Wednesday, June 15, 2022

شانِ عثمان غنی رضی اللہ عنہ

ایک حاجت مند حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کے دروازے پر غروبِ آفتاب کے بعد آیا۔ ابھی اس نے دستک نہ دی تھی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
وہ اپنی اہلیہ سے شکایت کر رہے تھے کہ ’’چراغ کی بتی موٹی ہے جو تیل زیادہ استعمال کرنے کا سبب بن رہی ہے۔‘‘ حاجت مند نے جو سنا تو وہ سوچتا ہی رہ گیا کہ وہ ایسے شخص سے حاجت براری کی کیا توقع کرے جو تیل کے معمول سے زیادہ خرچ پر اپنی بیوی کو سرزنش کر رہا ہے۔ اس نے ارادہ کیا کہ حاجت بیان کر دیکھوں، شاید میری کچھ امداد کر ہی دیں۔ دستک سن کر حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ باہر آئے۔ حاجت مند نے اپنی حاجت بیان کی اور لہجے میں زیادہ زور دیتے ہوئے کہا کہ ضرورت کچھ زیادہ ہی ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ نے اس شخص کا ہاتھ تھاما، بستی سے باہر لے گئے۔ جہاں آپ کا سامانِ تجارت بڑی تعداد میں رکھا ہوا تھا فرمایا، یہ سب تیری نذر ہے۔ کیا اس سے تمہاری ضرورت پوری ہو جائے گی؟ وہ شخص حیران، ہکا بکا دیکھتا رہ گیا۔ چنانچہ اس نے عرض کیا، حضرت یہ سب کچھ میری ضرورت سے زیادہ ہے۔ امیر المومنین نے فرمایا، مجھے خوشی ہے کہ یہ تمہاری ضرورت سے کم نہیں۔ اس شخص نے کہا، اے حضرت! ایک بات بتائیے، چراغ کی بتی قدرے موٹی ہو جانے پر آپ اپنی زوجہ محترمہ کو سرزنش کر رہے تھے۔ حالانکہ چراغ اس قدر روشنی رکھنے میں شاید صرف ایک درہم کا تیل بھی استعمال نہ ہوتا، وہ تو آپ کو گوارہ نہ ہوا، اوریہاں ہزاروں کا سامان مجھے بلا تامل دے رہے ہیں؟ تب آپ نے فرمایا، بھائی چراغ میں تیل کا زیادہ اسراف ہے اور زیادہ اسراف اللّٰہ کو پسند نہیں اور مجھے اللّٰہ کے حضور اپنے اعمال کی فکر رہتی ہے۔ یہاں مجھے فکرِ اعمال لاحق ہے، اس لئے میں نے سرزنش کی۔ سامان تمہیں اللّٰہ کی خوشنودی کے لئے صدقہ دیا ہے۔ اس پر اَجر کی امید ہے اور وہاں پر حساب کا خوف ہے ۔
🔰WJS🔰

Share this


0 Comments