لوگ مجھے پڑھا لکھا کہتے ہیں ۔ انہیں کتابوں پہ تبصرا کرنے لگ گیا۔ بندہ زیرک تو کتنا پاگل ہے۔ایک ایک لیکچر کے ہزاروں روپے دئیے۔ فیسیں جمع کروائی۔ داخلے جمع کروائیں۔ راتوں کو جاگ جاگ کر مشقیں لکھیں ۔ ایک ایک کتاب سینکڑوں ہزاروں میں خرید کر پڑھی تھی۔ اج ردی میں اسکا صرف 900 روپے ریٹ لگا۔ بہت دکھ ہوا مجھے کہ اتنا مہنگا علم اتنے سستے میں کیسے بیچ سکتا ہوں۔ لیکن کیا کرتا روٹی کمانا تو سیکھایا ہی نہیں گیا۔
پھر یوں ہوا کہ وہ ساری کتابیں 900 میں بیچ کر اپنے پاس سے 250 روپے ڈال کر 10 کلو آٹے کا تھیلا لے کر گھر آگیا۔
ہزاروں ڈگریاں لے کر، علم پر دسترس پا کر
چھلکتے لفظ آنکھوں سے ، نہ پڑھ پاؤ تو جاہل ہو۔💔
منتخب
0 Comments