پاکستانی وسائل کو چاٹتے یاجوج ماجوج اور آنکھیں بند کیے ہوئے پاکستانی عوام
پاکستانی عوام کا حکومت پاکستان سے سوال سرکاری اداروں کے 189000 ملازمین نے صرف اس ایک سال میں 8ارب 19 کروڑ کی بجلی مفت استعمال کی تو مجھے محمد صالح عباد کی کتاب سلطنت عثمانیہ کا زوال، یاد آ گئی۔ کتاب کے ابتدائیے میں اس زوال کے اسباب بیان کرتے ہوئے ایک جگہ پر و ہ لکھتے ہیں کہ اس سلطنت کو اس کی افسر شاہی کا یاجوج ماجوج کھا گیا۔ صالح عباد لکھتے ہیں کہ یہ یاجوج ماجوج کا لشکر تھا، وسائل چاٹتا چلا گیا اور بحران سے دوچار ریاست کے لئے ممکن نہ رہا اس لشکر کا پیٹ بھر سکے۔ یعنی وہی ہوا جو ہمارے ہاں ہو تا رہا ہے۔ قرض کا پہاڑ کھڑا ہوگیا ہے، ہر قسم کی بالادست اشرافیہ مزے میں ہے، غیر معمولی تنخواہیں ہیں، پلاٹ ہیں، ہوش ربا مراعات ہیں لیکن عوام کو ہر پہر پیاس بجھانے کے لیے اپنا کنواں خود کھودنا پڑتا ہے۔ اسے معلوم نہیں اربوں ڈالر کا یہ قرض کہاں سے آیا اور کہاں گیا۔
بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ قرض ملتے ہی عوام کے لیے بجلی قریب پچاس روپے فی یونٹ کر دی گئی اور فکری افلاس کا یہ عالم ہے کہ ریڈیو کو چلانے کے لیے بجلی کے بل میں پندرہ روپے کا ٹیکس ڈال دیا گیا لیکن افسر شاہی کی مراعات کم کرنے کا کوئی سوچ ہی نہیں رہا۔ چار پیسے کشکول میں آتے ہی کروڑوں کی مالیت سے گاڑیاں خرید کر اسسٹنٹ کمشنروں کو دی جا رہی ہیں جن کی اہلیت یہ ہے کہ سبزیوں کے ریٹ ان کے بس میں ہیں نہ پٹرول پمپوں کے پیمانے پورے ہیں۔ بس مراعات ہیں اور افسر شاہی ہے۔
کبھی کبھی تو باقاعدہ خوف آتا ہے کہ کیا ہم بھی اپنے ساتھ وہی کر رہے ہیں جو سلطنت عثمانیہ کے ساتھ ہوا۔ قرض لے لے کر اور بے رحمی سے کھا کھا کرایک وقت آیا کہ سلطنت عثمانیہ کا دیوالیہ نکل گیا۔ قرض کا پہاڑ کھڑا تھا لیکن اس قرض سے سلطنت میں ایسا کچھ بھی تیار نہیں کیا گیا تھا جس سے اتنا زر مبادلہ حاصل ہو پاتا کہ قرض کی ادائیگی ہی ہوتی رہتی۔ چنانچہ 1875میں فرمان رمضان، جاری کیا گیا اور دنیا کو بتا دیا گیا کہ سلطنت عثمانیہ کے پاس آپ کا قرض ادا کرنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔ وہ دیوالیہ ہوگئی ہے۔ سلطنت کا جغرافیائی سقوط تو بعد میں جا کر ہوا لیکن اس کی معاشی خود مختاری کا خاتمہ اس فرمان رمضان کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ (آج میرے جیسا آدمی بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ہم نے پاکستان میں جو اتنا قرض کا پہاڑ کھڑا کر لیا ہے تو یہ قرض لگا کہاں؟ کس نے کھایا؟)
جب نوبت یہاں تک آن پہنچی تو جنہوں نے قرض دے رکھے تھے وہ اکٹھے ہو گئے کہ اب سلطنت عثمانیہ کی معاشی پالیسیاں ہم ترتیب دیں گے۔ اب اہم فیصلے ہم کریں گے۔ طے پایا کہ اب ٹیکس کب کہاں اور کتنا لگنا ہے اس کا فیصلہ سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ سلامت نہیں کریں گے بلکہ اس کا فیصلہ وہ کریں گے جنہوں نے سلطنت عثمانیہ کو قرض دے رکھا ہے۔ چنانچہ چند ہی سال بعد 1881 میں مجبوری کے عالم میں سلطنت عثمانیہ نے معاشی سرنڈر کی دستاویز پر دستخط کیے اور فرمان محرم، جاری کر دیا گیا۔ فرمان محرم گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اب سلطنت عثمانیہ کے سٹیٹ بنک، پر سلطنت کا کوئی کنٹرول نہیں رہا۔ اب مالیاتی بندوبست کو عالمی مالیاتی قوتیں براہ راست دیکھیں گی۔ انہی کا عملہ آئے گا۔ وہی پالیسیاں بنائیں گے۔ وہی ٹیکس کا تعین کریں گے، وہی ٹیکس وصول کریں گے۔ (آج ہمارا سٹیٹ بنک خود مختار ہو چکا ہے، ہماری پالیسیاں ہم نہیں بنا رہے۔ ہمارا وزیر اعظم کہتا ہے پٹرول بجلی اس لیے مہنگے کرنے پڑے کہ آئی ایم ایف نے کہا تھا۔ کب کہاں کتنا ٹیکس لگنا ہے اس کا فیصلہ آئی ایم ایف کر رہا ہے) افسر شاہی کا یہ یاجوج ماجوج کا لشکر ہمیں نو آبادیاتی ورثے میں ملا ہے۔ یہ وسائل کو امانت نہیں مال غنیمت اور عوام کو شہری نہیں رعایا سمجھتا ہے۔ ذرا تصور کیجیے ایک معاشی بحران سے دوچار ملک ہے اور سرکاری اداروں کے 189000 ملازمین صرف اس ایک سال میں 8ارب 19 کروڑ کی بجلی مفت استعمال کرتے ہیں۔ ہم بھی بنیادی طور پر زرعی معیشت ہیں لیکن زراعت پر بات کرنا توہین سمجھتے ہیں اور پینڈو، کا لفظ تحقیر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ زرعی معیشت کو ہم انڈسٹریلائز نہیں کر سکے۔ شہریوں کو شراکت اقتدار کا تاثر نہیں دیاجا سکا۔ اپنے ہی شہریوں سے محکوموں یجیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ وسائل صرف ایک طبقے کی میراث بن چکے ہیں۔ افسر شاہی کا یاجوج ماجوج کا لشکر سب کچھ چاٹتا جا رہا ہے۔
0 Comments