پچھلے دنوں ایک مسجد میں نئے امام کی تلاش جاری تھی۔ چند کمیٹی ممبران ایک مفتی صاحب کے پاس چلےگئے۔ رسمی سلام و دعا کے بعد مفتی صاحب نے آنے والوں سے آنے کا مدعا پوچھا :کیسے آنا ہوا؟
مسجدکمیٹی: بس آپ کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے تھے،آپ جیسے بزرگوں کی صحبت نصیب ہونا بھی سعادت کی بات ہے۔
مفتی صاحب:ماشاء اللہ! اللہ خوش رکھے۔ پھر بھی اگر کوئی کام ہے تو بتا دیں کیونکہ مجھے کسی کام سے باہر جانا ہے۔
مسجدکمیٹی:جی بس آپ سے ملنا بھی تھا اور ایک عرصے سے ہمارا آپ کے ہاں آنا جانا ہے تو ہم نےچاہا کہ ہم اپنی مسجد کےلیے امام صاحب بھی آپ ہی کے پاس سے لے جائیں۔
مفتی صاحب: پہلے امام صاحب کہاں ہیں؟
مسجدکمیٹی:انہیں فارغ کر دیا ہے۔
مفتی صاحب:کیوں؟
مسجدکمیٹی: ٹائم نہیں دیتے تھے۔
مفتی صاحب: کیا مطلب؟
مسجدکمیٹی: جی وہ نماز کے لیے ٹائم پر نہیں آتے تھے اور چھٹیاں بھی بہت کرتے تھے؟
مفتی صاحب:ٹائم پر کیوں نہیں آتے تھے؟
مسجدکمیٹی: جی وہ اِدھر اُدھر ٹیوشن پڑھانے نکل جاتے تھے پھر نماز پہ کبھی ایک منٹ رہتا تو پہنچتے اور کبھی بالکل عین جماعت کےٹائم پر پہنچتے تھے اور کبھی پہنچتے ہی نہیں تھےروز کسی نہ کسی نماز کی چھٹی کر لیتے تھے۔
مفتی صاحب:وظیفہ کیا دیتے ہیں؟
مسجدکمیٹی:جی ان کو آٹھ ہزار (8000)دیتے تھے اور اب آپ کے امام صاحب کو دس ہزار دیں گے۔
مفتی صاحب:امام صاحب فیملی کے ساتھ رہتے تھے؟
مسجدکمیٹی:نہیں اکیلے تھے ،ہمارے پاس فیملی رہائش کی سہولت نہیں ہے، اب کوشش کر رہے ہیں۔
مفتی صاحب:آپ جانتے ہیں کہ اس منصب کی ابتدا سید المرسلینﷺ نے کی اور خلفائے راشدین نے اسے پروان چڑھایا۔خلفائے راشدین بَیَکْ وقت حاکم بھی تھے اور امام بھی۔ ان کے بعد منصبِ امامت والے انہی کے نائبین کہلاتے ہیں۔اسی لیے مصلائے امامت کو مصلائے رسول اور منبرِ مسجد کو منبرِ رسول بھی کہتےہیں۔اب خود ہی سوچیں کہ یہ کتنا مقدس منصب ہے اور اس کی کتنی قدر ہونی چاہیے۔ آج کل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امام صاحب چوبیس گھنٹے مسجد میں موجود رہیں اور ہم جو بھی کہیں امام صاحب وہی کریں لیکن دوسری طرف لوگوں کی حالت یہ ہے کہ انہیں اتنا بھی وظیفہ نہیں دیتے جس سے ان کی ضروریات پوری ہو سکیں۔آج اس دور میں سرکاری طور پر ایک مزدور کا وظیفہ بھی چودہ ہزار (14000)مقرر ہے لیکن لوگوں کی کم ظرفی تو دیکھیں کہ جس منصب کا رتبہ ملک کے صدر و وزیر اعظم سے بھی اعلیٰ ہے اسے ایک مزدور کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے،ارے میرے نزدیک تو امام و قرآن کی قدر یہ ہے کہ امام صاحب جوصرف نمازِ فجر میں ہمیں قرآن سناتے ہیں اگر صرف ایک نماز پر انہیں ہم ایک لاکھ روپے وظیفہ دیں تو یہ بھی کم ہے۔اور یہاں اس مقام کی قدر یہ هے کہ لوگ سات آٹھ ہزار دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم ان پر بڑا احسان کرتے ہیں اوراگر ان کا اپنا بیٹا 30 ،40 ہزار بھی کماتا ہو پھر بھی انہیں کم نظر آتا هے اور انہی امام صاحب سے دعا کرائیں گے کہ بچے کی کوئی اچھی جاب لگ جائے، حیرت و افسوس کا مقام ہے۔لوگوں کا خیال ہے کہ امام صاحب اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے نہ ٹیوشن پڑھائیں نہ کچھ اور کام کریں صرف ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہیں۔کیا وہ انسان نہیں ہیں؟کیا ان کے بیوی بچوں کی ضروریات نہیں ہیں؟کیا وہ اپنے بیوی بچوں کو خوشیاں دینے کے مستحق نہیں ہیں؟آج لوگوں کو امام نہیں ایک نوکر اور غلام کی تلاش ہے، مہربانی فرما کر تشریف لے جائیں اور دوبارہ میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں۔
یہ کہہ کر مفتی صاحب چل دیۓ اور کمیٹی ممبران دیکھتے رہ گئے۔