MW
<link href='https://humayunxhan.github.io/Jameelnoori/stylesheet.css' rel='stylesheet' type='text/css'/> |
Early to bed and early to rise, makes a man healthy, wealthy and wise. |
<link href='https://humayunxhan.github.io/Jameelnoori/stylesheet.css' rel='stylesheet' type='text/css'/> |
Early to bed and early to rise, makes a man healthy, wealthy and wise. |
مجھے اپنے بچپن کے چودہ اگست کے ایام شدت سے یاد آئے۔ کیا جذبہ کیا شوق ہوا کرتا تھا! اگست کے شروع ہوتے ہی چودہ اگست منانے کی تیاریاں شروع ہو جایا کرتی تھیں۔ نہایت شوق و ذوق سے جھنڈیاں خرید کر لایا کرتے تھے۔ پھر خود ہی اپنے بڑوں کی رہنمائی میں آٹے کی لئی تیار کرتے تھے اور بڑی محنت سے جھنڈیوں کو ڈوریوں میں چسپاں کر کے جھنڈیوں کی متعدد لڑیاں تیار کیا کرتے تھے۔ اس کام کے لیے آج کے بچوں کی طرح گھر گھر جا کر چندہ جمع نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی جیب خرچ سے یہ کام سر انجام دیتے تھے۔ پھر ان جھنڈیوں کی لڑیوں کو گھر کی دیواروں پر خوبصورتی سے سجاتے تھے۔ سبز، سرخ اور نیلے رنگوں کی بہار آ جاتی تھی۔ اس کے بعد بانس پر قومی پرچم کو باندھ کر چھت پر زیادہ زیادہ اوپر لہرانے کی کوشش کرتے تھے تاکہ وہ محلے کے باقی جھنڈوں سے نمایاں نظر آئے۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کے بیجز اور اسٹیکرز وغیرہ ضرورت سے زیادہ خرید لیتے تھے اور پھر ان میں سے کسی ایک کو پسند کر کے چودہ اگست والے دن اپنے کپڑوں پر چسپاں کرنا بھی تو ایک مشکل فیصلہ ہوا کرتا تھا۔
لوگوں کو انتا مذہبی بنا دو کہ وہ محرومیوں کو قسمت سمجھیں، ظلم کو آزمائش سمجھ کر صبر کر لیں۔ حق کے لیے آواز اٹھانا گناہ سمجھیں،غلامی کو اللہ کی مصلحت قرار دیں اور قتل کو موت کا وقت معین سمجھ کر چپ رہیں۔
سعادت حسن منٹو
پاکستان کی پہلی عالمی شہرت یافتہ پوپ گلوکارہ نازیہ حسن بیگ 3 اپریل 1965ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک ہمہ جہت گلوکارہ تھیں۔پاکستانی موسیقی میں انہوں نے ایک نئی جہت متعارف کرائی۔انہوں نے اپنے بھائی زوہیب حسن کے ساتھ مل کر پوپ موسیقی کے کئی لازوال البم ترتیب دئیے۔پی ٹی وی کے کئی ایک شوز میں انہوں اپنی شوخ و چنچل اور مدھر آواز کا جادو جگایا۔ان کا پی ٹی وی کراچی مرکز سے نشر ہونے والا پنجابی گیت ٹاہلی دے تھلے بہہ کے آ کرئیے پیار دیاں گلاں،بہت مشہور و معروف ہوا۔
پوپ گلوکارہ نازیہ حسن بیگ کا اشتیاق بیگ کے ساتھ نکاح 30 مارچ،1995ء کو انجام پایا اور یہ شادی زیادہ دیرپا نہ رہی۔اس شادی سے ایک بچہ پیدا ہوا اور نازیہ حسن نے اشتیاق بیگ سے طلاق لے لی۔ نازیہ حسن پھیپھڑوں کے سرطان سے لڑتے ہوئے 13اگست،2000ء کو لندن میں انتقال کر گئی اور ہینڈن قبرستان کے مسلم حصہ میں دفن ہوئیں۔
نازیہ حسن پاکستان کی عالمی شہرت یافتہ پوپ گلوکارہ تھی جس کے پوری دنیا میں 65 ملین سے زیادہ ریکارڈ فروخت ہوئے۔ 1980ء میں ہندی فلم قربانی میں اس کا گایا ہوا نغمہ' آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے' اسے شہرت کی بلندیوں پر لے گیا اور اسے صرف پندرہ برس کی عمر میں فلم فیئر ایوارڈ برائے بہترین زنانہ گلوکارہ ملا۔اس کے علاوہ انہیں تمغہ برائے حسن کارکردگی اور بہترین پس پردہ گلوکارہ کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
اس قدر شہرت کی حامل گلوکارہ کی شادی شدہ زندگی بہت ناکام رہی اور وہ صرف 35 برس کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں۔
پچھلے دنوں ایک مسجد میں نئے امام کی تلاش جاری تھی۔ چند کمیٹی ممبران ایک مفتی صاحب کے پاس چلےگئے۔ رسمی سلام و دعا کے بعد مفتی صاحب نے آنے والوں سے آنے کا مدعا پوچھا :کیسے آنا ہوا؟
مسجدکمیٹی: بس آپ کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے تھے،آپ جیسے بزرگوں کی صحبت نصیب ہونا بھی سعادت کی بات ہے۔
مفتی صاحب:ماشاء اللہ! اللہ خوش رکھے۔ پھر بھی اگر کوئی کام ہے تو بتا دیں کیونکہ مجھے کسی کام سے باہر جانا ہے۔
مسجدکمیٹی:جی بس آپ سے ملنا بھی تھا اور ایک عرصے سے ہمارا آپ کے ہاں آنا جانا ہے تو ہم نےچاہا کہ ہم اپنی مسجد کےلیے امام صاحب بھی آپ ہی کے پاس سے لے جائیں۔
مفتی صاحب: پہلے امام صاحب کہاں ہیں؟
مسجدکمیٹی:انہیں فارغ کر دیا ہے۔
مفتی صاحب:کیوں؟
مسجدکمیٹی: ٹائم نہیں دیتے تھے۔
مفتی صاحب: کیا مطلب؟
مسجدکمیٹی: جی وہ نماز کے لیے ٹائم پر نہیں آتے تھے اور چھٹیاں بھی بہت کرتے تھے؟
مفتی صاحب:ٹائم پر کیوں نہیں آتے تھے؟
مسجدکمیٹی: جی وہ اِدھر اُدھر ٹیوشن پڑھانے نکل جاتے تھے پھر نماز پہ کبھی ایک منٹ رہتا تو پہنچتے اور کبھی بالکل عین جماعت کےٹائم پر پہنچتے تھے اور کبھی پہنچتے ہی نہیں تھےروز کسی نہ کسی نماز کی چھٹی کر لیتے تھے۔
مفتی صاحب:وظیفہ کیا دیتے ہیں؟
مسجدکمیٹی:جی ان کو آٹھ ہزار (8000)دیتے تھے اور اب آپ کے امام صاحب کو دس ہزار دیں گے۔
مفتی صاحب:امام صاحب فیملی کے ساتھ رہتے تھے؟
مسجدکمیٹی:نہیں اکیلے تھے ،ہمارے پاس فیملی رہائش کی سہولت نہیں ہے، اب کوشش کر رہے ہیں۔
مفتی صاحب:آپ جانتے ہیں کہ اس منصب کی ابتدا سید المرسلینﷺ نے کی اور خلفائے راشدین نے اسے پروان چڑھایا۔خلفائے راشدین بَیَکْ وقت حاکم بھی تھے اور امام بھی۔ ان کے بعد منصبِ امامت والے انہی کے نائبین کہلاتے ہیں۔اسی لیے مصلائے امامت کو مصلائے رسول اور منبرِ مسجد کو منبرِ رسول بھی کہتےہیں۔اب خود ہی سوچیں کہ یہ کتنا مقدس منصب ہے اور اس کی کتنی قدر ہونی چاہیے۔ آج کل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امام صاحب چوبیس گھنٹے مسجد میں موجود رہیں اور ہم جو بھی کہیں امام صاحب وہی کریں لیکن دوسری طرف لوگوں کی حالت یہ ہے کہ انہیں اتنا بھی وظیفہ نہیں دیتے جس سے ان کی ضروریات پوری ہو سکیں۔آج اس دور میں سرکاری طور پر ایک مزدور کا وظیفہ بھی چودہ ہزار (14000)مقرر ہے لیکن لوگوں کی کم ظرفی تو دیکھیں کہ جس منصب کا رتبہ ملک کے صدر و وزیر اعظم سے بھی اعلیٰ ہے اسے ایک مزدور کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے،ارے میرے نزدیک تو امام و قرآن کی قدر یہ ہے کہ امام صاحب جوصرف نمازِ فجر میں ہمیں قرآن سناتے ہیں اگر صرف ایک نماز پر انہیں ہم ایک لاکھ روپے وظیفہ دیں تو یہ بھی کم ہے۔اور یہاں اس مقام کی قدر یہ هے کہ لوگ سات آٹھ ہزار دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم ان پر بڑا احسان کرتے ہیں اوراگر ان کا اپنا بیٹا 30 ،40 ہزار بھی کماتا ہو پھر بھی انہیں کم نظر آتا هے اور انہی امام صاحب سے دعا کرائیں گے کہ بچے کی کوئی اچھی جاب لگ جائے، حیرت و افسوس کا مقام ہے۔لوگوں کا خیال ہے کہ امام صاحب اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے نہ ٹیوشن پڑھائیں نہ کچھ اور کام کریں صرف ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہیں۔کیا وہ انسان نہیں ہیں؟کیا ان کے بیوی بچوں کی ضروریات نہیں ہیں؟کیا وہ اپنے بیوی بچوں کو خوشیاں دینے کے مستحق نہیں ہیں؟آج لوگوں کو امام نہیں ایک نوکر اور غلام کی تلاش ہے، مہربانی فرما کر تشریف لے جائیں اور دوبارہ میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں۔
یہ کہہ کر مفتی صاحب چل دیۓ اور کمیٹی ممبران دیکھتے رہ گئے۔