Friday, July 14, 2023

سائنس برائے جماعت اوۤل ، سال 1999ء


رومن اردو - خطرے کی گھنٹی

 قطع نظر  اسکے کہ رومن اردو کا آغاز کب ہوا، آجکل نوجوان نسل  میں رومن اردو نہایت مقبول رسم الخط ہے کیونکہ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر اسکا استعمال بہت آسان ہوتا ہے۔  ایوب خان  نے اپنے دور حکومت میں ترکی کے کمال اتا ترک سے متاثر ہو کر رومن رسم الخط رائج کرنے کی تجویز پیش کی تھی  جو کامیاب نہ ہو سکی ۔

اردوالفاظ کو انگریزی حروف تہجی کے ذریعے  لکھنے کو رومن اردو کہا جاتا ہے  آج کل انٹرنیٹ پر پیغام رسانی کا سب سے آسان اور مقبول طریقہ یہی ہے،  زیادہ تر ملٹی نیشنل کمپنیاں پیپسی کوک اور کے ایف سی وغیرہ اپنے اشتہارات میں رومن اردو کا استعمال کرتی ہیں موبائل کمپنیاں بھی اپنے صارفین کو رومن اردو میں ہی پیغام بھیجتی ہیں   گو کہ رومن اردو ابھی  اپنے ارتقائی مراحل میں ہے   اور اس میں کوئی قوائدوضوابط بھی نہیں ہیں اور نہ ہی اسکے قواعد مقرر کرنے کے لئے پاکستان میں کوئی ادارہ موجود ہے  اس لئے ہر استعمال کرنے والا اس بے نتھے رسم الخط کو اپنی اپنی سمجھ کے مطابق استعمال کر رہا ہوتا ہے ۔

واضح رہے کہ رومن اردو کی حوصلہ شکنی کرنے کی کئی وجوہات نظر آتی ہیں 

 اسکی وجہ سے ہماری نئی نسل اردو رسم الخط سے نابلد  ہوتی جا رہی ہے

راقم کے آفس میں کچھ عرصہ پہلے کیشئیر کی نوکری کے لئے دو نوجوان امیدوار  انٹرویو دینے کے لئے آئے

میں نے ایک جملہ دیا اور کہا اسے اردو میں لکھیں دونوں نے  رومن اردو  میں لکھا ایک سے میں نے کہا

 آپ نے تو سارے انگریزی حروف لکھے ہیں جواب دیا نہیں سر غور سے چیک کریں یہ اردو ہی لکھی ہوئی ہے

 میں نے کہا الف  ب  والی اردو  

تو جواب آیا سر وہ تو اسکولوں میں ہوتی ہے پریکٹیکل لائف  میں اردو ایسے ہی لکھتے ہیں 

 اچھا ایسے لکھتے ہیں ؟

 جی سر ہم تو یہی دیکھتے آ رہے ہیں ٹھیک ہےمیاں یہ بتاو علامہ اقبال یا غالب کی شاعری  پر کوئی کتاب ایسی اردو میں چھپی ہے ؟

 پتہ نہیں سر شاید ہو گی 

بعد میں  معلوم ہوا کہ موصوف کو اردو لکھنی اور پڑھنی   آتی ہی نہیں  تھی  

اردو رسم الخط سےنابلد آنے والی نسل اپنی تاریخ اور ادب سے واقف نہیں ہو پائے گی 

کیونکہ تاریخ ، دین ، اسلام اور ادب کا بہت بڑا ذخیرہ  اردو زبان میں موجود ہے آنے والی نسل نہ صرف ان سب سے محروم رہ جائے گی بلکہ ان کو اپنے ماضی کا پتہ ہی نہیں چل پائےگا جبکہ  رومن اردو   کسی بھی قسم کے تاریخی ، علمی اور ادبی ذخیرے سے قطعی خالی  ہے ۔

دنیا کی بڑی قومیں جرمنی، چین اور جاپان نے انگریزی رسم الخط کو نہیں اپنایا بلکہ وہ آج بھی اپنا اصل رسم الخط اختیار کئے ہوئے ہیں حتی کہ ہندوستان میں بھی انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا میں ہندی رسم الخط ہی رائج ہےہمارا اردو رسم الخط ان  سے  زیادہ پیچیدہ اور مشکل تو نہیں ہے۔

رومن اردو کو جو طاقتیں پاکستان میں متعارف کروا رہی ہیں انکے عزائم صاف نظر آتے ہیں کہ آنے والی نسل کو انکے ماضی اور مذہب  سے کاٹ کر اپنے نظریات کے مطابق ڈھالنے کی راہ ہموار کی جائے۔


چائلڈ لیبر

میں وہ دیوارِ شکستہ ہوں جہاں سے دنیا
کام کی اینٹ اٹھاتی ہے، چلی جاتی ہے!!



Tangri



کولڈ بلاسٹ لالٹین

 کیا آپ نے مٹی کے تیل کی لالٹین استعمال کی ہے۔ ہمارے ہاں بجلی آنے سے پہلے اور بعد میں بھی لوڈشیدنگ کے دوران یہ روشنی کا بڑا ذریعہ ہوتا تھا۔ اب سولر لائیٹوں کی وجہ سے اس کا استعمال کم ہو گیا ہے تاہم ختم نہیں ہوا۔

مٹی کے تیل کی یہ لالٹین عرف عام میں Hurricane  کہلاتی ہے لیکن اس کا ٹیکنیکل نام Cold-blast Lantern  ہے۔  بظاہر سادہ نظر آنے والی یہ چیز اپنے اندر کافی ٹکنالوجی رکھتی ہے۔ اس کی اہم خصوصیت ایک کے دونوں طرف کے جوکور پائیپ ہیں جو اس کے ڈھانچے کو آپس میں جوڑنے کے علاوہ ہوا کی آمد و رفت کا ذریعہ ہیں۔ اس کی چمنی دو تہوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اندرونی چمنی سے دھویں اور کاربن گیسیں بار نکلتی ہیں۔ بیرونی چمنی کے اطرف میں سوراخوں سے تازہ ہوا اندر داخل ہوکر چوکور پائیپوں کے ذریعے نیچے جاتی ہے۔ چونکہ یہ پائیپ لالٹین کے شعلے سے گرم ہوتی ہیں اور ان سے گزرنے والی ہوا گرم ہو کر ٹینکی کے اوپر بنی ہوئی چیمبر سے ہوتے ہوئے شعلے تک پہنچتی ہے۔ اس دوران یہ گرم ہوا تیل کو بھی کسی قدر گرم کرتی ہے۔ اس طرح گرم تیل اور گرم ہوا جب بتی کے بالائی سرے پر ملتی ہیں تو شعلہ کا ٹمپریچر زیادہ ہوتا ہے اور تیل پوری طرح جلتا  ہے۔ اس طرح نہ صرف روشنی زیادہ ملتی ہے بلکہ دھواں اور بد بو بھی کم ہوتی ہے۔ پائیپ سے انے والی ہوا کے علاوہ بھی دیگر اطرف سے کچھ ہوا شعلے کو ملتی ہے جس سے آکسیجن کی مقدار مناسب رہتی ہے۔

قدیم زمانے میں روشنی کے لیے چراغوں میں جانوروں یا نباتات سے حاصل ہونے والے تیل یا موم کی بتیوں کا استعمال ہوتا تھا۔ انیسویں صدی کے وسط میں Abraham Gesner  نے کوئلے سے کیروسین کشید کیا جو  بعد میں پیٹرولیم سے حاصل کیا جانے لگا۔ یہ تیل روشنی کے لیے موزون ثابت ہوا اور اس کے لیے کئی قسم کے لیمپ ایجاد ہوئے۔ ان لیمپوں میں سے سب سے کامیاب گولڈ بلاسٹ لیمپ ثابت ہوئے۔ 

 

ہمارے ملک میں لالٹین کے دو ماڈل مقبول ہیں۔ ایک جرمنی کے Feuerhand  کا اور دوسرا امریکی کمپنی Dietz  کا جو سائز میں بڑا ہوتا ہے۔