Wednesday, May 18, 2022

استاد

شادی کی تقریب میں ایک صاحب اپنے جاننے والے آدمی کے پاس جاتے ھیں اور پوچھتے ھیں۔۔ کیا آپ نے مجھے پہچانا؟"
انہوں نے غور سے دیکھا اور کہا "ھاں آپ میرے پرائمری سکول کے شاگرد ھو۔ کیا کر رھے ھو آج کل؟"
شاگرد نے جواب دیا کہ "میں بھی آپ کی طرح سکول ٹیچر ھوں۔اور ٹیچر بننے کی یہ خواہش مجھ میں آپ ھی کی وجہ سے پیدا ھوئی۔"
استاد نے پوچھا "وہ کیسے؟"
شاگرد نے جواب دیا، "آپ کو یاد ھے کہ ایک بار کلاس کے ایک لڑکے کی بہت خوبصورت گھڑی چوری ھو گئی تھی اور وہ گھڑی میں نے چرائی تھی۔ آپ نے پوری کلاس کو کہا تھا کہ جس نے بھی گھڑی چرائی ھے واپس کر دے۔ میں گھڑی واپس کرنا چاھتا تھا لیکن شرمندگی سے بچنے کے لئے یہ جرات نہ کر سکا۔
آپ نے پوری کلاس کو دیوار کی طرف منہ کر کے ، آنکھیں بند کر کے کھڑے ھونے کا حکم دیا اور سب کی جیبوں کی تلاشی لی اور میری جیب سے گھڑی نکال کر بھی میرا نام لئے بغیر وہ گھڑی اس کے مالک کو دے دی اور مجھے کبھی اس عمل پر شرمندہ نہ کیا۔ میں نے اسی دن سے استاد بننے کا تہیئہ کر لیا تھا۔"
استاد نے کہا کہ "کہانی کچھ یوں ھے کہ تلاشی کے دوران میں نے بھی اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں اور مجھے بھی آج ھی پتہ چلا ھے کہ وہ گھڑی آپ نے چرائی تھی۔Teacher respect🤲

Sunday, May 8, 2022

رائل البرٹ ہال

لندن کا مشہور رائل البرٹ ہال
تماشائیوں سے کھچا کھچ
 بھرا ہوا تھا۔

سب کی نظریں پردے پر
گڑی ہوئی تھیں۔

 ہر ایک آنکھ اپنے
پسندیدہ سٹینڈ اپ کامیڈین کی
ایک جھلک دیکھنے کو
 بے قرار تھی۔

چند ہی لمحوں بعد پردہ اٹھا
 اور اندھیرے میں
 ایک روشن چہرہ جگمگایا
جس کو دیکھ کر تماشائی
 اپنی سیٹوں سے
 کھڑے ہو گئے
 اور تالیاں کی گونج میں
اپنے پسندیدہ کامیڈین کا
استقبال کیا۔

یہ گورا چٹا آدمی
مشہور امریکی سٹینڈ اپ
کامیڈین
ایمو فلپس تھا۔

اس نے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ
 ہاتھ اٹھا کر اپنے چاہنے والوں کا
شکریہ ادا کیا
 اور بڑی ہی گھمبیر آواز میں بولا :

دوستو! میرا بچپن بہت ہی
کسمپرسی کی حالت میں گزرا تھا،
مجھے بچپن سے ہی بائیکس کا
بہت شوق تھا۔

میرا باپ کیتھولک تھا،
وہ مجھے کہتا تھا کہ
 خدا سے مانگو وہ سب دیتا ہے۔

میں نے بھی خدا سے مانگنے میں
کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی
 اور دن رات اپنے سپنوں کی
بائیک کو خدا سے
مانگنا شروع کر دیا۔

میں جب بڑا ہوا تو
مجھے احساس ہوا کہ
میرا باپ اچھا آدمی تھا
لیکن تھوڑا سا بے وقوف تھا،
اس نے مذہب کو سیکھا تو تھا
لیکن سمجھا نہیں تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
لیکن میں سمجھ گیا تھا۔

اتنا کہہ کر ایموفلپس نے
مائیکروفون اپنے منہ کے آگے سے
ہٹا لیا
اور ہال پر نظر ڈالی تو
دور دور انسانوں کے سر ہی
سر نظر آ رہے تھے
لیکن ایسی پِن ڈراپ سائلنس تھی
کہ اگر اس وقت سٹیج پر
سوئی بھی گرتی تو
شاید اس کی آواز کسی دھماکے سے
کم نہ ہوتی۔

ہر شخص ایمو فلپس کی مکمل بات سننا چاہتا تھا
کیونکہ وہ بلیک کامیڈی کا
بادشاہ تھا،
وہ مذاق ہی مذاق میں
فلسفوں کی
گھتیاں سلجھا دیتا تھا۔
ایمو نے مائیکروفون دوبارہ
اپنے ہونٹوں کے قریب کیا

اور بولا:

میں بائیک کی دعائیں
مانگتا مانگتا
بڑا ہو گیا
لیکن بائیک نہ ملی،
ایک دن میں نے
اپنی پسندیدہ بائیک چرالی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔

بائیک چرا کر
گھر لے آیا
اور اس رات میں نے
ساری رات خدا سے
گڑ گڑا کر معافی مانگی
اور اگلے دن معافی کے بعد
میرا ضمیر ہلکا ہو چکا تھا
اور مجھے میری پسندیدہ
بائیک مل چکی تھی
اور میں جان گیا تھا کہ
مذہب کیسے کام کرتا ہے۔

اتنا کہہ کر جیسے ہی
ایمو فلپس خاموش ہوا
تو پورا ہال
قہقوں سے
گونج اٹھا،
ہر شخص ہنس ہنس کر
بے حال ہو گیا۔
اور کیا آپ جانتے ہیں
اس لطیفے کو سٹینڈ اپ کامیڈی کی تاریخ کے سب سے مشہور
لطیفے کا اعزاز حاصل ہے۔

اتنا کہہ چکنے کے بعد 
ایمو فلپس نے
پھر سے مائیکروفون
ہونٹوں کے قریب کیا

اور بولا:

"اگر تم کبھی
کسی مال دار شخص کو
خدا سے معافی مانگتے دیکھو
تو یاد رکھنا وہ مذہب سے
زیادہ
چوری پر یقین رکھتا ہے"۔۔۔ ۔۔۔۔

اتنا کہہ کر ایمو فلپس
پردے کے پیچھے غائب ہو گیا
اور لاکھوں شائقین ہنستے ہنستے
رو پڑے
کیونکہ یہ ایسا جملہ تھا
جس نے بہت سارے
فلسفوں کی گھتیاں
سلجھا دی تھیں۔

میں دو دن سے
دیکھ رہا ہوں کہ
وہ تمام لوگ
جن پر پاکستان میں کرپشن،
عدالتی کیس چل رہے ہیں،
وہ سب لوگ مکہ مدینہ میں
قران پاک پڑھتے ہوئے،
نماز پڑھتے ہوئے،
جالیوں کو چومتے ہوئے
اور ہزار طرح کی
مناجات کرتے ہوئے
تصویریں کھنچوا کھنچوا کر
پاکستان بھیج رہے ہیں
اور لوگوں سے کہہ رہے ہیں
کہ دیکھو
ہم کتنے نیک
اور مذہبی ہیں،
ہم تو ہر لمحہ
اللہ سے توبہ استغفار
کرتے رہتے ہیں.

لیکن میرے کانوں میں
بار بار ایمو فلپس کا
وہ جملہ گونج رہا ہے ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

"اگر تم کبھی
کسی مال دار شخص کو
خدا سے معافی مانگتے دیکھو
تو یاد رکھنا
*وہ مذہب سے زیادہ*
*چوری پر یقین رکھتا ہے....!

یہ وقت بھی گزر جائے گا

#یہ_وقت_بھی_گزرجائےگا۔۔ 

 میں ایک ضروری کام سے سفر میں تھا کہ راستے میں نماز عصر کا وقت ہوا تو میں ایک مسجد میں نماز کیلئے رک گیا۔۔ 

 وضو خانہ میں رش تھا۔ ایک صاحب نے بتایا کہ مسجد کے بیسمنیٹ میں بھی وضو کی جگہ ہے وہاں چلے جایئں۔ میں اس طرف گیا تو وہ مسجد کا مدرسہ تھا۔ جہاں بچوں کی رہائش تھی انکا سامان پڑا ہوا تھا اور انہی کیلئے وضو کی جگہ بھی بنی ہوئی تھی۔ نماز میں چونکہ ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ سو میں نے وضو کیا اور ان چھوٹے چھوٹے فرشتہ نما صاف ستھرے مدرسہ کے بچوں کے قریب بیٹھ کر انکی معصومانہ گپ شپ سے مستفیض ہونے لگ گیا۔ 

 میرے بالکل سامنے ان کے چھوٹے چھوٹے ٹرنک پڑے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک پرانا سا جستی چادر کے ایک ٹرنک پہ ایک جملہ دیکھ کر نجانے کیوں میں چونک گیا۔ اس ٹرنک پہ لکھا تھا کہ ، 

 یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ 😟😰😭

 میں بے ساختہ کھڑا ہوا۔۔اس ٹرنک کے پاس گیا اور اس لکھائی پہ ہاتھ پھیرنے لگ گیا۔ 
  میری یہ حرکت بے ساختہ تھی۔  
 اور میرے گرد پتہ نیئں کیوں دکھ، درد اور کرب کا ایک ہالا سا بن گیا تھا۔ میں نے اس بچے کے بارے میں پوچھا کہ اس ٹرنک کا مالک بچہ کون ہے۔؟ پتہ چلا وہ اوپر مسجد میں نماز کیلئے چلا گیا ہے۔ باقی بچے بھی جارہے تھے میں بھی انہی کیساتھ اوپر آگیا۔ 

  میں بظاہر نماز میں کھڑا تھا مگر دوران نماز بھی ٹرنک پہ لکھا وہ جملہ کہ "یہ وقت بھی گزر جائے گا " میرے حواس پہ چھایا رہا۔نماز سے فارغ ہو کر میں دوبارہ نیچے آگیا اور اس بچے سے ملا۔ میں نے اسکی انگلی پکڑی اور اسکو ٹرنک کے پاس لے گیا۔ یہ آٹھ سال کا ایک خوبصورت بچہ تھا جس کا نام عبدالشکور تھا۔ میں نے اس ننھے فرشتے سے حال احوال پوچھا اور اس جملے کے معانی پوچھنے لگ گیا۔ 

  وہ ٹال مٹول سے کام لینے لگ گیا۔ میں اصرار کرنے لگا کہ آپ نے اس جملے کو کہاں سے لیا اور اپنے ٹرنک کیلئے اسی جملے کا انتخاب کیوں کیا۔۔وہ مسکرایا ۔

 اور یوں مسکرایا کہ اسکی آنکھیں نم ہو گیئں۔۔آنسووں کی ایک لکیر اسکی آنکھوں سے نمودار ہوئی اور گالوں سے ہوتی مسجد کی صفوں پہ جزب ہو گئی۔۔وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر کہہ نہیں پا رہا تھا۔۔۔ 

 میں نے اسکو تسلی دی، ایک بچے کو پانی لانے کا کہا اور اسکے پاس بیٹھ گیا۔ زرا سی دیر بعد وہ کچھ بحال ہوا اور بتایا کہ میں تین سال کا تھا کہ میرے والد محترم ایک حادثہ میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔۔ایک بہن ہے جو مجھ سے دو سال بڑی ہے۔ والدہ محترمہ اور بہن گھر میں ہیں۔ والد صاحب کی خواہش تھی کہ میں حافظ بنوں۔ انہوں نے اس خواہش کا اظہار امی سے کیا تھا۔ وہ فوت ہوئے تو امی نے انکی خواہش پوری کرنے کا ارادہ کر لیا۔ رشتہ دار ہیں نہیں۔ بس چھوٹا سا کنبہ ہے۔ امی اور بہن لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں اور مجھے یہاں داخل کروا گئی ہیں۔ میں ایک سال سے یہاں پڑھ رہا ہوں۔ مہینہ بعد وہ آتی ہیں اور مجھے دو دن کیلئے گھر لے جاتی ہیں۔۔اس دوران ابو کی قبر پہ بھی جاتے ہیں اور بتا کر آتے ہیں کہ انکی خواہش پہ میں حافظ بن رہا ہوں۔ میں گھر، امی جی اور بہن کو دیکھ کر پریشان ہوتا ہوں تو امی کہتی ہیں شکورے یہ وقت بھی گزر جائے گا۔۔مجھے یہ بات بہت اچھی لگی اور ایک دن ایک پینٹر انکل مسجد کا کام کرنے آئے تو میں نے ان سے اپنے ٹرنک پہ یہی جملہ لکھوا لیا۔ 

  رات کبھی کبھی مجھے دیر تک نیند نہیں آتی۔۔ابو یاد آتے ہیں۔۔امی اور بہن کا کام کرنا یاد آتا ہے۔۔بے چین ہوتا ہوں تو میں اٹھ کر اس جملے کو دہرا لیتا ہوں۔۔احساس کا کوئی لمحہ آئے یا بچوں کے پاس کوئی ایسی چیز دیکھوں جو باوجود خواہش کے میں حاصل نہیں کرپاتا تو میں اپنے اس ٹرنک کے سامنے آ کر کھڑا ہوتا ہوں اور پوری توجہ سے امی جی کے اس قول کو پڑھ لیتا ہوں۔۔۔ 

 اس کے بعد اس نے کیا کہا۔۔اور میں نے کیا سنا۔۔یہ میں نہ تو لکھ سکتا ہوں اور نہ بتا پاوں گا۔۔بس اتنا عرض ہے کہ ملک بھر میں اس طرح کے بچے بھی ہمارے بچے ہیں۔ان پر زبانیں اچھالی جاتی ہیں یہ معلوم نہیں کہ یہ معصوم کن کن حالات سے گزرکر ہمارے امام وپیشوا بنتے ہیں کچھ نادان ان پر زبان درازی کرتے ہیں انہیں کیامعلوم کہ ان کی حفاظت اللہ کے نورانی فرشتے کرتےہیں ان کے پاؤں تلے فرشتے پر بچھاتے ہیں آخر کوئی وجہ توہے کہ زبان درازی کرنے والے مصلیٰ رسول کے قابل نہیں ہوتے بلکہ یہ ہی معصوم پھول مصلیٰ رسول پر ہمارے امام بنتے ہیں. اس لیے ان کے خلاف نہ بولاکریں کیوں کہ سورج پرتھوکنے سے اسکی شان کم نہیں ہو جاتی اورنہ سورج پر بھونکنے سے بےنورہوتاہے... 

  اور جب کبھی آپکا چکر لگے ان کا حال احوال پوچھ لیا کریں۔ 

  اہل محلہ ان کے احوال سے باخبر رہا کریں۔ اللہ تعالی کے یہ ننھے منے مہمان فرشتے ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔۔ ہمارا فرض ہے کہ انکا خیال رکھیں۔۔یہ ہماری عاقبت کیلئے مفید ہوگا۔۔باقی وقت تو انکا بھی گزر ہی جائے گا۔۔

سری لنکا دیوالیہ اور ہم

مہاتما بودھ کا پسندیدہ ملک سری لنکا
49 دنوں میں مکمل دیوالیہ ہو گیا 
 فروری 2022 کو پہلا خوف ناک ایشو پیدا ہوا
کولمبو پورٹ پرآئل کیریئر 
40 ہزار ٹن فیول (پٹرول) لے کر پہنچا..
بینک آف سیلون* نے پٹرول کی پے منٹ کرنی تھی لیکن بینک کے پاس ڈالر ختم ہو گئے تھے۔۔۔ 
وزیرخزانہ سے رابطہ کیا گیا۔
وزیرخزانہ نے اسٹیٹ بینک سے بات کی 
لیکن اس کے پاس صرف دو ارب اور 
30 کروڑ ڈالر تھے 
اور وہ بھی کرنسی کی شکل میں نہیں تھے 
لہٰذا سری لنکا پٹرول نہ خرید سکا
اور جہاز پٹرول سمیت انڈیا روانہ ہو گیا۔۔۔ 
یہ سری لنکا کے دیوالیہ پن کا اسٹارٹ تھا 
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے 
مہاتما بودھ کا پسندیدہ ملک 
49 دنوں میں مکمل دیوالیہ ہو گیا اور 
سری لنکا نے 
12 اپریل کو خود کو دیوالیہ ڈکلیئر کر دیا۔

ہم نے دیوالیہ کا صرف لفظ سنا ہے، 
ہم اس کے نتائج اور ردعمل سے بالکل واقف نہیں ہیں۔۔۔۔ 
میں لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنتا ہوں کہ 
*ہم اگر دیوالیہ ہو بھی گئے تو کیا فرق پڑتا ہے*....؟
 سری لنکا میں بھی ایسے لاکھوں لوگ تھے،
یہ بھی حکومت کو کہتے تھے 
*ہم اگر دیوالیہ ہو بھی گئے تو کیا فرق پڑتا ہے*؟ 
لیکن آج سب سے زیادہ یہی لوگ رو رہے ہیں،
سڑکوں پر مظاہرے ہو رہے ہیں اور سرکاری دفتروں اور اہلکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے مگر 
یہ اہلکار اور سرکاری محکمے 
اب کیا کر سکتے ہیں؟ 
پورا ملک 
اس وقت ٹوٹی ہوئی کشتی کی طرح سمندر میں ہچکولے کھا رہا ہے 
اور پوری دنیا میں اسے بچانے اور 
سہارا دینے والا کوئی شخص موجود نہیں۔

*آپ اگر دیوالیہ پن کو سمجھناچاہتے ہیں تو آپ چند مثالیں دیکھ لیں*؛

 سری لنکا کو تین ہزار میگا واٹ بجلی چاہیے ہوتی ہے جب کہ 
بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 
4 ہزار میگاواٹ ہے 
لیکن 
80 فیصد بجلی 
تھرمل پاورپلانٹس 
سے پیدا ہوتی ہے اور یہ پلانٹس ڈیزل، فرنس آئل اور کوئلے پر چلتے ہیں، 
ان کے لیے ڈالرز چاہئیں اور سری لنکا کے پاس ڈالرز نہیں ہیں 
لہٰذا پاورپلانٹس بند ہیں
 اور
 نتیجے میں ملک میں روزانہ ساڑھے سات گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، 
صبح آٹھ بجے سے ایک بجے اور شام چھ سے ساڑھے آٹھ بجے تک پورے ملک میں بجلی نہیں ہوتی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے 
ٹیلی ویژن، موبائل فون سروسز، دفتر، اسکول، اسپتال، ریستوران، 
چائے خانے اور ہوٹل بند ہو جاتے ہیں۔

یہ پڑھ کر ھمارے ذہن میں سوال آئے گا یہ ادارے اپنے جنریٹرزکیوں نہیں چلا لیتے۔۔۔۔۔؟ 
یہ چلا سکتے ہیں لیکن جنریٹرز ڈیزل، پٹرول، فرنس آئل، 
گیس اور کوئلے سے چلتے ہیں 
اور یہ سہولتیں اس وقت ملک میں موجود ہی نہیں ہیں، 
بجلی کی بندش سے ٹیوب ویلز اور پانی کی موٹرز نہیں چل رہیں 
چنانچہ پورے ملک میں پانی اور سیوریج دونوں بڑے بحران بن چکے ہیں....

*پٹرول نہ ہونے کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ بھی بند ہو چکی ہے* اور 
*ریل سروس بھی، ذاتی گاڑیاں بھی گیراجوں میں کھڑی ہیں* 
*یا پھر پارکنگ* *لاٹس اور گلیوں میں* ...

 بچوں کے امتحانات منسوخ کر دیے گئے ہیں کیوں کہ 
*ایجوکیشن بورڈز کے پاس امتحان کی کاپیاں اور سوال چھاپنے کے لیے کاغذ ہی موجود نہیں ہیں*۔

ڈرائیونگ لائسنس، 
شناختی کارڈز اور پاسپورٹس بھی نہیں بن رہے کیوں کہ 
پلاسٹک شیٹس امپورٹ نہیں ہو رہیں... 

*سری لنکا کی ایکسپورٹس کا 52 فیصد ٹیکسٹائل اور گارمنٹس پر مشتمل تھا*..

 *جی ڈی پی میں چائے کی ایکسپورٹ کا والیم 17 فیصد تھا* جب کہ 
*باقی 31 فیصد آمدنی مصالحوں*،
*قیمتی پتھروں، کوکونٹ*،
*ربڑ، فش اور سیاحت سے آتی تھی*۔۔۔

 تیل کی بندش، لوڈشیڈنگ 
اور ڈیفالٹ کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری اور چائے سمیت ساری ایکسپورٹس رک گئیں، 
فلائیٹس بند ہوئیں تو 
*سیاحت کی انڈسٹری بھی دم توڑ گئی*۔۔۔ 
مسافر نہیں آ رہے تو ہوٹل،
ریستوران 
اور عجائب گھر بھی اجڑ گئے۔

*پاکستان کی طرح سری لنکا کے مالیاتی ذخائر کا بڑا سورس بھی تارکین وطن ہیں*۔۔ 
ملک کے معاشی حالات خراب ہوئے تو دوسرے ملکوں میں مقیم سری لنکن نے بھی رقمیں بھجوانا بند کر دیں 
لہٰذا بحران بڑھتا چلا گیا 
اور آج 
سری لنکا پوری دنیا کو محتاج نظروں سے دیکھ رہا ہے اور کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے کے لیے تیار نہیں۔

*ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ* 
*آخر سری لنکا اس حالت کو کیسے پہنچا* ۔۔۔۔۔؟ 

*ہم سرِدست سیاسی وجوہات کو سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں اور عملی چیزیں دیکھتے ہیں*۔۔۔ 

سری لنکا قدرتی وسائل سے مالا مال خوب صورت ملک ہے،
دنیا کی بہترین چائے پیدا کرتا ہے،
گھنے جنگلوں کا مالک ہے، 
*بودھ مت کا گڑھ ہے* 
لہٰذا مدہبی سیاحت کے خزانے بھی ہیں،
دنیا جہان کے مصالحے بھی پیدا ہوتے ہیں، 
سری لنکا کی دارچینی پوری دنیا میں مشہور ہے، 
یہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں آیا تو دنیا کے نامور برینڈز گاہک بن گئے۔
 چار سائیڈز سے سمندر میں گھرا ہوا ہے لہٰذا 
ہر قسم کا ساحل بھی ہے 
اور ان ساحلوں پر سینکڑوں ریزارٹس اور ہوٹلز بھی۔۔۔
92 اشاریہ تین فیصد لوگ پڑھے لکھے ہیں، 
بھکاری بھی روزانہ اخبار پڑھتے ہیں۔۔۔ 
برصغیر کی قدیم ترین لائبریری *گال* شہر میں ہے، 
یہ ہالینڈ کے جہاز رانوں نے 1832 میں بنائی تھی اور آج بھی چل رہی ہے... مہاتما بدھا کا ایک دانت *کینڈی* شہر میں رکھا ہوا ہے اور پوری دنیا سے 
بدھا بھکشو اس کی زیارت کے لیے کینڈی آتے ہیں۔

*سری لنکا سائوتھ ایشیا کا پہلا ملک تھا* *جس نے* 
*1970 میں اپنی معیشت کو لبرل بنایا تھا* 
اور سری لنکن بہت صفائی پسند،
ڈسپلنڈ اور نرم مزاج لوگ بھی ہیں...

مہمان نوازی کے شعبے میں 
ان کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن پھر ایسا کیا ہوا 
جس کی وجہ سے سری لنکا دیوالیہ ہو گیا۔۔۔۔۔؟

 *اس کی 6 وجوہات ہیں*:

1- *پہلی وجہ* 
قرضے ہیں.. 
سری لنکا کو بھی پاکستان کی طرح قرضوں کی لت لگ گئی تھی... یہ تازہ ہوا کے لیے بھی قرضہ لے لیتا تھا... 
*یہ قرضے بڑھتے بڑھتے جی ڈی پی کا* 
*119 فیصد ہو گئے* یعنی 
آپ جو کچھ کما رہے ہیں 
وہ اور اس کے ساتھ مزید 
20 فیصد قرضوں کی قسطوں میں دے رہے ہیں لہٰذا ملک ہماری طرح قرضے کی ادائیگی کے لیے بھی قرض لینے پر مجبور ہو گیا۔

2- *دوسری وجہ* 
پاکستان کی طرح سری لنکا کا بجٹ اور تجارتی خسارہ بھی بڑھ گیا 
یعنی جتنا بجٹ بناتے تھے یہ 
اس سے زیادہ خرچ کر دیتے تھے اور انھیں جتنی آمدنی برآمدات سے ہوتی تھی یہ اس سے زیادہ رقم درآمدات پر خرچ کر دیتے تھے... 
یہ لوگ بھی ہماری طرح بیچتے کم اور 
خریدتے زیادہ تھے...

3- *تیسری وجہ* 
سری لنکا میں ہماری پی آئی اے اور اسٹیل مل کی طرح
502 ایسے سفید ہاتھی تھے 
جن پر بجٹ کا 20فیصد حصہ خرچ ہو جاتا تھا....
ان اداروں میں سیاسی بھرتیاں ہوتی تھیں... صرف دفتروں کے تالے کھولنے اور بند کرنے کے لیے بیس بیس لوگ تھے۔ 
یہ ہاتھی 
کھاتے بہت زیادہ تھے 
لیکن واپس کچھ نہیں کرتے تھے....

4- *چوتھی وجہ* 
سری لنکا کی ٹریڈ پالیسی بنی، پالیسی بہت اچھی تھی۔۔۔ 
یہ سائوتھ ایشیا کا پہلا ملک تھا جس نے اپنی معیشت عالمی منڈی کے لیے اوپن کی 
لیکن پاکستان کی طرح ان کی انڈسٹری اور تجارت بھی بیوروکریسی یعنی 
سول سروسز (ھمارے ملک کا بھی یہی حال ہے) کے ہاتھوں ذلیل ہو رہی تھی۔۔۔
فیکٹریوں کے مالکان کا ایک پائوں فیکٹری میں ہوتا تھا 
اور دوسرا سرکاری دفتروں میں ارب پتی لوگ بھی عام سرکاری دفتروں کے برآمدوں میں بیٹھے ہوتے تھے۔

غیرملکی کمپنیاں بھی سری لنکا آئیں 
لیکن بیوروکریسی کے تاخیری حربوں، رشوت اور منفی رویے کی وجہ سے واپس چلی گئیں 
لہٰذا بیوروکریسی کی وجہ سے 
سری لنکن 
بزنس مین ترقی بھی نہ کرسکے اور یہ ہانگ کانگ، ملائیشیا اور تائیوان میں بھی بیٹھ گئے.. 

5- *پانچویں وجہ* سری لنکا مسلسل 26 سال خلفشار اور خانہ جنگی کا شکار رہا۔۔۔ 
تامل ٹائیگرز نے 1983 میں جنگ شروع کی اور یہ 
2009 تک مسلسل لڑتے رہے۔۔۔
اس جنگ نے ملک، 
معیشت اور فوج تینوں کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں، 
دنیا میں خودکش حملوں کے تازہ موجد بھی تامل ٹائیگرز تھے، 
خودکش جیکٹ ان لوگوں نے بنائی تھی۔ 
سری لنکا نے پاکستان کی مدد سے 2009 میں اس عفریت پر قابو پایا 
لیکن یہ جاتے جاتے ملک کا سب کچھ لے گیا۔

 اور ۔۔۔۔۔۔ 

6- *چھٹی وجہ* سری لنکا میں تعلیم بہت ہے لیکن 
پاکستان کی طرح عملی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے، 
لوگ ڈگری ہولڈرز ہیں مگر ان کے پاس ہنر کوئی نہیں لہٰذا 
پاکستان کی طرح سری لنکا میں بھی ہر شخص نوکری کی درخواست جیب میں ڈال کر پھر رہا تھا اور اس کا نتیجہ ڈیفالٹ کی صورت میں نکلا۔

سری لنکا کی مثال دیکھ کر ھم یہ بات اب سمجھ لیں کہ
دنیا میں کوئی قوم قدرت کی فیورٹ نہیں ہوتی، بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین قوم تھی 
لیکن اس نے بھی جب قدرت کے سسٹم کی خلاف ورزی کی تو وہ بھی ہزاروں سال ذلیل و خوار ہوتی رہی،
ہم مسلمان بھی کئی سو سال سے خوار خراب ہو رہے ہیں

 کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟

 کیونکہ *ہم بھی نیچر کے سسٹم سے الٹ چل رہے ہیں* 
لہٰذا یہ یاد رکھیں 
اگر اللہ تعالیٰ نے 22 ملین سری لنکن کی کوئی مدد نہیں کی تو جذباتی و بخاراتی، 
شعلہ بیان، 
تصوراتی ہیروز کی پوجا کرنے والے، نالائقی، سستی اور نااہلی کے مارے 250 ملین سے زائد پاکستانیوں کے لیے بھی کوئی غیبی امداد نہیں آئے گی 

اور۔۔۔۔

 ھم یہ بھی یاد رکھیں کہ *ہم سری لنکا سے صرف پانچ ماہ پیچھے ہیں اور ہم نے اگر ان پانچ ماہ میں خود کو نہ بچایا تو سری لنکا کے بعد ہم اگلی دیوالیہ قوم ہوں گے*

 اور۔۔۔۔

 ہم اگر خدانخواستہ اس گڑھے میں گر گئے تو پھر ہمیں باہر نکلنے کے لیے *پہلی قیمت گوادر اور ایٹمی پروگرام کی شکل میں ادا کرنی پڑے گی*

 اور۔۔۔

 اس کے بعد دوسری، تیسری اور چوتھی قیمتیں بھی موجود ہیں 
لہٰذا سنبھل جائیں، گنجائش نہیں ہے۔

Saturday, May 7, 2022

نواز شریف بطور مافیا اور اسکے ناپاک حربے

ایک دن سینیٹ میں مولانا سمیع الحق نے شریعت بل پر دھواں دھار تقریر کی اور نوازشریف کی حکومت گرانے کی دھمکی دیتے ہوئے آئی جے آئی سے نکلنے کا اعلان کر دیا۔
اگلے دن ملک کے ایک بڑے قومی اخبار کے فرنٹ پیج پر ایک خبر چھپ گئی جس میں اسلام آباد کی رہائشی " میڈم طاہرہ " کا انٹرویو چھپا تھا جو اسلام آباد میں ایک قحبہ خانہ یا عیاشی کا اڈا چلاتی تھی۔
میڈم طاہرہ نے اپنے انٹرویو میں دھانسو قسم کے انکشافات کر ڈالے۔ اس انٹرویو میں میڈم طاہرہ نے ایک طرف بہت سے سیاستدانوں کا نام لئے بغیر انہیں اپنے " مستقل گاہک " قرار دے دیا اور دوسری طرف یہ بھی کہہ دیا کہ مولانا سمیع الحق اس کے مستقل گاہکوں میں سے ایک ہیں اور ' مردانہ قوت ' سے مالا مال ہیں۔
میڈم طاہرہ نے یہ بھی بتایا کہ مولانا سمیع الحق جنسی عمل کے دوران ایک " خاص " پوزیشن پسند کرتے ہیں جس کیلئے اس اخبار نے " سینڈوچ " کی اصطلاح استعمال کی اور بعد میں مولانا کیلئے ' سیمی سینڈوچ ' کا لقب بھی استعمال کرنا شروع کر دیا گیا۔
اس انٹرویو نے پورے ملک میں آگ لگا دی۔
انٹرویو میں تفصیلات کو کچھ ایسے ڈرامائی طریقے سے بیان کیا گیا کہ عام شخص کو لگا کہ یہ سب باتیں درست ہوں گی۔ مولانا سمیع الحق پر چاروں طرف سے یلغار ہونا شروع ہو گئی اور انہیں مجبوراً سینیٹ میں آ کر روتے ہوئے حلف اٹھا کر اپنی بے گناہی کا یقین دلانا پڑا لیکن انگریزی محاورے کے مطابق " نقصان ہو چکا تھا "۔
اگلے کچھ عرصے بعد مولانا نے سینیٹ کی رکنیت سے استعفی دے دیا اور اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ سیاست کو خیر باد کہہ کر مدارس کی مینجمنٹ پر فوکس شروع کر دیا اور یوں نواز شریف پر شریعت بل لانے کا دباؤ ختم ہو گیا۔
وہ میڈم طاہرہ کون تھی، کہاں سے آئی، کہاں گئی، کسی کو پتہ نہ چل سکا۔ اس کے اتنے بڑے انکشاف کے بعد اس کے مبینہ عیاشی کے اڈے کے خلاف کیا کاروائی ہوئی، اس کا بھی کچھ علم نہیں۔
جاننا چاہیں گے کہ میڈم طاہرہ کا انٹرویو کس اخبار میں چھپا تھا ؟ 
یہ عظیم سعادت میر شکیل الرحمان کے اخبار ' دی نیوز ' کو میسر آئی اور جس ٹیم نے اس انٹرویو کا انتظام کیا، اس کی قیادت کامران خان کر رہا تھا۔
مخالفین کی کردار کشی کے زریعے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل نواز شریف کا ایک پرانا حربہ رہا ہے، وہ چاہے بینظیر اور نصرت بھٹو کی جعلی تصاویر ہوں، سمیع الحق کے خلاف میڈم طاہرہ کا انٹرویو ہو، 1997 میں جمائما کے خلاف 397 ٹائلوں کی سمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ ہو یا پھر عائشہ گلالئی کی صورت میں عمران خان پر گندے میسجز بھیجنے کے الزامات ہوں، نواز شریف کا طریقہ واردات ہمیشہ ایک جیسا رہا ہے۔
پتہ نہیں نواز شریف کی تربیت میں کوئی کمی رہ گئی یا اس کی جینز میں ہی ایسی حرکات شامل ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی تو وجہ ہوگی جو اسے انسانیت سے نیچے گرنے پر مجبور کر دیتی ہے!!!
 وسعت اللہ خان 
بی بی سی لندن

‏سائنس نے تیس سالوں میں، فقط اتنی ترقی کی ہے

وہ فوٹو گرایا کرتا تھا یہ ویڈیو پھیلایا کرتی ہے

وہ دور تھا فوٹو شاپوں کا یہ دور ہے ڈیپ فیکوں کا

وہ چہرے لگایا کرتا تھا یہ جسم بدلایا کرتی ہے۔۔

احتیاط اجتناب

*خیال کریں*
*یہ سب ایک ہیں*

قوم کو لڑانے کا چورن بیچنے والوں کے نام 
تم سب ایک ہو 
قوم کو بیوقوف بنا رکھا ہے
اگر جنگ ہے تو اپنے گھر سے شروع کرو 

آپ جانتے ہیں ؟؟؟
 *ایک ہی گھر میں "محب وطن" اسد عمر (PTI) اور "مخالف غدار" زبیر عمر(PMLN) رہتے ہیں *

*ایک ہی گھر میں "محب وطن" پرویز الہی (Q+PTI) اور "مخالف غدار" شجاعت حسین ق لیگ(+PMLN) رہتے ہیں۔*

*ایک ہی گھر میں "محب وطن" گلریز افضل چن (PTI-MPA) اور "مخالف" ندیم افضل چن (PPP) رہتے ہیں۔*
 *ایک ہی گھر میں "محب وطن " سردار شہاب الدین خان سیہڑ (PTI-MPA)*
 *اور ”مخالف غدار “سردار بہادر خان سیہڑ (PPP) رہ سکتے ہیں*
*ایک ہی گھر میں "محب وطن" رؤف حسن فواد ( PTI )اور" مخالف غدار"فواد حسن فواد رہ سکتے ہیں ۔*

 *ا ایک ہی گھر سے تعلق "محب وطن" فرح خان گوگی اور "مخالف غدار " گوگی کے سسر چوہدری اقبال گجرایم پی اے نون لیگ ہو سکتے ہیں*

 *اگر ایک فیملی سے "محب وطن " فواد چوہدری (PTI)اور ”مخالف غدار " انکے کزن نون لیگی ہو سکتے ہیں*

*محب وطن "پرویز خٹک " پی ٹی آئی سے اور انکے بھائی "لیاقت خٹک " نون سے تعلق رکھتے ہوں *
*ایک ہی گھر میں افضل کھوکر پی ایم این ، ظہیر کھوکھر ق لیگ، موجودہ پی ٹی آئی، افضل چن پی پی پی*
 تو .....!! 
عوام کو آپس میں تعلق خراب نہیں کرنا چاہیے
گالم گلوچ سے پرہیز کرنی چاہیے 
بلکہ ان سیاست دانوں کو کہنا چاہیے
 کہ پہلے 
*اپنے گھروں کی دیواریں پر ایک دوسرے کو گالیاں لکھو *
*اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ملکر ایک دوسرے کو چور چور کی آوازیں لگواؤ*
*اور اپنے پسندیدہ سوشل میڈیا پر بھی اپ لوڈ کرو *
اگر
یہ نہیں کر سکتے تو 
 بیوقوف بنانے کی کوشش چھوڑ دو
اب تمہیں ڈرامہ بازی کا حساب دینا ہوگا

Thursday, May 5, 2022

عمران خان کے مشہور جملے پہ ایک پاکستانی شہری کا رد عمل

 🛑 *ہم کیا غلام ہیں* 🛑

عمران خان نیازی نے یہ جملہ اپنا اقتدار بچانے کے لئے قوم یوتھ کے سامنے بولا تھا۔۔۔ مگر اس کی حقیقت کیا ہے ۔۔ آئیے تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہیں ۔۔😊👇

 📛 *ہم غلام نہیں ہیں* مگر جب ٹرمپ کے سامنے عافیہ صدیقی کی بات ہوتو ٹانگیں کانپنے لگتی ہے اور زبان لڑکھڑا جاتی ہے ۔۔۔

 ⛔ *ہم غلام نہیں ہیں* مگر جب فرانس میں سرکاری سطح پر گستاخی ہوتی ہے تو سرکاری سطح پر جواب دینے کے بجائے اپنے ہی ملک کے محافظ ناموس رسالت پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے جاتے ہیں ۔

 ⭕ *ہم غلام نہیں ہیں* مگر جب ہالینڈ کے گستاخ کے خلاف آواز اٹھانے کو کہا جائے تو کہتے ہیں کہ ہم امن پسند ہیں۔۔۔ہم ان ممالک سے اگر تعلق توڑیں گے تو معاشی بدحالی کا شکار ہو جائیں گ 

 🚫 *ہم غلام نہیں ہیں* مگر جب کشمیر کی بات آتی ہے تو کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے کے بجائے الٹا کشمیر کی آزادی کے لئے جہاد کی بات کرنے والوں کو دشمن بتایا جاتا ہے ۔۔۔۔ اور احتجاجا آدھا گھنٹہ روڈوں پر کھڑے ہوکر ہم غلام نہیں ہیں کا ثبوت دیتے ہیں ۔۔۔۔