Wednesday, November 2, 2022

بچے اور غائبانہ منشیات

چھ دن سے میرے کزن کی بیٹی اسپتال میں داخل تھی۔ اسکی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ پتہ چلا کہ چیختی ہے چلاتی ہے اور کاٹتی ہے۔ 
بارہ سال کی بچی ہے۔ مجھے پتہ چلا تو دیکھنے اسپتال گیا۔ بچی کی ٹانگیں اور ہاتھ باندھے ہوئے تھے اور وہ تڑپ رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب سے ملا تو بولے ہیسٹیریا ہے۔ باپ سے پوچھا تو کہنے لگے اس کو سایہ ہو گیا ہے۔ والدہ نے کہا اسکی پھوپھو نے جادو کروا دیا ہے۔ ۔!!!
جتنے منہ اتنی باتیں۔ میں نے بچی کے پاس جا کر اسے پیار کیا اور پانی پلایا۔ وہ بیقرار تھی۔ کہتی ہے مجھے گول گپے کھانے ہیں۔ !!!
ڈاکٹر صاحب نے منع کیا ہے کہ اس کو کوئی چیز بازار سے نہیں دینی ۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔ میں نے پوچھا کہ بچی کی یہ حالت کب سے ہے۔ !!والدہ نے بتایا کہ چھٹیوں کے آخری بیس ایام اپنی پھوپھو کے گھر گئی تھی۔ وہاں سے جب واپس آئی ہے طبیعت ناساز ہے۔ چڑچڑی ہوگئی ہے۔ باہر نکل نکل کر بھاگتی ہے۔ کہتی ہے کہ گول گپے کھانے ہیں وہ بھی لا کر دئیے پر پسند نہیں آتے پھینک دیتی ہے۔ چیختی ہے چلاتی ہے۔ 
میں نے لڑکی سے تنہائی میں بات کرنے کی اجازت چاہی جو مل گئی۔میں نے بچی کے ہاتھ پاؤں کھولے اور ٹیرس پر لے گیا، اسے پانی پلایا میں نے کہا مجھے اپنا دوست سمجھو جو کچھ ہم میں بات ہوگی وہ راز رہے گی۔ میں نے قسم کھائی۔ لڑکی کو کچھ حوصلہ ہوا تو کہنے لگی ۔!!
آپ اپنی ماں کی قسم کھائیں کہ کسی کو نہیں بتائیں گے، کہنے لگی پھوپھو کے محلے میں ایک گول گپے والا ہے جس کے گول گپے مجھے بہت پسند ہیں۔ 
میرا کزن اور میں ہم دونوں وہ کھانے کیلئے جاتے تھے میں جب سے واپس لوٹی ہوں دل بہت بیقرار رہتا ہے اور جسم میں جیسے کچھ جل سا رہا ہے۔ میں نے اس سے اس کی پھوپھو کا نمبر لیا اور اس کو یقین دلایا کہ میں جو کچھ بھی کر سکا ضرور کروں گا۔
اگلے روز میں اس کی پھوپھو کے گھر گیا۔ رشتے دار تھے میری بہت عزت کی۔ میں نے اس کے بیٹے کے ساتھ سے بازار تک ساتھ چلنے کو کہا ۔ہم پیدل ہی شام کو گھر سے نکلے، باتوں باتوں میں نے لڑکی کے حوالے سے گول گپوں کی تعریف کی اور یوں ہم اس دکان کے کیبن میں پہنچ گئے۔ 
گول گپے منگوائے گئے اور کھائے بھی۔ بہت مزے دار تھے۔ الگ سا ذائقہ تھا۔ خیر میں نے کچھ پیک کروا لئیے اور ساتھ لے آیا۔ رات کو واپس شہر آیا اور وہ گول گپے ایک دوست کی لیب والے کو دیئے کہ اس کو چیک کردے۔ منشیات والے ادارے کو بھی ایک سیمپل دیا۔ 
اگلے دن رپورٹ آئی تو میں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا،رپورٹ میں پتہ چلا کہ مصالحہ جات میں ہیروئن ملائی گئی ہے۔ میرا ایک لمحے کیلئے دم بند سا ہو گیا۔ 
میں نے فوراًاینٹی نارکوٹکس سے رابطہ کیا اور اس گول گپے والے کی دکان پر ریڈ کیاتو وہاں سے شراب، ہیروئن اور چرس برآمد ہوئی۔ یہ باقاعدہ ایک منشیات کا اڈہ تھا اور گول گپے والا اپنے گول گپوں میں ہیروئن گھول کر کھلا رہا تھا۔ جو لگ گئے وہ یہاں سے ہٹ نہیں سکتے تھے۔
 ان کو پکڑوا کر بچی کی طرف لوٹا اور ڈاکٹر صاحب کو اعتماد میں لے کر بچی کو ترک منشیات کے ادارے میں داخل کروا کر علاج کروایا۔
یہ ایک سچا واقعہ تھا۔۔ اب آئیں اصل مسئلے پر۔۔ اور وہ یہ ہے کہ ہمارے بچوں کے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے۔ 
اسکولوں کے باہر ریہڑیوں پر اور اسکول کالجوں کی کینٹینوں پر محلے میں پھرتے رہڑی والے ہمارے بچوں کے ساتھ کیا کچھ کر رہے ہیں ۔ہمارے بچے اب نشوں پر لگ چکے ہیں اور ہمیں معلوم ہی نہیں۔ ہم بحیثیت مجموعی اپنی اولادوں سے غافل ہیں۔

میں نے بھی بلیو ایریا سے ایک ٹھیلے سے چائے پی تو مجھے بہت سکون محسوس ہوا. میں اگلے دن نمل سے پھر چائے پینے چلاگیا.مجھے مجھے احساس ہی نہیں رہا کہ میں تین ماہ تک چائے پیتا رہا پھر ایک رات نیوز دیکھی کہ مطلوبہ ٹھیلہ جس میں چائے پیتا تھا اس کو سیکیورٹی والوں نے دھر لیا ہے وہ چائے میں ڈوڈے وغیرہ ڈالتے تھے.. وہ لوگ اپنے منافع کے لئے لوگوں کی جان کھیل جاتے ہیں اللہ کریم انھیں ہدایت دے!
حکومت بے خبر ہے تو والدین اور اساتذہ کو جاگنا ہوگا۔ ان تک اپنے بچوں کو نہ جانے دیں۔ یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں ،گول گپے والاتو گول گپے بیچ جائے گا مگر ہماری پوری نسل نشہ آور بن کر تباہ ہو جائے گی۔۔!!!
جاگتے رہیں ورنہ سب کچھ سو جائے گا۔۔
#copied

Share this


0 Comments