Tuesday, June 28, 2022

گھڑے کی کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان

کہا جاتا ہے کہ کسی بادشاہ کا گزر اپنی سلطنت کے ایک ایسے علاقے سے ہوا جہاں کے لوگ سیدھا نہر سے ہی پانی لیکر پیتے تھے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ عوام الناس کی سہولت کیلیئے یہاں ایک گھڑا بھر کر رکھ دیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا اور ہر چھوٹا بڑا سہولت کے ساتھ پانی پی سکے گا۔ بادشاہ یہ کہتے ہوئے اپنی باقی کے سفر پر آگے کی طرف بڑھ گیا۔ 
شاہی حکم پر ایک گھڑا خرید کر نہر کے کنارے رکھا جانے لگا تو ایک اہلکار نے مشورہ دیا یہ گھڑا عوامی دولت سے خرید کر شاہی حکم پر یہاں نصب کیا جا رہا ہے۔ ضروری ہے کہ اس کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے اور ایک سنتری کو چوکیداری کیلیئے مقرر کیا جائے۔ 
سنتری کی تعیناتی کا حکم ملنے پر یہ قباحت بھی سامنے آئی کہ گھڑا بھر نے کیلیئے کسی ماشکی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اور ہفتے کے ساتوں دن صرف ایک ماشکی یا ایک سنتری کو نہیں پابند کیا جا سکتا ، بہتر ہوگا کہ سات سنتری اور سات ہی ماشکی ملازم رکھے جائیں تاکہ باری باری کے ساتھ بلا تعطل یہ کام چلتا رہے۔ 
ایک اور محنتی اہلکار نے رائے دی کہ نہر سے گھڑا بھرا ہوا اٹھا کر لانا نہ تو ماشکی کا کام بنتا ہے اور نہ ہی سنتری کا۔ اس محنت طلب کام کیلیئے سات باربردار بھی رکھے جانے چاہیئں جو باری باری روزانہ بھرے ہوئے گھڑے کو احتیاط سے اٹھا کر لائیں اور اچھے طریقے سے ڈھکنا لگا کر بند کر کے رکھیں۔ ۔ 
ایک اور دور اندیش مصاحب نے مشورہ دیا کہ اتنے لوگوں کو رکھ کر کام کو منظم طریقے سے چلانے کیلیئے ان سب اہلکاروں کا حساب کتاب اور تنخواہوں کا نظام چلانے کیلیئے منشی محاسب رکھنے ضروری ہونگے، اکاؤنٹنگ کا ادارہ بنانا ہوگا، اکاؤنٹنٹ متعیین کرنا ہونگے۔ 
ایک اور ذو فہم و فراست اہلکار نے مشورہ دیا کہ یہ اسی صورت میں ہی یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ ہر کام اچھے طریقے سے چل رہا ہے تو ان سارے ماشکیوں، سنتریوں اور باربرداروں سے بہتر طریقے سے کام لینے کیلیئے ایک ذاتی معاملات کا ایک شعبہ قائم کرنا پڑے گا۔ 
ایک اور مشورہ آیا کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے مگر ملازمین کے درمیان میں لڑائی جھگڑا یا کوئی زیادتی ہو جاتی ہے تو ان کا تصفیہ اور ان کے درمیان میں صلح صفائی کون کرائے گا؟ تاکہ کام بلاتعطل چلا رہے، اس لیئے میری رائے میں خلاف ورزی کرنے والوں اور اختلاف کرنے والوں کی تفتیش کے لیے ایک قانونی امور کا محکمہ قائم کیا جانا چاہیے۔
ان سارے محکموں کی انشاء کے بعد ایک صاحب کا یہ مشورہ آیا کہ اس سارے انتظام پر کوئی ہیڈ بھی مقرر ہونا چاہیئے۔ ایک ڈائریکٹر بھی تعیینات کر دیا گیا۔ 
سال کے بعد حسب روایت بادشاہ کا اپنی رعایا کے دورے کے دوران اس مقام سے گزر ہوا تو اس نے دیکھا کہ نہرکے کنارے کئی کنال رقبے پر ایک عظیم الشان عمارت کا وجود آ چکا ہے جس پر لگی ہوئی روشنیاں دور سے نظر آتی ہیں اور عمارت کا دبدبہ آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے۔ عمارت کی پیشانی پر نمایاں کر کے "وزارت انتظامی امور برائے گھڑا " کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ 
بادشاہ اپنے مصاحبین کے ساتھ اندر داخل ہوا تو ایک علیحدہ ہی جہان پایا۔ عمارت میں کئی کمرے، میٹنگ روم اور دفاتر قائم تھے۔ ایک بڑے سے دفتر میں ، آرام کرسی پر عظیم الشان چوبی میز کے پیچھے سرمئی بالوں والا ایک پر وقار معزز شخص بیٹھا ہوا تھا جس کے سامنے تختی پر اس کے القابات "پروفیسر ڈاکٹر دو جنگوں کا فاتح فلان بن فلان ڈائریکٹر جنرل برائے معاملات سرکاری گھڑا" لکھا ہوا تھا۔ 
بادشاہ نے حیرت کے ساتھ اپنے وزیر سے اس عمارت کا سبب پوچھا، اور ساتھ ہی اس عجیب و غریب محکمہ کے بارے میں پوچھا جس کا اس نے اپنی زندگی میں کبھی نام بھی نہیں سنا تھا۔ 
بادشاہ کے وزیر نے جواب دیا: حضور والا، یہ سب کچھ آپ ہی کے حکم پر ہی تو ہوا ہے جو آپ نے پچھلے سال عوام الناس کی فلاح اور آسانی کیلیئے یہاں پر گھڑا نصب کرنے کا حکم دیا تھا۔ 
بادشاہ مزید حیرت کے ساتھ باہر نکل کر اس گھڑے کو دیکھنے گیا جس کو لگانے کا اس نے حکم دیا تھا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ گھڑا نہ صرف خالی اور ٹوٹا ہوا ہے بلکہ اس کے اندر ایک مرا ہوا پرندہ بھی پڑا ہوا ہے۔ گھڑے کے اطراف میں بیشمار لوگ آرام کرتے اور سوئے ہوئے پڑے ہیں اور سامنے ایک بڑا بورڈ لگا ہوا ہے:

"گھڑے کی مرمت اور بحالی کیلیئے اپنے عطیات جمع کرائیں۔ منجانب وزارت انتظامی امور برائے گھڑا۔
الاخبار نیوز گروپ

Sunday, June 26, 2022

شادی

خوش قسمت لوگ تھے جن کی اچھے وقتوں میں شادیاں ہوگئیں اب تو شادی سے پہلے بڑا گھر، بڑی گاڑی، بڑا بینک بیلنس اور پتہ نہیں "کیا کیا" بڑا چاہیے ہوتا ہے اور اگر "محنت" اور وقت لگاکر یہ سب کچھ بڑا کر بھی لو تو تب تک ایک اور چیز بڑی ہوچکی ہوتی ہے اور وہ ہے عمر..... اور سیانے کہتے ہیں بڑی عمر کی شادی اور ٹریکٹر پر لگے گانے کو ہمیشہ دوسرے ہی انجوائے کرتے ہیں. اس لئے کچھ بڑا کرنے کے چکر میں نا پڑیں زندگی میں معمولی stability آتے ہی شادی کریں ورنہ حالات ٹھیک ہونے تک "آلات" ٹھیک نہیں رہیں گے.

Wednesday, June 22, 2022

میرا خیال

یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ اگر اپنی گاڑی پر پاکستان سے حج یا عمرے کا سفر کیا جائے تو اس سفر کے لئے کتنا وقت اور خرچ درکار ہوگا۔
 چچا گوگل کا کہنا ہے کہ لاہور سے مکہ مکرمہ تک ایک طرف کا کل فاصلہ 5300 کلومیٹر ہے، اس اعتبار سے دوطرفہ فاصلہ لگ بھگ گیارہ ہزار کلومیٹر ہوا، مدینہ طیبہ اس سفر میں راستے میں ہی آتا ہے۔ 
اچھی اور آرام دہ کار عام طور پر کم از کم بھی دس کلومیٹر کی ایوریج دیتی ہے، بعض کاریں بارہ پندرہ اٹھارہ کی ایوریج دیتی ہیں، اگر دس کلومیٹر فی لٹر کی ایوریج کا حساب لگایا جائے تو سفر میں کل 1100 لیٹر پیٹرول درکار ہوگا۔ 
پیٹرول اس وقت پاکستان میں 235 روپیہ لیٹر چل رہا ہے، اس حساب سے 1100 لٹر پیٹرول ہوا 258500 روپے کا، یہ ریٹ پاکستان کے حساب سے لگایا گیا ہے جبکہ ایران اور عرب ممالک میں جاکر پیٹرول سستا ہوجاتا ہے، اس حساب سے پیٹرول کا خرچ یقیناً اور کم آئے گا۔ 
باقی رہی بات وقت کی، تو چچا گوگل ہی کے کہنے کے مطابق اس سفر میں ایک طرف کے لیے تقریباً 65 گھنٹے کا وقت درکار ہے، یعنی اگر مسافر روز صرف 12 گھنٹے بھی سفر کریں، باقی وقت آرام کریں تو بھی پانچ دن میں آرام و سکون سے حرم شریف کے دروازے پر پہنچ سکتے ہیں۔
ٹول ٹیکس، کھانا، رہائش، آئل چینج وغیرہ وغیرہ کی مد میں ہم آنے جانے کا دو لاکھ ستر ہزار روپیہ ڈال لیتے ہیں تو اس حساب سے پانچ لاکھ روپے میں کم از کم چار افراد حج کا "سفر" کر سکتے ہیں یعنی تقریبا سوا لاکھ روپیہ فی کس میں۔ اگر گاڑی میں پانچ افراد بیٹھیں یا سیون سیٹر گاڑی لے کر جائیں تو خرچ اس سے بھی کم ہو سکتا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے یہ زمینی راستے کھول دیں میں تو بائیک پر ہی چلا جاؤں گا۔۔۔

عورت کے حقوق

*ایک گاؤں کے چوہدری کے بیٹے کی شادی تھی چوہدری صاحب نے ایک انوکھا فیصلہ کیا کہ پورے گاؤں کو اس شادی کی خوشی میں شامل کیا جائے.*
*اس کے لیے انہوں نے اعلان کروا دیا کہ بیٹے کی شادی کی خوشی میں پنڈ کے ہر گھر کو ایک جانور تحفے میں دیا جائے گا۔*
*مزید یہ کہ جس گھر میں مرد🤴 کا راج ہو گا وہاں ایک گھوڑا 🐎 دیا جائے گا*
*اور جس گھر میں عورت👸 کا راج ہوگا وہاں ایک مرغی🐓 دی جائیگی۔*

*چوہدری صاحب نے اپنے کار خاص گامے کو جانوروں کی ترسیل کا کام سونپ دیا۔*
*پہلے ہی گھر میں گاما دونوں میاں بیوی کو سامنے بٹھا کر پوچھتا ہے کہ گھر کے فیصلے کون کرتا ہے۔۔؟*

*مرد بولا : میں🤴*

*گامے نے جواب دیا کہ جناب سارے گھوڑے کسی نا کسی کے ہو گئے ہیں، اب صرف تین باقی ہیں؛ ایک کالا، ایک سرخ اور ایک چینا۔ جو تمھیں پسند ہے وہ بتا دو؛*
*مرد نے فوراً جواب دیا کہ مجھے چینا پسند ہے۔*

*پاس ہی بیٹھی بیوی نے برا سا منہ بناتے ہوئے اپنے خاوند کو ٹوکا اور اونچی آواز میں بولی۔ نہیں۔۔ نہیں۔۔ ہم کالا لیں گے،*
*میں نے دیکھا ہوا ہے، اس کے ماتھے پہ سفید پھلی ہے، وہ بڑا سوہنا ہے۔*
*مرد نے کہا کہ چلو کالا ہی دے دو👸🤭*

*گاما آرام سے اٹھا،*
*تھیلے سے ایک مرغی نکالی، عورت کو پکڑائی 😆اور اگلے گھر کو چل دیا۔*

*گاما بتاتاہے کہ پورے گاؤں میں مرغیاں ہی تقسیم کیں ..😬.*

*ابھی بھی عورت کو حقوق چاہیں۔*
👍😂😉🤨🤔😂👍

Tuesday, June 21, 2022

تقریری ہیرو اور عملی ہیرو

ہم وہ قوم ہیں جو حقیقت و عمل کی بجائے تقریر و باتوں پر خوش و مطمین ہوتے ہیں
تصویر نمبر 1:
اِس تصویر میں ایک سیلکڈ موٹیویشنل اسپیکر حماد صافی ہیں۔ حماد صافی کے کریڈٹ میں سوائے رٹی رٹائی تقریر کرنے کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ موصوف سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے اور کچھ خاص اتالیق ملے جنہوں نے ان سے ان کا بچپن چھین کر انہیں ایک خاص لائن پر لگا دیا۔ حماد صافی کو ریاست کی مکمل اسپورٹ حاصل ہے اور اسے میڈیا چینلز اور جامعات میں بلایا جاتا ہےان کے کریڈٹ پر انسانیت یا پاکستان کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔
تصویر نمبر 2:
اِس تصویر میں موجود بچہ کم سن پاکستانی لیڈر اقبال مسیح ہے۔ یہ بچہ اپنے بچپن کے اوائل میں ہی قالین بننے والی ایک فیکٹری میں جبری مزدوری کیلئے فروخت ہو گیا۔ریاست نے اس کی بحالی کیلئے کچھ نہیں کیا۔ 
یہ بچہ وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہو گیا تو ریاست کی پولیس نے اسے گرفتار کر کہ دوبارہ قلین ملز مالک سیٹھ حاجی خان کو دے دیا۔ اپنی ذاتی کوششوں سے یہ بچہ دوبارہ بھاگنے میں کامیاب ہوا اور کسی طرح بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ کا حصہ بن گیا۔
محض دس سال کی عمر میں اس بچے نے مُلک بھر سے کئی ہزار سے زائد پاکستانی بچوں کو جبری مشقت سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔اور صرف لاہور شہر میں 3 ہزار سے زائد بچوں کو آزادی دلوائی۔ اس بچے کے نام پر اقوام متحدہ کے لیبر ڈیپارٹمنٹ نے ایک سالانہ ایوارڈ کا اجرا کیا جسے اقبال مسیح ایوارڈ کہتے ہیں۔
بچے کی بغاوت و جدو جہد آزادی سے اتنا خطرہ محسوس کیا گیا کہ محض 12 سال کی عمر میں اسے دن دیہاڑے لاہور بیچ روڈ پر کئی سو گولیوں سے بھون کے رکھ دیا گیا اور اِسکی آواز و نظریہ دبا دیا گیا۔نہ اسے قومی ہیرو قرار دیا گیا، نا آج اسے کوئی جانتا ہے، نہ اس کو کسی کالج /یونیورسٹی میں لیکچر کیلئے بلایا گیا اور نہ ہی اسے تحفظ دیا گیا۔
حاصل کلام: 
ہیرو باتیں کرنے سے نہیں بنا جاتا بلکہ کام سے بنا جاتا ہے۔ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم تقریروں کے مداح ہیں۔یہ ساری بات سونے کا چمچ لیکر پیدا ہونے اور غریب پیدا ہونے کی ہے۔ اس ملک کے گلیوں کوچوں میں کئی معصوم گل خان، پلوشہ بیبیاں، عارفہ کریم اور اقبال مسیح گھوم رہے ہیں جو واقعی قوم کا سرمایہ افتخار ہیں لیکن ہم صرف سرمایہ کی طاقت اور سیاسی، مذہبی چورن کی بنا پر ہر اسکرین پر نظر آنے والوں کو ہیرو سمجھتے ہیں۔ہمارا المیہ ہیکہ کوئی بھی سیاسی و مذہبی باتیں کرنے والا مشہور ہو جائے تو اسے اسلام و پاکستان کا سپہ سالار سمجھ بیٹھتے بلکہ ولی اللہ سمجھنے لگتے اور جو اسے ایک عام سمجھے اسے ہم غدار، گستاخ، کافر یا پھر مغرب کا ایجنٹ سمجھنے لگتے ہیں۔

اِس قوم کے عقل و شعور کا اندازہ لگائیں زرعی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی تقریب میں 12 سال کا لونڈا موٹی ویشنل سپیکر حماد صافی اس قوم کو موٹی ویٹ کر رہا ہے، یہ عقل کل ہے اس قوم کی۔

#copied

Wednesday, June 15, 2022

سوچ کا زاویہ

ایک بادشاہ کے سامنے چار آدمی بیٹھے تھے

1 : اندھا
2 : فقیر
3 : عاشق
4 : عالم

بادشاہ نے ایک مصرعہ کہہ دیا:

"اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں"

اور سب کو حکم دیا کہ اس سے پہلے مصرعہ لگا کر شعر پورا کرو۔

1 : اندھے نے کہا:

"اس میں گویائی نہیں اور مجھ میں بینائی نہیں،
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں"

2 : فقیر نے کہا:

"مانگتے تھے زر مصور جیب میں پائی نہیں،
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں"

3 : عاشق نے تو چھوٹتے ہی کہا:

"ایک سے جب دو ہوئے پھر لطف یکتائی نہیں،
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں"

4 : عالم دین نے تو کمال ہی کردیا:

"بت پرستی دین احمد ﷺ میں کبھی آئی نہیں،
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں"

سوچ کا زاویہ ہر ایک کا جدا ہوتا ہے، ہر کسی کا فکری انداز اسکے مطالعے، مجالست اور تربیت کی مناسبت سے ہوتا ہے. غالبا" یہی جداگانہ انداز فکر قدرت کی نعمت ہے۔

اس لئے جب ہم یہ سوچنے لگ جاتے ہیں کہ یہ شخص غلط نہیں بس اس کا انداز فکر اور زاویہ نظر ہم سے جدا ہے تو بہت سے گلے شکوے اپنے آپ دم توڑ دیتے ہیں ...!منقول

ماحول یا تربیت

وزیر کی جان پہ بنی ہوئی تھی، فقیر بات ہی نئیں سُن رہا تھا ، اۤخر طویل مِنت سماجت کے بعد فقیر نے سر اٹھایا۔ 
ہاں بول کیا کہنا ہے ؟
وزیر نے ہاتھ جوڑے اور بتانا شروع کیا؛
ایک مہینہ پہلے ہمارے بادشاہ سلامت نے اچانک دربار میں ایک سوال اُچھالا کہ کامیاب کردار کے لئے تربیت زیادہ کارآمد ہے یا ماحول؟ میرے ایک ہم منصب وزیر نے جھٹ کہا کہ عالی جاہ ! تربیت جبکہ میں نے اُجلت میں کہا جناب ! ماحول ، ماحول تربیت پر فوقیت رکھتا ہے۔ بادشاہ سلامت نے ہماری طرف رعونت سے دیکھا اور فرمایا تم دونوں کو اپنا اپنا جواب عملی طور پر ثابت کرنا ہو گا، جو ثابت نہ کر سکا اس کا سر قلم کر دیا جائے گا اور اس کے لئے ہمیں ایک ماہ کی مہلت دے دی۔

ہم دونوں اپنے جواب کی عملی تعبیر تلاشنے میں لگ گئے ، میں سوچ سوچ کے پاگل ہونے کے قریب تھا، مگر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ٢۴ دن بعد اچانک میرے ہم منصب وزیر نے میری موت کے پروانے پر دستخط کرتے ہوئے دربار میں اپنے جواب کو عملی طور پر ثابت کرنے کی اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر اس نے دربار میں کھڑے ہو کر تالی بجائی تالی بجتے ہی ایک ایسا منظر سامنے آیا کہ بادشاہ سمیت تمام اہلِ دربار کی سانسیں سینہ میں اٹک گئیں۔ دربار کے ایک دروازے سے دس بِلیاں منہ میں پلیٹیں لئے جن میں جلتی ہوئی موم بتیاں تھیں ایک قطار میں خراماں خراماں چلتی دربار کے دوسرے دروازے سے نکل گئیں، نہ پلیٹیں گریں اور نہ موم بتیاں بجھیں۔ دربار تعریف و توصیف کے نعروں سے گونج اٹھا۔ میرے ہم منصب نے بادشاہ کی طرف دیکھا اور بولا ، حضور ! یہ سب تربیت ہی ہے کہ جس نے جانور تک کو اس درجہ نظم و ضبط کا عادی بنا دیا۔

بادشاہ نے میری جانب دیکھا، مجھے اپنی موت سامنے نظر آ رہی تھی، میں دربار سے نکل آیا۔ تبھی ایک شخص نے آپ کا نام لیا کہ میرے مسئلے کا حل آپ کے پاس ہی ہوسکتا ہے۔ میں دو دن کی مسافت کے بعد یہاں پہنچا ہوں، دی گئی مدت میں سے چار دن باقی ہیں، اب میرا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
فقیر نے سر جھکایا اور آہستہ سے بولا، واپس جاؤ اور بادشاہ سے کہو کہ 30ویں دن تم بھرے دربار میں ماحول کی افادیت ثابت کرو گے ۔
مگر میں تو یہ کبھی نہ کر سکوں گا ۔ وزیر نے لا چارگی سے کہا؛
اۤخری دن مَیں خود دربار میں آؤں گا۔ فقیر نے سر جھکائے ہوئے کہا۔
وزیر مایوسی اور پریشانی کی حالت میں واپس دربار چلا آیا۔

مقررہ مدت کا اۤخری دن تھا دربار کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ وزیر کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ سب کی نظریں بار بار دروازے کی طرف اٹھتی تھیں کہ اچانک ایک مفلوک الحال سا شخص اپنا مختصر سامان کا تھیلا اٹھائے دربار میں داخل ہوا۔ بادشاہ کی طرف دیکھا اور بولا ، وقت کم ہے میں نے واپس جانا ہے۔ اس وزیر سے کہو تربیت کی افادیت کا ثبوت دوبارہ پیش کرے۔ تھوڑی دیر بعد ہی دوسرے وزیر نے تالی بجائی اور دوبارہ وہی منظر پلٹا۔ دربار کے دروازہ سے دس بلیاں اسی کیفیت میں چلتی ہوئی سامنے والے دروازے کی طرف بڑھنے لگیں۔ سارا مجمع سانس روکے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ وزیر نے امید بھری نگاہوں سے فقیر کی طرف دیکھا۔ جب بلیاں عین دربار کے درمیان پہنچیں تو فقیر آگے بڑھا اور ان کے درمیان جا کے اپنا تھیلا اُلٹ دیا۔ تھیلے میں سے موٹے تازے چوہے نکلے اور دربار میں ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ بلیوں کی نظر جیسے ہی چوہوں پر پڑی انہوں نے منہ کھول دیئے، پلیٹیں اور موم بتیاں دربار میں بکھر گئیں۔ ہر طرف بھگدڑ مچ گئی بلیاں چوہوں کے پیچھے لوگوں کی جھولیوں میں گھسنے لگیں۔ لوگ کرسیوں پر اچھلنے لگے دربار کا سارا نظام درہم برہم ہو گیا۔

فقیر نے بادشاہ کی طرف دیکھا بولا؛ آپ کسی جنس کی جیسی بھی اچھی تربیت کر لیں، اگر اس کے ساتھ اسے اچھا ماحول فراہم نہیں کریں گے تو تربیت کہیں نہ کہیں اپنا اثر کھو دے گی ۔ کامیاب کردار کے لئے تربیت کے ساتھ ساتھ بہتر ماحول بے حد ضروری ہے۔
 اس سے پہلے کہ بادشاہ اسے روکتا فقیر دربار کے دروازے سے نکل گیا تھا۔

ہمارے ہاں ساری ذمہ داری استاد کی تربیت پر ڈال دی جاتی ہے، گھر وں کا کیا ماحول ہے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ....
🔰WJS🔰

بابو صاحب (عوام) اور اجنبی (حکومت)

ﮐﻨﮉﯾﮑﭩﺮ ﮐﻮ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﺎﺋﯿﮉ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮨﺎتھ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﻟﮕﮯ
ﺗﻮ ﺳﺎتھ ﺑﯿﭩﮭﮯﺍﺟﻨﺒﯽ ﻧﮯ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﭘﮑﮍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ
"ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺎﺑﻮ ﺻﺎﺣﺐ ! ﺁﭘﮑﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ."

ﺑﺎﺑﻮ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺧﻮﺩ ﺩﮮ ﮔﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺑﮩﺖ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮑﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﮐﻨﮉﯾﮑﭩﺮ ﮐﻮ ﺩﮮﺩﯾﺎ...

ﺍﮔﻠﮯ ﺳﭩﺎﭖ ﭘﺮ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺑﺲ ﺳﮯ ﺍُﺗﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺑﻮ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺟﯿﺐ ﺳﮯﻧﮑﺎﻟﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﺳﺮ ﺗﮭﺎﻡ ﮐﺮ بیٹھ ﮔﯿﺎ,ﺍُﺱ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺟﯿﺐ کا ﺻﻔﺎﯾﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ.... 

ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﺑﺎﺑﻮ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﭼﻮﺭ ﮐﻮ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍﺍ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭼﻮﺭ ﺑﺎﺑﻮ ﮐﻮ ﮔﻠﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﺮﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﺎ."

ﺑﺎﺑﻮ ﺻﺎﺣﺐ ! ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﻭ ﺗﻢ ﺳﮯﭼﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﻣﺮﮔﺌﯽ"

ﺑﺎﺑﻮ ﻧﮯ ﻧﺮﻡ ﺩﻟﯽ ﮐﮯﺳﺎﺗﮫ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺩﯾﺎ...

ﭼﻮﺭ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﻠﮯ ﻣﻠﺘﮯﻭﻗﺖ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﺎﺑﻮ ﮐﯽ ﺟﯿﺐ ﮐﺎ ﺻﻔﺎﯾﺎﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ،،...

ﭼﻨﺪ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﺑﺎﺑﻮ ﺻﺎﺣﺐ
ﻣﻮﭨﺮﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﮐﮩﯿﮟﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺭﺍﺳﺘﮯﻣﯿﮟ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﺍُﺱ ﭼﻮﺭ
ﻧﮯ ﺭﻭﮐﺎ....

ﭼﻮﺭ ﻧﮯ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﺑﻮ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﻣﺎﻧﮕﯽ,ﺑﺎﺑﻮ ﮐﻮ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﭘﯿﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﭨﺎ ﺩﯾﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﺱ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ کولڈ ڈرِنک ﭘِﻼﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ.....

ﺑﺎﺑﻮ ﺧﻮﺷﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﺟﺐ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻮﭨﺮﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﮕﮧ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍِﺱ ﺑﺎﺭ ﭼﻮﺭ ﺍُﺳﮑﯽ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ...
😜😝😜😆😆😄😄

ﺳﺒﻖ:
75 سال سے یہیﺣﺎﻝ ہِماری ﻋﻮﺍﻡ ﺍﻭﺭ حکمرانوں ﮐﺎ ﮨﮯ, احمق ﻋﻮﺍﻡ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺍُﻥ ﭘﺮ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺣُﮑﻤﺮﺍﻥ ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﻧﺌﮯ نئے ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﻟُﻮﭨﺘﮯ ﮨﯿﮟ...!!!

لیکن احمق ھیں کہ عقل کے اندھے ھیں....!!!!

سعودی عرب/ مکہ مکرمہ کے بارے حیران کن معلومات

سعودی عرب/مکہ مکرمہ کے بارے میں حیران کن معلومات 
1-: یہاں پانی مہنگا اور تیل سستا هے۔۔۔
2-: یہاں کے راستوں کی معلومات مردوں سے زیادہ عورتوں کو ہے اور یہاں پر مکمل خریداری عورتیں ھی کرتی هیں مگر پردے میں رہ کر۔۔۔
3-: یہاں کی آبادی 4 کروڑ هے اور کاریں 9 کروڑ سے بھی زیادہ هیں۔۔۔
4-: مکہ شہر کا کوڑا شہر سے 70km دور پہاڑیوں میں دبایا جاتا هے۔۔۔
5-: یہاں کا زم زم پورے سال اور پوری دنیا میں جاتا هے اور یہاں بھی پورے مکہ اور پورے سعودیہ میں استعمال ھوتا هے، اور الحمدلله آج تک کبھی کم نہیں ھوا۔۔۔
6-: صرف مکہ میں ایک دن میں 3 لاکھ مرغ کی کھپت ھوتی ھے۔۔۔
7-: مکہ کے اندر کبھی باھمی جھگڑا نہیں ھوتا هے۔۔۔
8- سعودیہ میں تقریبا 30 لاکھ بھارتی، 18 لاکھ پاکستانی، 16 لاکھ بنگلہ دیشی، 4 لاکھ مصری، 1 لاکھ یمنی اور 3 ملین دیگر ممالک کے لوگ کام کرتے هیں، 
سوچو اللہ یہاں سے کتنے لوگوں کے گھر چلا رھا هے۔۔۔
9-: صرف مکہ میں 70 لاکھ AC استعمال ھوتے ھیں۔۔۔
10-: یہاں کھجور کے سوا کوئی فصل نہیں نکلتی پھر بھی دنیا کی ھر چیز، پھل، سبزی وغیرہ ملتی هے اور بے موسم یہاں پر بِکتی هے۔۔۔
11-: یہاں مکہ میں 200 کوالٹی کی کھجور بِکتی هے اور ایک ایسی کھجور بھی هے جس میں ھڈی یا ھڑکِل (گِڑک) ھی نہیں۔۔۔
12: مکہ کے اندر کوئی بھی چیز لوکل یا ڈپلیکیٹ نہیں بکتی یہاں تک کے دوائی بھی۔۔۔
13-: پورے سعودی عرب میں کوئی دریا یا تالاب نہیں هے پھر بھی یہاں پانی کی کوئی کمی نہیں هے۔۔۔
14-: مکہ میں کوئی پاور لائن باھر نہیں تمام زمین کے اندر ھی هے۔۔۔
15-: پورے مکہ میں کوئی نالہ یا نالی نہیں هے۔۔۔
16-: دنیا کا بہترین کپڑا یہاں بِکتا هے۔ جبکہ بَنتا نہیں۔۔۔
17: یہاں کی حکومت ھر پڑھنے والے بچے کو 600 سے 800 ریال ماھانہ وظیفہ دیتی هے۔۔۔
18-: یہاں دھوکا نام کی کوئی چیز ھی نہیں۔۔۔
19-: یہاں ترقیاتی کام کے لئے جو پیسہ حکومت سے ملتا هے وہ پورا کا پورا خرچ کیا جاتا هے۔۔۔
20: یہاں سرسوں کے تیل کی کوئی اوقات نہیں، پر بِکتا تو هے، یہاں سورج مُکھی اور مکئی کا تیل کھایا جاتا هے۔۔۔
21-: یہاں هريالی نہیں یعنی درخت پودے نہ ھونے کے برابر ھیں، پہاڑ خشک اور سیاہ ھیں مگر سانس لینے میں کوئی تکلیف ھی نہیں، یہاں یہ سائنسی ریسرچ فیل هے۔۔۔
22-: یہاں ھر چیز باھر سے منگائی جاتی هے پھر بھی مہنگائی نہیں ھوتی۔۔۔

آبِ زم زم کا سراغ لگانے والوں کو منہ کی کھانی پڑی

 مزید نئے روشن پہلوؤں کے انکشافات سامنے آ گئے۔۔۔

 تفصیلات کے مطابق آبِ زم زم اور اس کے کنویں کی پُر اسراریت پر تحقیق کرنے والے عالمی ادارے اس کی قدرتی ٹیکنالوجی کی تہہ تک پہنچنے میں ناکام ھو کر رہ گئے۔
عالمی تحقیقی ادارے کئی دھائیوں سے اس بات کا کھوج لگانے میں مصروف ھیں۔۔۔

کہ آب زم زم میں پائے جانے والے خواص کی کیا وجوھات ھیں۔۔۔

اور *ایک منٹ میں 720 لیٹر*
 جبکہ *ایک گھنٹے میں43 ھزار 2 سو لیٹر*
 پانی فراھم کرنے والے اس کنویں میں پانی کہاں سے آ رھا ھے۔۔۔

جبکہ مکہ شہر کی زمین میں سینکڑوں فٹ گہرائی کے باوجود پانی موجود نہیں ھے۔۔۔

جاپانی تحقیقاتی ادارے ھیڈو انسٹیٹیوٹ نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں کہا ھے کہ 

 *آب زم زم ایک قطرہ پانی میں شامل ھو جائے تو اس کے خواص بھی وھی ھو جاتے ھیں جو آب زم زم کے ھیں*
 جبکہ زم زم کے ایک قطرے کا بلور دنیا کے کسی بھی خطے کے پانی میں پائے جانے والے بلور سے مشابہت نہیں رکھتا۔۔۔

ایک اور انکشاف یہ بھی سامنے آیا ھے کہ ری سائیکلنگ سے بھی زم زم کے خواص میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔۔۔

 آب زم زم میں معدنیات کے تناسب کا ملی گرام فی لیٹر جائزہ لینے سے پتا چلتا ھے۔ 
کہ اس میں 
 *سوڈیم 133،* 
 *کیلشیم 96،* 
*پوٹاشیم 43.3،*  
*بائی کاربونیٹ 195.4،* 
*کلورائیڈ 163.3،* 
 *فلورائیڈ 0.72،*  
*نائیٹریٹ 124.8،*
 اور 
*سلفیٹ 124ملی گرام فی لیٹر موجود ھے۔۔۔* 

آب زم زم کے کنویں کی مکمل گہرائی 99 فٹ ھے۔۔۔

 اور اس کے چشموں سے کنویں کی تہہ تک کا فاصلہ 17 میٹر ھے۔۔۔
واضح رھے کہ دنیا کے تقریباً تمام کنوؤں میں کائی کا جم جانا، انواع و اقسام کی جڑی بوٹیوں اور خود رَو پودوں کا اُگ آنا نباتاتی اور حیاتیاتی افزائش یا مختلف اقسام کے حشرات کا پیدا ھو جانا ایک عام سی بات ھے جس سے پانی کا رنگ اور ذائقہ بدل جاتا ھے۔۔۔

 اللہ کا کرشمہ ھے کہ اس کنویں میں نہ کائی جمتی ھے، نہ نباتاتی و حیاتیاتی افزائش ھوتی ھے، نہ رنگ تبدیل ھوتا ھے، نہ ذائقہ۔۔۔
🌹🌹🌹

شانِ عثمان غنی رضی اللہ عنہ

ایک حاجت مند حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کے دروازے پر غروبِ آفتاب کے بعد آیا۔ ابھی اس نے دستک نہ دی تھی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
وہ اپنی اہلیہ سے شکایت کر رہے تھے کہ ’’چراغ کی بتی موٹی ہے جو تیل زیادہ استعمال کرنے کا سبب بن رہی ہے۔‘‘ حاجت مند نے جو سنا تو وہ سوچتا ہی رہ گیا کہ وہ ایسے شخص سے حاجت براری کی کیا توقع کرے جو تیل کے معمول سے زیادہ خرچ پر اپنی بیوی کو سرزنش کر رہا ہے۔ اس نے ارادہ کیا کہ حاجت بیان کر دیکھوں، شاید میری کچھ امداد کر ہی دیں۔ دستک سن کر حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ باہر آئے۔ حاجت مند نے اپنی حاجت بیان کی اور لہجے میں زیادہ زور دیتے ہوئے کہا کہ ضرورت کچھ زیادہ ہی ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ نے اس شخص کا ہاتھ تھاما، بستی سے باہر لے گئے۔ جہاں آپ کا سامانِ تجارت بڑی تعداد میں رکھا ہوا تھا فرمایا، یہ سب تیری نذر ہے۔ کیا اس سے تمہاری ضرورت پوری ہو جائے گی؟ وہ شخص حیران، ہکا بکا دیکھتا رہ گیا۔ چنانچہ اس نے عرض کیا، حضرت یہ سب کچھ میری ضرورت سے زیادہ ہے۔ امیر المومنین نے فرمایا، مجھے خوشی ہے کہ یہ تمہاری ضرورت سے کم نہیں۔ اس شخص نے کہا، اے حضرت! ایک بات بتائیے، چراغ کی بتی قدرے موٹی ہو جانے پر آپ اپنی زوجہ محترمہ کو سرزنش کر رہے تھے۔ حالانکہ چراغ اس قدر روشنی رکھنے میں شاید صرف ایک درہم کا تیل بھی استعمال نہ ہوتا، وہ تو آپ کو گوارہ نہ ہوا، اوریہاں ہزاروں کا سامان مجھے بلا تامل دے رہے ہیں؟ تب آپ نے فرمایا، بھائی چراغ میں تیل کا زیادہ اسراف ہے اور زیادہ اسراف اللّٰہ کو پسند نہیں اور مجھے اللّٰہ کے حضور اپنے اعمال کی فکر رہتی ہے۔ یہاں مجھے فکرِ اعمال لاحق ہے، اس لئے میں نے سرزنش کی۔ سامان تمہیں اللّٰہ کی خوشنودی کے لئے صدقہ دیا ہے۔ اس پر اَجر کی امید ہے اور وہاں پر حساب کا خوف ہے ۔
🔰WJS🔰