Friday, July 15, 2022

خوش رہنا سیکھیے


چائے میں بسکٹ ڈبو کر تو دیکھئے، اگر ٹوٹ کر گِر گیا تو کونسا قیامت آ جائے گی 

ایک وقت تھا خوشی بہت آسانی سے مل جاتی تھی۔ 
دوستوں سے ملکر، 
عزیز رشتہ داروں سے ملکر، 
نیکی کرکے، 
کسی کا راستہ صاف کرکے، 
کسی کی مدد کرکے۔ 
خربوزہ میٹھا نکل آیا، 
تربوز لال نکل آیا، 
آم لیک نہیں ھوا، 
ٹافی کھا لی، 
سموسے لے آئے، 
جلیبیاں کھا لیں، 
باتھ روم میں پانی گرم مل گیا، داخلہ مل گیا، 
پاس ھوگئے، 
میٹرک کرلیا، 
ایف اے کرلیا، 
بی اے کر لیا، 
ایم اے کرلیا، 
کھانا کھالیا، 
دعوت کرلی، 
شادی کرلی، 
عمرہ اور حج کرلیا، 
چھوٹا سا گھر بنا لیا،  
امی ابا کیلئے سوٹ لے لیا، 
بہن کیلئے جیولری لے لی، 
بیوی کیلئے وقت سے پہلے گھر پہنچ گئے، 
اولاد آگئی اولاد بڑی ھوگئی، انکی شادیاں کردیں-
 نانے نانیاں بن گئے -
دادے دادیاں بن گئے -
سب کچھ آسان تھا 
اور سب خوش تھے.

پھر ہم نے پریشانی ڈھونڈنا شروع کردی، 
بچہ کونسے سکول داخل کرانا ھے، 
پوزیشن کیا آئے، 
نمبر کتنے ہیں، 
جی پی اے کیا ھے، 
لڑکا کرتا کیا ہے، 
گاڑی کونسی ہے، 
کتنے کی ہے، 
تنخواہ کیا ہے، 
کپڑے برانڈڈ چاہیئں
 یا پھر اس کی کاپی ہو، 
جھوٹ بولنا پھر اسکا دفاع کرنا، سیاست انڈسٹری بن گئی.

ھم سے ھمارے دور ھوگئے

شاید ہی ہمارے بچوں کو فوج کے عہدوں کا پتہ ہو 
پر ان کو ڈی ایچ اے کونسے شہر میں ہیں، سب پتہ ہے، 
گھر کتنے کنال کا ہو، 
پھر آرچرڈ سکیمز آگیئں، 
گھر اوقات سے بڑے ہو گئے، 
اور ہم دور دور ہو گئے، 
ذرائع آمدن نہیں بڑھے پر قرضوں پر گاڑیاں، موٹر سائیکل، ٹی وی، فریج، موبائل سب آگئے، 
سب کے کریڈٹ کارڈ آگئے -
پھر ان کے بل بجلی کا بل، 
پانی کا بل، گیس کا بل، موبائل کا بل، سروسز کا بل، 
پھر بچوں کی وین، 
بچوں کی ٹیکسی، 
بچوں کا ڈرائیور، 
بچوں کی گاڑی، 
بچوں کے موبائل، 
بچوں کے کمپیوٹر، 
بچوں کے لیپ ٹاپ، 
بچوں کے ٹیبلٹ، وائی فائی، گاڑیاں، 
جہاز، 
فاسٹ فوڈ، 
باھر کھانے، 
پارٹیاں،
پسند کی شادیاں، 
دوستیاں، طلاق پھر شادیاں، بیوٹی پارلر، 
جم، 
پارک، 
اس سال کہاں جائیں گے، 
یہ سب ہم نے اختیار کئے
 اور اپنی طرف سے ہم زندگی کا مزا لے رہے ہیں -
کیا آپ کو پتہ ھے آپ نے خوشی کو کھودیا ہے۔ 
جب زندگی سادہ تھی تو خوشی کی مقدار کا تعین ناممکن تھا -
اب اسی طرح دھوم دھڑکا تو بہت ھے پر پریشانی کا بھی کوئی حساب نہیں۔

اپنی زندگی کو سادہ بنائیے

 تعلق بحال کیجئے، 
دوست بنایئے، 
دعوت گھر پر کیجئے،  
بے شک چائے پر بلائیں، 
یا پھر آلو والے پراٹھوں کا ناشتہ ساتھ کیجئے، 
دور ھونے والے سب چکر چھوڑ دیجئے، 
واٹس ایپ فیس بک زرا کم استعمال کیجئے ، آمنے سامنے بیٹھئیے، 
دل کی بات سنیئے اور سنائیے، مسکرائیے۔ 
یقین کیجئے خوشی بہت سستی مل جاتی ہے -
بلکہ مفت، 
اور پریشانی تو بہت مہنگی ملتی ہے 
جس کیلئے ہم اتنی محنت کرتے ہیں، 
اور پھر حاصل کرتے ھیں۔ 
خوشی ہرگز بھی چارٹر طیارے میں سفر کرنے میں نہیں ھے۔ کبھی نئے جوتے پہن کر بستر پر رھیئے پاؤں نیچے رکھے تو جوتا گندا ھوجائے گا۔ 
بس محسوس کرنے کی بات ہے ،
چائے میں بسکٹ ڈبو کر تو دیکھئے-
ٹوٹ کر گر گیا تو کونسی قیامت آجائے گی ۔
ہمسائے کی بیل تو بجائیے -
ملئے مسکرائیے، 
بس مسکراھٹ واپس آجائے گی، دوستوں سے ملئے دوستی کی باتیں کیجئے
 ان کو دبانے کیلئے ڈگریاں، کامیابیاں، فیکٹریوں کا ذکر ھرگز مت کیجئے۔ 
پرانے وقت میں جایئے جب ایک ٹافی کے دوحصے کرکے کھاتے تھے
،فانٹا کی بوتل آدھی آدھی پی لیتے تھے. 
ہم نے کیا کرنا چائے خانہ کا جہاں پچاس قسم کی چائے ہے۔ 
آؤ وہاں چلیں جہاں سب کیلئے ایک ہی چائے بنتی ہے ملائی مارکے، چینی ہلکی پتی تیز۔

*آؤ پھر سے خوش رہنا شروع کرتے ھیں...
                           👍👍👍👍

Wednesday, July 13, 2022

تبلیغ کی ضرورت

ازبکستان کے ایک دور دراز دیہات میں پاکستانی تبلیغی جماعت پہنچی تو ان کے رہنے کا انتظام مسجد میں تھا، 
نماز کا وقت ہوا، تبلیغی جماعت کے کچھ ارکان وضو کر کے واپس آئے تو مسجد میں داخل ہونے سے پہلے اپنے اپنے جوتے اٹھا کر اندر داخل ہوئے اور جوتوں کو مسجد کے ایک کونے میں رکھ دیا۔
ایک مقامی بوڑھا حیرانگی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا،
نماز ختم ہوئی تو اس بوڑھے نے جماعت کے امیر سے پوچھا کہ : وضو کے بعد ان لوگوں نے اپنے جوتے اندر کیوں رکھے،
امیر جماعت نے جواب دیا : حفاظت کیلئے، تاکہ کوئی باہر سے اٹھا کر نہ لے جائے۔
بوڑھے نے پوچھا : کیا آپ کے ملک میں مسجد کے باہر سے جوتے چوری ہو جاتے ہیں؟
امیر جماعت نے کہا : جی ہاں، بدقسمتی سے،
تو بوڑھے نے کہا کہ : پھر آپ یہاں اتنی دور ہمارے ملک میں کیا تبلیغ کرنے آئے ہیں، تبلیغ کی سب سے زیادہ ضرورت تو آپ کی قوم کو ہے کیونکہ ہمارے ہاں تو مسجد کے اندر یا باہر سے کوئی چیز چوری نہیں ہوتی۔

.
اپنے آپ کو بدلو 🙏تم مسلمان ہو ۔۔۔۔۔

موت کے بعد کے چند حالات

شروع میں مردہ شخص کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ مر گیا ہے۔ وہ خود کو موت کا خواب دیکھتا ہوا محسوس کرتا ہے، وہ خود کو روتا، نہاتا، گرہ لگاتا اور قبر پر اترتا ہوا دیکھتا ہے۔ وہ ہمیشہ خواب دیکھنے کا تاثر رکھتا ہے 
جب وہ زمین پر ڈھیر ہو جاتا ہے۔ پھر وہ چیختا ہے لیکن کوئی اس کی چیخ نہیں سنتا، جب ہر کوئی منتشر ہو جاتا ہے اور زمین کے اندر تنہا رہ جاتا ہے، اللہ اس کی روح کو بحال کرتا ہے۔ وہ آنکھیں کھولتا ہے اور اپنے "برے خواب" سے جاگتا ہے۔ پہلے تو وہ خوش اور شکر گزار ہوتا ہے کہ، جس سے وہ گزر رہا تھا وہ صرف ایک ڈراؤنا خواب تھا ، اور اب وہ اپنی نیند سے بیدار ہے۔ پھر وہ اپنے جسم کو چھونے لگتا ہے ، جو کپڑے میں لپٹا ہوا ہے ، خود سے حیرت سے سوال کرتا ہے "میری قمیض کہاں ہے 
"میں کہاں ہوں ، یہ جگہ کہاں ہے ، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا کیوں ہے ، میں یہاں کیا کر رہا ہوں؟" پھر اسے احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ زیر زمین ہے ، اور جو کچھ وہ محسوس کر رہا ہے وہ خواب نہیں ہے، اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ واقعی مر گیا ہے۔
 وہ ہر ممکن حد تک زور سے چیختا ہے ، پکارتا ہے: اس کے رشتہ دار جو اس کے مطابق اسے بچا سکتے تھے:
 اسے کوئی جواب نہیں دیتا۔ وہ پھر یاد کرتا ہے کہ اس وقت اللہ ہی واحد امید ہے۔ وہ اس کے لیے روتا ہے اور اس سے معافی مانگتے ہوئے اس سے التجا کرتا ہے۔
 "یا اللہ! یا اللہ! مجھے معاف کر دے یا اللہ ... !!!
 وہ ایک ناقابل یقین خوف سے چیختا ہے جو اس نے اپنی زندگی کے دوران پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔
 اگر وہ ایک اچھا انسان ہے تو مسکراتے ہوئے چہرے والے دو فرشتے اسے تسلی دینے کے لیے بیٹھ جائیں گے ، پھر اس کی بہترین خدمت کریں گے،
اگر وہ برا شخص ہے تو دو فرشتے اس کے خوف کو بڑھا دیں گے اور اس کے بدصورت کاموں کے مطابق اسے اذیت دیں گے۔ 
اے اللہ مجھے اور میرے ماں ، باپ ، بیوی ، بچوں اور میرے خاندان اور دوستوں و عزیر رشتے داروں کے تمام صغیرہ و کبیرہ گناہ معاف فرما دیں 🙏🏻
اور ہمیں ایمان پر موت نصیب فرمانا۔۔۔😭😭😭
#آمین #ثم_آمین #یارَبَّ_الْعٰالَمین

Thursday, July 7, 2022

تنہائی

#ثناء
تنہائی 😔

میری بیوی نے کچھ دنوں پہلے گھر کی چھت پر کچھ گملے رکھوا دیے اور ایک چھوٹا سا باغ بنا لیا۔
گزشتہ دنوں میں چھت پر گیا تو یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ بہت گملوں میں پھول کھل گئے ہیں، لیموں کے پودے میں دو ، لیموں بھی لٹکے ہوئے ہیں اور دو چار ہری مرچ بھی لٹکی ہوئی نظر آئیں۔
میں نے دیکھا کہ گزشتہ ہفتے اس نے بانس کا جو پودا گملے میں لگایا تھا، اس گملے کو گھسیٹ کر دوسرے گملے کے پاس کر رہی تھی۔ میں نے کہا تم اس بھاری گملے کو کیوں گھسیٹ رہی ہو؟ بیوی نے مجھ سے کہا کہ یہاں یہ بانس کا پودا سوکھ رہا ہے، اسے کھسکا کر اس پودے کے پاس کر دیتے ہیں۔
میں ہنس پڑا اور کہا ارے پودا سوکھ رہا ہے تو کھاد ڈالو، پانی ڈالو. اسےکھسکا کر کسی اور پودے کے پاس کر دینے سے کیا ہو گا؟ "
بیوی نے مسکراتے ہوئے کہا یہ
پودا یہاں اکیلا ہے اس لئے مرجھا رہا ہے. اسے اس پودے کے پاس کر دیں گے تو یہ پھر لہلہا اٹھے گا۔ پودے اکیلے میں سوکھ جاتے ہیں، لیکن انہیں اگر کسی اور پودے کا ساتھ مل جائے تو جی اٹھتے ہیں۔ "
یہ بہت عجیب سی بات تھی۔ ایک ایک کر کے کئی فوٹو آنکھوں کے آگے بنتی چلی گئیں۔
والد کی موت کے بعد والدہ صاحبہ کیسے ایک ہی رات میں بوڑھی، بہت بوڑھی ہو گئیں تھیں۔
 ابو جان کے جانے کے بعد وہ سوکھے ہوئے پودے کی طرح رہتیں تھیں ۔جس والدہ صاحبہ کو میں نے کبھی اداس نہیں دیکھا تھا،
وہ والد صاحب کے جانے کے بعد خاموش سی ہو گئیں تھیں۔ مجھے بیوی کے یقین پر مکمل اعتماد ہو رہا تھا۔ لگ رہا تھا کہ سچ مچ پودے اکیلے میں سوکھ جاتے ہوں گے۔ بچپن میں میں ایک بار بازار سے ایک چھوٹی سی رنگین مچھلی خرید کر لایا تھا اور اسے شیشے کےجار میں پانی بھر کر رکھ دیا تھا۔
مچھلی سارا دن گم سم رہی۔ میں نے اس کے لئےکھانا بھی ڈالا، لیکن وہ چپ چاپ ادھر ادھر پانی میں گھومتی رہی اور اس کو ڈالا گیا سارا کھانا جار کی تہہ میں جا کر بیٹھ
گیا، مچھلی نے کچھ نہیں کھایا۔
دو دنوں تک وہ ایسے ہی رہی، اور ایک صبح میں نے دیکھا کہ وہ پانی کی سطح پر الٹی پڑی تھی۔ آج مجھے گھر میں پالی وہ چھوٹی سی مچھلی یاد آ رہی تھی۔ بچپن میں کسی نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا، اگرمعلوم ہوتا تو کم سے کم دو، تین یا ساری مچھلیاں خرید لاتا اورمیری وہ پیاری مچھلی یوں تنہا نہ مر جاتی۔
مجھے لگتا ہے کہ دنیا میں
کسی کو تنہائی پسند نہیں۔
آدمی ہو یا پودا، ہر
کسی کو کسی نہ کسی کے ساتھ
کی ضرورت ہوتی ہے۔
آپ اپنے ارد گرد جھانكیں، اگر کہیں کوئی
اکیلا نظر آئے تو اسے اپنا ساتھ دیجئے، اسےمرجھانے سے بچائیں اگر آپ اکیلے ہوں، تو آپ بھی کسی کا ساتھ لیجئے، آپ خود کو بھی مرجھانے سے روكیں۔ تنہائی دنیا میں سب سے بڑی سزا ہے۔ گملے کےپودے کو تو ہاتھ سے کھینچ کر ایک دوسرے پودے کے پاس کیا جا سکتا ہے، لیکن آدمی کو قریب لانے کے لئے ضرورت ہوتی ہے رشتوں کو سمجھنے کی، محفوظ کرنے کی اور سمیٹنے کی۔
اگر دل کے کسی گوشے میں آپ کو لگے کہ زندگی کا رس سوکھ رہا ہے، زندگی مرجھا رہی ہے تو اس پر رشتوں کی محبت کا رس ڈالئےخوش رہئے اور مسكرائیے۔
کوئی یوں ہی کسی اور کی غلطی سے آپ سے دور ہو گیا ہو تو اسے اپنے قریب لانےکی کوشش کیجیے
Copied

فنگر پرنٹس

انسانی جسم کی انگلیوں میں لکیریں تب نمودار ہونے لگتی ہیں جب انسان ماں کے شکم میں 4 ماہ تک پہنچتا ہے یہ لکیریں ایک ریڈیایی لہر کی صورت میں گوشت پر بننا شروع ہوتی ہیں ان لہروں کو بھی پیغامات ڈی۔۔این۔۔اے دیتا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پڑنے والی لکیریں کسی صورت بھی اس بچے کے جد امجد اور دیگر روئے ارض پر موجود انسانوں سے میل نہیں کھاتیں گویا لکیریں بنانے والا اس قدر دانا اور حکمت رکھتا ہے کہ وہ کھربوں کی تعداد میں انسان جو اس دنیا میں ہیں اور جو دنیا میں نہیں رہے ان کی انگلیوں میں موجود لکیروں کی شیپ اور ان کے ایک ایک ڈیزائن سے باخبر ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار ایک نئے انداز کا ڈیزائن اس کی انگلیوں پر نقش کر کے یہ ثابت کرتا ہے ۔۔۔۔۔
کہ ہے کوئ مجھ جیسا ڈیزائنر ؟؟؟
کوئ ہے مجھ جیسا کاریگر ؟؟؟
کوئ ہے مجھ جیسا آرٹسٹ ؟؟؟
کوئ ہے مجھ جیسا مصور ؟؟؟
کوئ ہے مجھ جیسا تخلیق کار ؟؟؟
حیرانگی کی انتہاء تو اس بات پر ختم ہوجاتی ہے کہ اگر جلنے زخم لگنے یا کسی وجوہات کی بنیاد پر یہ فنگر پرنٹ مٹ بھی جائے تو دوبارہ ہو بہو وہی لکیریں جن میں ایک خلیے کی بھی کمی بیشی نہیں ہوتی ظاہر ہو جاتی ہیں۔۔۔۔
پس ہم پر کھلتا ہے کہ پوری دنیا بھی جمع ہو کر انسانی انگلی پر کسی وجوہات کی بنیاد پر مٹ جانے والی ایک فنگر پرنٹ نہیں بنا سکتی

مارفن سنڈروم (Marfan Syndrome)

آج نوشہرہ ورکاں بازار میں ایک بوڑھی اماں کے ساتھ ینگ لڑکی دیکھی جسکا قد کوئی چھ فٹ 2 سے 3 انچ ہوگا۔ ہر کوئی اسے ہی مڑ مڑ دیکھ رہا تھا۔۔ انتہائی لمبے بازو اور ٹانگیں دیکھیں تو شک ہوا مارفن سنڈروم ہے۔ اتفاق سے وہ دونوں ایک جگہ رک کر کھجوریں لینے لگیں تو میں بھی رک گیا لڑکی کی انگلیاں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ دوکاندار میرا واقف ہی تھا اسنے مجھے اندر اپنے پاس بلا لیا۔ لڑکی کے ہاتھ کی لمبائی کوئی 10 انچ ہوگی ۔ اور انتہائی دبلا پتلا سا ہاتھ اور ویسے ہی پتلے اور لمبے بازو ۔ 
تھوڑا سا آگے ہوکر بوڑھی اماں کو سلام کیا اور سر آگے کیا۔۔اماں نے سر پر ہاتھ رکھا اور بولیں بیٹا میں نے تمہیں پہچانا نہیں ۔ میں نے بتایا کہ میں بھی آپکو نہیں جانتا یہاں ہی سپیشل بچوں کے سرکاری سکول میں ٹیچر ہوں۔ فلاں گاؤں کا رہنے والا ہوں۔ آپ سے آپکی اس پوتی کے متعلق ایک منٹ بات کرنا چاہتا ہوں اگر آپ کو جلدی نہیں اور برا نہ منائیں تو ۔۔ وہ بولیں ہاں بیٹا کرو بات۔۔ میں نے پوچھا کہ اس بچی کی عمر کیا ہے؟ وہ بولیں 17 سال۔ میں نے کہا آپ کہاں سے ہیں تو انہوں نے بتایا ہم فلاں گاؤں سے ہیں۔۔ اس بچی سے پوچھا کہ آپ سکول جاتی ہیں؟ وہ بولی کالج جاتی ہوں میٹرک کے بعد ابھی سمر کیمپ لے رہی۔ 
اسے پوچھا کہ آپکو دل کی نالی کا کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔ بولی بہت زیادہ مسئلہ ہے۔۔ ہر ماہ کارڈیالوجی ہسپتال جاتے ہیں دوائی اور چیک اپ کے لیے ۔۔ میں نے کہا آپ کے سینے کی ہڈی تھوڑی سی اندر یا باہر تو نہیں ۔ بولی انکل کافی اندر کو مڑی ہوئی ہے۔۔ میں نے اسے ایک پرچی پر Marfan Syndrome لکھ کر دیا اور اسے بتایا کہ میری معلومات کے مطابق آپ کو یہ مسئلہ ہے۔ وہ بولی ہمیں آج تک نہیں معلوم کہ میرے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔ میں نے کہا کسی اچھے دل کے ڈاکٹر سے ملیں۔ اس سنڈروم کو ٹیسٹوں کے بعد کنفرم کریں۔ کسی پرچی پر دیکھیں بھی کہ کسی ڈاکٹر نے یہ دو لفظ لکھے تو نہیں ہوئے۔ اور دوا بھی جاری رکھیں۔ بوڑھی اماں نے میرا نام سکول کا پتا وغیرہ پوچھا اور سکول کھلنے پر وہ ضرور آئیں گی یہ کہہ کر چلی گئیں۔ میرا فون نمبر بھی لے لیا۔ 
مارفن سنڈروم کے ساتھ آج پہلی بار کسی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔۔ یہ ایک سنڈروم ہے جو پیدائشی طور پر ہمارے جینز میں موجود ہوتا۔ بنیادی طور پر یہ Connective tissues یعنی ایک دوسرے کے ساتھ اسکن مسلز اور ہڈیوں کو جوڑنے والے خلیات کا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔۔ یہ لوگ 5000 میں سے 1 ہوتے ہیں۔۔ یعنی بہت ہی کم۔۔ لڑکوں اور لڑکیوں میں یہ سنڈروم یکساں پایا جاتا ہے۔ اور انکی تشخیص ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہے۔ اکثریت میں دل سے باقی جسم کو آکسیجن ملا ہوا خون سپلائی کرنے والی ہمارے جسم کی سب سے بڑی نالی Aorta اس سنڈروم میں ڈیمج یا متاثر ہوتی ہے۔۔ جسکی وجہ سے جسم کے کسی بھی حصے میں خون کی سپلائی متاثر ہونے کے ساتھ دل کے بھی کئی مسائل ہونے لگتے ہیں۔ 
اورٹا نالی اور دل کے مختلف ٹیسٹ، آنکھوں کے کئی ٹیسٹ اور ہڈیوں کے ایکسرے اور کئی کیسز میں جنیٹک ٹیسٹنگ جس میں FBN1 نامی جین کی ساخت کو دیکھا جاتا ہے۔ کئی قسم کے ٹیسٹوں کے بعد مارفن سنڈروم کی شناخت ہو پاتی ہے۔۔ اس میں لوگوں کے مسائل ایک دوسرے سے مختلف اور کم یا زیادہ ہو سکتے ہیں۔ اگر باقاعدہ علاج نہ ہو سکے تو کم و بیش 32 سال کی عمر تک یہ لوگ زندہ رہ پاتے ہیں۔ 
فزیکل معائنہ میں سب سے پہلے انکے بازوؤں ہاتھوں اور ٹانگوں کی پیمائش کی جاتی ہے۔ وہ قد اور دھڑ کے حساب سے زیادہ لمبے ہونگے۔ ایسے ہی ہاتھ پاؤں دبلے پتلے اور ایورج سے اچھے خاصے لمبے ہونگے ۔۔ پھر بات ٹیسٹوں کی طرف جاتی ہے اور تشخیص کے بعد علاج۔ یہاں ایک مسئلہ یہ کہ والدین کی تعلیم کم ہوتی اور دوسرا ڈاکٹرز بھی ایسے مریض کو کلئیر مسئلہ نہیں بتاتے کریں بھی تو گندہ مندہ سا کسی کونے میں لکھ دیتے ہیں۔ جو کسی ماہر کے سوا کوئی نہیں پڑھ سکتا ۔ یار معذوری یا ایسی کنڈیشن کو تو قلم کی سپیڈ زرا کم کے واضح لکھا کرو اور مریض کو بیماری اور عمر بھر کی معذوری میں فرق بتایا کرو۔ 
وہ بیچارے اسی آس میں کہ دوا چل رہی ہے ہم ٹھیک ہو جائیں گے ۔۔ایک سے دوسرے تیسرے چوتھے ڈاکٹر کے پاس جاتے رہتے مگر انہیں اصل کہانی معلوم ہی نہیں ہوتی۔ میں امید توڑنے کی بات نہیں کرتا مگر وہ اپنا پیسہ اور وقت اور ذہنی سکون تو کسی کبھی ناں ہونے والے معجزے کے انتظار میں عمر بھر نہ برباد کرتے رہیں۔ ہاں جن کو سچ بتا دیا جاتا وہ کب اسے مانتے ہیں جہاں کوئی بتاتا پھر سے امید لیکر چلے جاتے۔ ایک مسکولر ڈسٹرافی ، ایک سی پی، ایک ڈاؤن سنڈروم، ایک آٹسٹک ایک مارفن سنڈروم کے ساتھ بچہ کیا کبھی سو فیصد مکمل ٹھیک ہوسکتا ہے؟ کبھی بھی نہیں۔ 
ایسی سینکڑوں کنڈشنر ہیں جو عمر بھر کی ہیں۔ ان میں اور عارضی بیماریوں میں فرق سمجھیں اور اپنے سپیشل بچوں کو انکی الگ دنیا کا باسی مانتے ہوئے قبول کریں۔ انہیں جہاں بھی دی جا سکتی دینی اور دنیاوی تعلیم دیں۔ انکی کپیسٹی کے مطابق کوئی ہنر سکھائیں اور زندگی کے دھارے میں شامل کریں۔۔نہ کہ اپنی صلاحیتیں اور وسائل ہمیشہ ان کو ٹھیک کرنے پر ہی لگاتے رہیں۔ 
ایک سوال مجھ سے اکثر ہوتا کہ ہمارا بچہ کب ٹھیک ہوجائے گا؟ جہاں دائمی معذوری ہو میں والدین کو یہ کہتا ہوں اگلے جہاں میں جاکر ان شاءاللہ بلکل ٹھیک ہوجائے گا۔ اس دنیا میں یہ ایسے کیوں آیا ہے؟ اس کو ہی کیوں چنا گیا؟ اسکا جواب بھی وہاں جاکر ہی معلوم ہوگا۔ 

خطیب احمد