Sunday, August 28, 2022

موبائل فون فیس بُک اور بیوی کا بڑھاپا



از قلم::: جنید احمد چنہ حیدرآباد 

میں کب سے اپنے شوہر کو موبائل استعمال کرتے ہوئے دیکھ رہی ہوں.
 میں جانتی ہوں کہ اس وقت نہ تو کسی خاتون سے بات کر رہے ہیں نہ ہی کسی اس قسم کی سرگرمی میں مصروف ہیں. 
وہ ایک گیم کھیل رہے ہیں اور فیس بک پر مختلف ویڈیوز دیکھ رہے ہیں. میں ان سے بات کرنا چاہتی ہوں. 
لیکن وہ میری طرف متوجہ نہیں ہیں. میں بار بار ان کو بلاتی ہوں کبھی ان کے پاس جا کر بیٹھ جاتی ہوں کبھی انہیں متوجہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن شاید ویڈیوز بہت دلچسپ ہیں وہ میری طرف نہیں دیکھتے. کچھ دیر بعد وہ مجھ سے لائٹ بجھانے کا کہہ دیں گے کیونکہ انہیں نیند آرہی ہوگی. 

کچھ عرصے بعد..

میں اب اپنے شوہر کے رویے کی عادی ہوچکی ہوں. میں جانتی ہوں کہ انہیں کسی بھی موضوع پر گفتگو کرنا پسند نہیں وہ ایک اچھے شوہر ہیں نرمی سے بات کرتے ہیں ساری ضرورتیں پوری کرتے ہیں لیکن وہ صرف ایک شوہر بننا پسند کرتے ہیں انہیں دوست نہیں بننا آتا. میں نے اب ان کی توجہ لینے کی کوشش چھوڑ دی ہے.
مزید کچھ عرصے کے بعد.

میرا ایک بیٹا ہے دن بہت مصروف گزرتا ہے اور رات بھی بیٹے کے نخروں میں گزر جاتی ہے نہ ٹھیک سے نیند پوری ہوتی ہے نہ کوئی ترو تازگی ہے. میرے شوہر اکثر اس بات پہ چڑ جاتے ہیں کہ میں پہلے جیسی ترو تازہ و شگفتہ کیوں نہیں رہی. لیکن میں اب ایک ماں ہوں اور ویسے بھی میں جانتی ہوں اگر میں بناؤ سنگھار کر کے بیٹھ بھی جایا کروں تو سوائے چند لمحات کی قربت کے مجھے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا کیونکہ فیس بک کی ویڈیوز اور سکرولنگ مجھ سے زیادہ دلچسپ ہیں.

بڑھاپا

بیٹے کی شادی ہوچکی ہے میں اور میرے شوہر دونوں ہی ضعیف ہوچکے ہیں. نظر گھٹ چکی ہے ہاتھوں پاؤں میں رعشہ اتر آیا ہے موبائل کی لائٹ اب میرے شوہر کی آنکھوں میں چبھتی ہے اس لیے وہ اب فون استعمال نہیں کرتے. میرے چھوٹے چھوٹے پوتے پوتیاں ہیں جنہیں دیکھ دیکھ کر میرا جی لگا رہتا ہے میں ان سے روز ڈھیروں چھوٹی چھوٹی باتیں کرتی ہوں میرے شوہر سارا دن صحن میں عینک لگائے اخبار پڑھتے ہیں اور ہر خبر پر مجھ سے رائے مانگتے ہیں مگر مجھے اخبار کی خبروں سے زیادہ اپنے پوتے پوتیوں کی باتوں میں دلچسپی ہے میرے شوہر اس بات پر ایک اچٹتی نظر مجھ پہ ڈال کر خاموش ہوجاتے ہیں. رات کی نیند اب گھٹ چکی ہے اکثر رات کو اب وہ مجھے آواز دیتے ہیں قدسیہ بیگم سوگئ ہیں کیا بھئ مجھے تو نیند نہیں آ رہی کوئی بات ہی سنا دیں. مگر اب مجھے بات کرنا نہیں آتا

Thursday, August 25, 2022

پاکستان میں سیلاب کی وجوہات اور تدارک!!

کہانی نئی نہیں بہت پرانی ہے۔ ایک ملک ہے جسکو قدرت نے بہت سے دریا دیے ہیں مگر ہے یہ ملک بے قدروں کے ہاتھ میں۔ زراعت سے وابستہ یہ ملک ہر سال مون سون کی بارشوں یا معمول سے زیادہ کی برسات سے ڈوبا رہتا ہے۔ جس طرح دہشتگردی کی عفریت کچھ عرصہ قبل اتنی بڑھ گئی تھی کہ لاشیں دیکھ کر ہلکی سی آہ کے سوا کچھ نہ نکلتا ویسے ہی اب ہر سال سیلاب میں لُٹے لوگ دیکھ کر یہی ہوتا ہے۔ بستیوں کی بستیاں اُجڑ جاتی ہیں۔ مال مویشی، ڈھور ڈنگر سب ڈوب جاتے ہیں۔ بچ جاتے ہیں تو کچھ چلتی پھرتی لاشیں جو اتنی بھی سکت نہیں رکھتیں کہ پوچھ سکیں کہ بھائی کونسے جرم کی سزا ہے کہ ہر سال پانی بہتا پہاڑوں سے ہے مگر رستا ہماری آنکھوں سے ہے۔

پاکستان میں کم و بیش ہر سال سیلاب آتے ہیں۔ 2010 کے سیلاب میں ملک کا پانچواں حصہ ڈوب گیا۔ دو کروڑ سے زائد لوگ متاثر ہوئے مگر کوئی تاریخ سے نہ سیکھا۔  

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال اوسطاً 7 لاکھ سے زائد افراد سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں جس سے معیشت کو 3 ارب ڈالر سے بھی زیادہ کا نقصان ہوتا ہے۔ سیلاب متاثرین کی یہ تعداد 2030 تک سالانہ 30 لاکھ تک پہنچ سکتی یے۔ گوبل وارمنگ کے باعث گلیشیرز سے برف پگھلنے کی رفتار غیر معمولی ہو گئی یے جو سیلاب کی شدت کو ہر سال بڑھاوے دے رہا ہے۔ 

مگر سیلاب سے تباہی کوئی نوشتہ دیوار نہیں ۔ عقل اور بہتر منصوبہ بندی سے فطرت کے منہ زور گھوڑے کو لگام دی جا سکتی ہے۔ غریبوں کو قدرت کے آگے بے بس ہونے کی گولیاں چٹا کر کب تک انسانی نااہلی چھپائی جا سکتی ہے؟

جنگلات کے تحفظ ، شجرکاری اور دیگر قدرتی وسائل کو بروئے کار لا کر سیلاب سے ہونے والی تباہی کو روکا جا سکتا ہے۔ جدید مواصلاتی نظام اور بروقت خطرے کی پیشنگوئی کے نظام یعنی Early Warning Systems کو بہتر بنا کر اموات اور املاک کے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔

آج مہذب دنیا میں جدید سائنسی طریقوں، خلا سے کی گئے زمینی سروے اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے سیلاب میں تباہیوں کو ممکنا حد تک کم اور روکا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ زیادہ مہنگا نہیں بنسبت اُس نقصان کے جو ہر سال معیشت کو لاحق ہوتا ہے۔ مگر ضرورت عوامی سطح پر اپنا حق مانگنا اور سیاسی ارادوں پر منحصر ہے۔ 

پاکستان سب سے بڑے دریا دریائے سندھ کے بیسن کی آدھی زمین زراعت، نئی آبادیوں اور لینڈ مافیا کے زیر اثر ہے مگر پھر بھی بہتر منصوبہ بندی سے کافی زمین ہے جہاں سیلاب کے پانی کی نکاسی کی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے 2012 کی رامسر ایڈوائزری مشن کی رپورٹ کے مطابق بہاولپور میں لال سہانرا نیشنل پارک اور سندھ میں سکھر اور گڈو بیراج کے علاقے تجویز کیے گئے۔ 

سیلاب سے آنے والی ہر سال کی تباہی میں ایک اور مسئلہ سیاسی بھی ہے۔ وہ لوگ جنکے پاس زمینیں نہیں ہوتیں بے، سیاستدان اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے انہیں جان بوجھ کر اُنہی علاقوں میں زمینیں الاٹ کراتے ہیں جہاں سیلاب کا خطرہ زیادہ ہو، وہاں انہیں کچھ بنیادی سہولیات مہیا کر دی جاتی ہیں۔ غریب بھلا کیا پوچھے کہ اسے تو روٹی سے مطلب ۔ لہذا ہر سال سیلاب سے وہی لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں، انہیں بار بار منتقل کیا جاتا ہے اور یوں جب وہ دوبارہ اپنی الاٹ شدہ زمینوں پر آتے ہیں تو زیادہ آبادی لیکر ۔ یہ ایک طرح سے انسانی نسلوں کے ساتھ کھیلنا ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ 

پاکستان میں سیلاب سے تدارک کے حوالے سے چائنہ کی تاریخ سے سیکھا جا سکتا ہے۔ چین کا تیسرا بڑا دریا، دریائے ینگتزی 6300 کلومیٹر لمبا ہے اور یہ چین کے 19 صوبوں سے گزرتا ہے۔ اس دریا سے چین میں کئی سیلاب آئے جس سے ماضی میں بہت تباہی ہوئی مگر سب سے بڑا سیلاب 1998 میں آیا جس میں 4 ہزار سے زائد لوگ مرے اور معیشت کو 25 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس سیلاب کے بعد چین نے سبق سیکھا اور بہتر منصوبہ بندی سے آئندہ کے لیے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا۔ اُنکی پالیسی کا محور تھا: 
"فطرت سے لڑنا نہیں بلکہ اسکے ساتھ ملکر کام کرنا ہے"-
اس پالیسی کے تحت جنگلات میں اضافے، انکے کٹاؤ میں کمی،مرطوب زمینی علاقوں میں اضافہ اور آبی ذخائر کو بہتر بنایا گیا۔ 

مگر سب سے اہم فیصلہ ایک مرکزی مینیجمینٹ اتھارٹی کا قیام تھا جو دریا سے متعلق تمام امور کو دیکھتی جس میں ماحولیاتی ، معاشی اور معاشرتی امور سب شامل تھے۔

سیلاب کے حوالے سے مملکتِ خداداد میں سنجیدگی کا حال یہ ہے کہ یہاں اس وقت چوتھا نیشنل فلڈ پروٹیکشن پلان چل رہا ہے جسے 2013 میں تجویز کیا گیا اور اسے 2015 سے 2025 تک چلنا تھا۔ مگر سرخ فیتوں اور سیاسی ملاکھڑوں کے باعث اس اس پلان کے لئے رقم 2018 میں منظور ہوئی جو تقریباً 332 ارب روپے ہے۔ اس میں سے تقریباً 291 ارب روپے انفراسٹرکچر میں بہتری اور باقی 41 ارب روپے دیگر امور جیسے کہ بہتر وارننگ سسٹم کے قیام پر خرچ کی جائے گی۔ اس منصوبے کے دو مراحل ہیں۔ جن میں سے پہلے مرحلے پر "تیزی" سے کام جاری ہے۔ جسکا ثبوت آئے روز خبروں کی زینت بنتا ہے۔  

اسکے علاوہ پاکستان میں River Act بھی پاس ہو چکا ہے جسکے تحت دریا اور اسکے کے پاس کی زمین پر ناجائز اور غیر قانونی تجاوزات اور آبادیوں کو کو روکنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ دار ہے مگر حال یہ ہے کہ پاکستان کے تمام دریاؤں کے پاس غیر قانونی تجاوزات متعلقہ حکومتی اداروں کا منہ چڑا رہی ہیں۔

فطرت توازن کا نام یے۔ عقل و شعور یہ کہتا ہے کہ قدرت سے لڑا نہیں جا سکتا بلکہ اسے استعمال کر کے انسانی زندگیوں کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ نسلوں کی تباہی وقتی فوائد کے لیے چہ معنی!! 

ڈاکٹر حفیظ الحسن

Tuesday, August 23, 2022

بھیڑیا ایک آزاد جانور

ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ کا ﻏﻼﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﺎ، ﺟﺒﮑﮧ ﺷﯿﺮ ﺳﻤﯿﺖ ﮨﺮ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﻮ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ. ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣُﺮﺩﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ یہی ﺟﻨﮕﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ہے ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ہی ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﺤﺮﻡ ﻣﺆﻧﺚ ﭘﺮ ﺟﮭﺎﻧﮑﺘﺎ ہے ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﺳﮯ بلکل ﻣﺨﺘﻠﻒ، ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﻦ ﮐﻮ ﺷﮩﻮﺕ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮏ نہیں. ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﯾﮏ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭ ہوتا ہے ﮐﮧ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺆﻧﺚ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﻗﺎﺋﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ. ﺍِﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﺆﻧﺚ بھیڑیا بھی اتنی ہی ﻭﻓﺎﺩﺍﺭ ہوﺗﯽ ہے. ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻧﺘﺎ ہے ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﭖ ﺍﯾﮏ ہی ہوتے ہیں. ﺟﻮﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﺗﯿﻦ ﻣﺎﮦ ﮐﮭﮍﺍ بطورِ ماتم ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﺎ ہے. ﺑﮭﯿﮍیئے ﮐﻮ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ "ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺒﺎﺭ" ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ہے، ﯾﻌﻨﯽ 'ﻧﯿﮏ ﺑﯿﭩﺎ' اس لئے ﮐﮧ جب اُس کے ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺑﻮﮌﮬﮯ ہوﺟﺎﺗﮯ ہیں ﺗﻮ یہ ﺍُﻥ ﮐﮯﻟﺌﮯ ﺷﮑﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ہے ﺍﻭﺭ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ہے. ﺑﮭﯿﮍیئے ﮐﯽ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺻﻔﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎﺩﺭﯼ، ﻭﻓﺎﺩﺍﺭﯼ، ﺧﻮﺩﺩﺍﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﮯ حُسنِ ﺳﻠﻮﮎ مشہور ہیں. ﺑﮭﯿﮍیئے ﺟﺐ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﮕﮧ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ کارواں ﻣﯿﮟ کچھ یوں ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ؛ (1) ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ. (2) ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺎﻧﭻ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺟﻮ ﺑﻮﮌﮬﮯ، ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺑﮭﯿﮍﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ بطورِ ابتدائی طبی امداد ‏(ﻓﺮﺳﭧ ﺍﯾﮉ) ﺗﻌﺎﻭﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮﺗﮯ ہیں. (3) ﺍُﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ، ﺩﺷﻤﻦ ﮐﮯ ﺣﻤﻠﮯ ﮐﺎ ﺩﻓﺎﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ (ہنگامی دستہ) ﭼﺎﮎ ﻭ ﭼﻮﺑﻨﺪ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮨﻮﺗﮯ ہیں. (4) ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ ﻋﺎﻡ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮨﻮﺗﮯ ہیں. (5) ﺳﺐ سے ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﮍﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺴﺘﻌﺪ ﻗﺎﺋﺪ ﮨﻮﺗﺎ ہے ﺟﻮ ﺳﺐ ﮐﯽ ﻧﮕﺮﺍﻧﯽ ﮐﺮﺭہا ﮨﻮﺗﺎ ہے ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍپنے فرائض ﺳﮯ ﻏﺎﻓﻞ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ہر ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ہے ﺍِﺱ ﮐﻮ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ‏"ﺍﻟﻒ" ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮐﯿﻼ 'ہزﺍﺭ' ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺗﺮﮎ اﻭر ﻣﻨﮕﻮﻝ ﺍِﺱ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺗﺮﮎ ﻭ ﻣﻨﮕﻮﻝ ﮐﺎ 'ﻗﻮﻣﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ' بھی ﮨﮯ !!!

Sunday, August 21, 2022

امی کی پسند

یں چار سال کے بعد واپس اپنے وطن لوٹ رہا تھا ۔۔۔۔ پچھلے چار سال سے میں دبئی میں جاب کر رہا تھا اور اب میرا کنٹریکٹ ختم ہو چکا تھا اور میں بس وطن واپسی کی تیاریاں کر رہا تھا ۔۔۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی میں گھر والوں کے لئے شاپنگ کر کے کمرے میں آیا تھا ۔۔۔پچھلے چار سالوں میں جاب کے علاوہ کچھ چھوٹے موٹے کام کر کے میں نے کچھ پیسے آج کے دن کے لئے ہی جوڑ رکھے تھے کہ جب وطن واپسی جاؤں گا تو گھر والوں کے لئے تحائف لیتا جاؤں گا ۔۔۔۔چھوٹے بھائی کو مہنگے موبائل رکھنے کا بہت شوق تھا سو اس کے لئے ایک آئی فون لیا تھا .چھوٹی بہن بہت عرصے سے ٹیبلیٹ کی فرمائش کر رہی تھی اس کے لئے ایک اچھا سا ٹیبلیٹ لیادوسری دو بہنوں کے لئے خوبصورت سی گھڑیاں اور کپڑوں کے کچھ جوڑے لئے ابو کے لئے ایک سمارٹ فون اور چند قیمتی پرفیوم لئےلیکن جب امی کے لئے تحفہ لینے کی باری آئی تو میں سوچ میں پڑ گیا کہ امی کو کیا پسند ہے ؟؟اتنے سالوں میں کبھی امی کو مہنگے کپڑے پہنے نہیں دیکھا ، گھڑی کا تو شوق ہی نہیں رکھتی امی چوڑیاں ، بالیاں یا انگوٹھی وغیرہ ان سب سے تو جیسے چڑ سی تھی امی کو ۔۔۔جب کبھی جاتیں بازار تو بہنوں کے لئے تو لے لیتیں لیکن اپنی باری آنے پر ہمیشہ یہی کہتیں کہ میں نے کیا کرنا ہے پہن کر مجھے یہ سب چونچلا پن لگتا ہے بھئی۔۔۔۔ تم ہی پہنو یہ سب میں تو اس سب کے بغیر ہی اچھی ۔۔۔ یہی حال کپڑوں کا تھا ایک بار کوئی ایک آدھا جوڑا لے لیتیں تو بس پھر اگلا کچھ عرصہ یہی سننے کو ملتا کہ ابھی تو لئے ہیں میں نے اتنے ’’ڈھیر کپڑے ‘‘تم ہی لو اپنے لئے میرے پاس تو پہلے ہی ’’بہت ‘‘ ہیں ۔۔۔۔میں سوچ سوچ کر تھک گیا لیکن امی کی کوئی ایسی بات ذہن میں نا آ سکی کہ جس سے ان کی پسند کا کچھ پتا لگتا ۔۔۔۔ میں ابھی اسی سوچ میں تھا کہ امی کے لئے کیا لوں کہ گھر سے کال آ گئی ۔۔۔۔ چھوٹی بہن نے فون کیا تھا ۔۔۔ چھٹتے ہی کہنے لگی کہ بھائی آپ اتنے عرصے بعد واپس آرہے ہیں تو آتے وقت میرے لئے دبئی سے ایک اچھا سے ٹیبلیٹ ضرور لانا ۔۔۔۔میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی کیونکہ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرے بہن بھائیوں کو کیا پسند ہے ۔۔۔لیکن میں انہیں سرپرائز دینا چاہتا تھا سو بولا کہ ’’ ابھی تو پیکنگ چل رہی ہے اگر وقت ملا تو دیکھوں گا ‘‘ ۔۔۔باقی بہن بھائی بھی فوراً جمع ہو گئے اور اپنی فرمائشیں کرنے لگے اور میں بس مسکراتا رہا کہ جو کچھ وہ کہہ رہے تھے وہ تو میں لے ہی چکا تھا ۔۔۔۔’’ اچھا امی کہاں ہیں امی سے بات کراؤ میری ‘ میں نے امی سے خود ہی ان کی پسند کا پوچھنے کا ارادہ کیا کہ مجھے بہت سوچنے کے بعد بھی امی کی کوئی پسند ذہن میں نا آ سکی تھی ۔۔۔۔ کچھ دیر میں امی آ گئیں لائن پر حال احوال کے بعد میں نے پوچھا کہ امی آپ کے لئے کیا لاؤں دبئی سے ؟؟اپنی پسند کی کوئی چیز بتائیں۔۔۔۔۔امی نے کہا ’’ او چھوڑ ان باتوں کو یہ بتا کہ کب پہنچ رہا ہے میرا بچہ میرے پاس ؟؟؟ ‘‘میں امی کی پسند سننے کا منتظر تھا ۔۔۔۔ نجانے کیوں یہ سن کر اچانک میری آنکھوں سے دو آنسو نکلے اور میرے گالوں پھسلتے چلے گئے ۔۔۔۔۔۔ میں جان چکا تھا کہ امی کو کیا پسند ہے !!!!!اللہ سبحانہ وتعالی ان ماؤں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ وارفع مقام عطا فرمائیں جو اس دنیا سے جاچکی اور وہ مائیں جو حیات ہیں انکا سایہ شفقت ہمارے سروں پے تادیر قائم ودائم رکھے اور ہمیں انہیں راضی رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین

طلاق کی کہانی

دو عورتیں قاضی ابن ابی لیلی کی عدالت میں پہنچ گئیں، یہ اپنے زمانے کے مشہور و معروف قاضی تھے. 
قاضی نے پوچھا
تم دونوں میں سے کس نے بات پہلے کرنی ہے؟
ان میں سے بڑھی عمر والی خاتون نے دوسری سے کہا تم اپنی بات قاضی صاحب کے آگے رکھو۔
وہ کہنے لگی قاضی صاحب یہ میری پھوپھی ہے میں اسے امی کہتی ہوں چونکہ میرے والد کے انتقال کے بعد اسی نے میری پرورش کی ہے یہاں تک کہ میں جوان ہو گئی۔
قاضی نے پوچھا اس کے بعد ؟
وہ کہنے لگی پھر میرے چچا کے بیٹے نے منگنی کا پیغام بھیجا انہوں نے ان سے میری شادی کر دی، میری شادی کو کئی سال گزر گئے ازدواجی زندگی خوب گزر رہی تھی ایک دن میری یہ پھوپھی میرے گھر آئی اور میرے شوہر کو اپنی بیٹی سے دوسری شادی کی آفر کی ساتھ یہ شرط رکھ دی کہ پہلی بیوی(یعنی میں) کا معاملہ پھوپھی کے ہاتھ میں سونپ دے، میرے شوہر نے کنواری دوشیزہ سے شادی کے چکر میں شرط مان لی میرے شوہر کی دوسری شادی ہوئی شادی کی رات کو میری پھوپھی میرے پاس آئی اور مجھ سے کہا تمہارے شوہر کے ساتھ میں نے اپنی بیٹی بیاہ دی ہے تمہارا شوہر نے تمہارا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیا ہے میں تجھے تیرے شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دیتی ہوں۔
جج صاحب میری طلاق ہو گئی۔
کچھ عرصے بعد میری پھوپھی کا شوہر سفر سے تھکے ہارے پہنچ گیا وہ ایک شاعر اور حسن پرست انسان تھے میں بن سنور کر اس کے آگے بیٹھ گئی اور ان سے کہا کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے؟ اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اس نے فوری ہاں کر دی، میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ آپ کی پہلی بیوی (یعنی میری پھوپھی) کا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیں اس نے ایسا ہی کیا میں نے پھوپھی کے شوہر سے شادی کر لی اور اس کے شوہر کی وکالت کرتے ہوئے اسے طلاق دے ڈالی۔
قاضی حیرت سے:  پھر ؟
وہ کہنے لگی: قاضی صاحب کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔
کچھ عرصہ بعد میرے اس شاعر شوہر کا انتقال ہوا میری یہ پھوپھی وراثت کا مطالبہ کرتے پہنچ گئی میں نے ان سے کہا کہ میرے شوہر نے تمہیں اپنی زندگی میں طلاق دی تھی اب وراثت میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے، جھگڑا طول پکڑا اس دوران میری عدت بھی گزر گئی ایک دن میری یہ پھوپھی اپنی بیٹی اور داماد (میرا سابقہ شوہر) کو لیکر میرے گھر آئی اور وراثت کے جھگڑے میں میرے اسی سابق شوہر کو ثالث بنایا اس نے مجھے کئی سالوں بعد دیکھا تھا مرد اپنی پہلی محبت نہیں بھولتا ہے چنانچہ مجھ سے یوں مل کر اس کی پہلی محبت نے انگڑائی لی میں نے ان سے کہا کیا پھر مجھ سے شادی کرو گے؟
اس نے ہاں کر دی 
میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ اپنی پہلی بیوی (میری پھوپھی کی بیٹی) کا معاملہ میرے ہاتھ میں دیں، اس نے ایسا ہی کیا۔
میں نے اپنے سابق شوہر سے شادی کر لی اور اس کی بیوی کو شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دے دی۔
قاضی ابن ابی لیلی سر پکڑ کر بیٹھ گئے پھر پوچھا کہ 
اس کیس میں اب مسئلہ کیا ہے؟
میری پھوپھی کہنے لگی :
قاضی صاحب کیا یہ حرام نہیں کہ میں اور میری بیٹی دونوں کی یہ لڑکی طلاق کروا چکی پھر میرا شوہر اور میری بیٹی کا شوہر بھی لے اڑی اسی پر بس نہیں دونوں شوہروں کی وراثت بھی اپنے نام کر لیا۔
قاضی ابن ابی لیلی کہنے لگے:
مجھے تو اس کیس میں حرام کہیں نظر نہیں آیا، طلاق بھی جائز ہے، وکالت بھی جائز ہے، طلاق کے بعد بیوی سابقہ شوہر کے پاس دوبارہ جا سکتی ہے بشرط یہ کہ درمیان میں کسی اور سے اس کی شادی ہو کر طلاق یا شوہر فوت ہوا ہو تمہاری کہانی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔

اس کے بعد قاضی نے خلیفہ منصور کو یہ واقعہ سنایا خلیفہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے اور کہا کہ جو کوئی اپنے بھائی کیلئے گڑھا کھودے گا خود اس گڑھے میں گرے گا یہ بڑھیا تو گڑھے کی بجائے گہرے سمندر میں گر گئی۔

كتاب :جمع الجواهر في الحُصري
عربی سے ترجمہ۔
منقول

Wednesday, August 17, 2022

کامیابی

4 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ پیشاب کپڑوں میں نہ نکلے
8 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ گھر جانے کا رستہ آتا ہو
12 سال کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ دوست احباب ہوں
18 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ گاڑی ڈرائیو کرنی آتی ہو
23 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ اچھی ڈگری حاصل کر لی ہو
25 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ کوئی اچھی نوکری مل گئی ہو
30 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ بیوی بچے ہوں
35 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ مال ودولت پاس ہوں
45 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ اپنا آپ جوان لگے
50 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ بچے تمہاری اچھی تربیت کا صلہ دیں
55 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ ازدوجی زندگی میں بہار قائم رہے
60 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ اچھے سے گاڑی ڈرائیو کر سکو
65 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ کوئی مرض نہ لگے
70 برس کی عمر میں ..... کامیابی یہ ہے کہ کسی کی محتاجگی محسوس نہ ہو
75 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ تمہارا حلقہ احباب ہو
80 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ گھر جانے کا رستہ آتا ہو
85 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ کپڑوں میں پیشاب نہ نکل جائے
وَ مَنۡ نُّعَمِرۡہُ نُنَکِسۡہُ فِی الۡخَلۡقِ ؕ اَفَلَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۶۸﴾ (يٰس-68)
اور جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کی ساخت کو ہم اُلٹ ہی دیتے ہیں کیا (یہ حالات دیکھ کر) انہیں عقل نہیں آتی۔

Monday, August 8, 2022

عورت کیا چاہتی ہے؟ حقیقت سے قریب تر واقعہ

ایک عالم فاضل ٹائُپ کے بندے کو پھانسی لگنے والی تھی۔۔!

وقت کے راجا نے کہا کہ،
میں تمہاری جان بخش دوں گا،
اگر تم میرے ایک سوال کا صحیح جواب بتا دو گے تو۔۔۔۔
سوال تھا کہ،
*عورت آخر چاہتی کیا ہے۔۔۔۔؟*

عالم فاضل نے کہا کہ،
کچھ مہلت ملے، تو یہ پتا کر کے بتا سکتا ہوں۔۔۔۔

راجا نے ایک سال کی مہلت دے دی۔۔۔۔

عالم بہت گھوما،
بہت سے لوگوں سے ملا،
مگر کہیں سے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔۔۔۔

آخر میں کسی نے کہا کہ،
دور جنگل میں ایک چڑیل رہتی ہے،
وہ ضرور بتا سکتی ہے تمہارے اس سوال کا جواب۔۔۔۔!

عالم اُس چڑیل کے پاس پہنچا اور اپنا سوال اُسے بتایا۔۔۔۔

چڑیل نے کہا کہ،
میں ایک شرط پر بتاؤں گی،
اگر تم مجھ سے شادی کرو گے تو۔۔۔۔؟ 

عالم نے سوچا ‏کہ،
صحیح جواب کا پتہ نہ چلا تو،
جان راجا کے ہاتھوں بھی تو جان جانی ہی ہے،
اسی لئے شادی کے لئے رضامندی ہی بہتر ہے۔۔۔۔ 

شادی ہونے کے بعد چڑیل نے کہا کہ،
چونکہ تم نے میری بات مان لی ہے،
تو میں نے تمہیں خوش کرنے کے لئے فیصلہ کیا ہے کہ,
میں 12 گھنٹے تک چڑیل،
اور 12 گھنٹے خوبصورت پری بن کے تمہارے ساتھ رہوں گی؛
اب تم یہ بتاؤ کہ،
دن میں چڑیل رہوں یا رات کو۔۔۔۔؟

اب اُس بیچارے نے سوچا کہ،
اگر یہ دن میں چڑیل ہوئی تو دن نہیں گزرے گا،
اور رات میں ہوئی تو رات ڈر ڈر کر گزرے گی۔۔۔۔! 

آخر میں اُس عالم نے کہا،
جب تمہارا دل کرے تو پری بن جانا،
اور جب تمہارا دل کرے تو چڑیل بن جانا۔۔۔۔!

یہ بات سن کر چڑیل بہت خوش ہوئی،
اور اُس نے خوش ہو کر کہا کہ،
چونکہ تم نے مجھے اپنی مرضی ‏کی چھوٹ دے دی ہے،
تو میں ہمیشہ ہی پری بن کے رہا کروں گی۔۔۔۔! 

پھر چڑیل نے کہا کہ،
راجا کی طرف سے تم سے کیے گئے سوال کا جواب بھی یہی ہے،
عورت ہمیشہ اپنی مرضی ہی کرنا چاہتی ہے،
اگر عورت کو اپنی مرضی کرنے دو گے،
تو وہ پری بن کر رہے گی؛
اور اگر نہیں کرنے دو گے،
تو چڑیل بن کر رہے گی۔۔۔۔!

نوٹ:
شادی شدہ لوگ اپنی باقی زندگی کا فیصلہ خود کر لیں کہ, زندگی کیسے گزارنی ہے, 
پری کے ساتھ،
یا پھر چڑیل کے ساتھ۔۔۔۔!
فیصلہ آپ کا اپنا۔۔۔۔! 

Wednesday, August 3, 2022

دیسی مہینے اور ان کی وجہ تسمیہ

ہمارے بڑے بزرگوں نے ہمیشہ ہمیں مقامی زبان میں یاد دلایا کرتے تھے اس کی تفصیل ۔۔۔۔۔دیسی مہینوں کا تعارف اور وجہ تسمیہ
1- چیت/چیتر (بہار کا موسم)
2- بیساکھ/ویساکھ/وسیوک (گرم سرد، ملا جلا) 
3- جیٹھ (گرم اور لُو چلنے کا مہینہ) 
4- ہاڑ/اساڑھ/آؤڑ (گرم مرطوب، مون سون کا آغاز) 
5- ساون/ساؤن/وأسا (حبس زدہ، گرم، مکمل مون سون) 
6۔ بھادوں/بھادروں/بھادری (معتدل، ہلکی مون سون بارشیں) 
7- اسُو/اسوج/آسی (معتدل) 
8- کاتک/کَتا/کاتئے (ہلکی سردی) 
9۔ مگھر/منگر (سرد) 
10۔ پوہ (سخت سردی) 
11- ماگھ/مانہہ/کُؤنزلہ (سخت سردی، دھند) 
12- پھاگن/پھگن/اربشہ (کم سردی، سرد خشک ہوائیں، بہار کی آمد)

برِصغیر پاک و ہند کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس خطے کا دیسی کیلنڈر دنیا کے چند قدیم ترین کیلنڈرز میں سے ایک ہے۔ اس قدیمی کیلنڈر کا اغاز 100 سال قبل مسیح میں ہوا۔ اس کیلنڈر کا اصل نام بکرمی کیلنڈر ہے، جبکہ پنجابی کیلنڈر، دیسی کیلنڈر، اور جنتری کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔

بکرمی کیلنڈر کا آغاز 100 قبل مسیح میں اُس وقت کے ہندوستان کے ایک بادشاہ "راجہ بِکرَم اجیت” کے دور میں ہوا۔ راجہ بکرم کے نام سے یہ بکرمی سال مشہور ہوا۔ اس شمسی تقویم میں سال "چیت” کے مہینے سے شروع ہوتا ہے۔

تین سو پینسٹھ (365 ) دنوں کے اس کیلینڈر کے 9 مہینے تیس (30) تیس دنوں کے ہوتے ہیں، اور ایک مہینا وساکھ اکتیس (31) دن کا ہوتا ہے، اور دو مہینے جیٹھ اور ہاڑ بتیس (32) بتیس دن کے ہوتے ہیں۔

1: 14 جنوری۔۔۔ یکم ماگھ
2: 13 فروری۔۔۔ یکم پھاگن
3: 14 مارچ۔۔۔ یکم چیت
4: 14 اپریل۔۔۔ یکم بیساکھ
5: 14 مئی۔۔۔ یکم جیٹھ
6: 15 جون۔۔۔ یکم ہاڑ
7: 17 جولائی۔۔۔ یکم ساون
8: 16 اگست۔۔۔ یکم بھادروں
9 : 16 ستمبر۔۔۔ یکم اسوج
10: 17 اکتوبر۔۔۔ یکم کاتک
11: 16 نومبر۔۔۔ یکم مگھر
12: 16 دسمبر۔۔۔ یکم پوہ

بکرمی کیلنڈر (پنجابی دیسی کیلنڈر) میں ایک دن کے آٹھ پہر ہوتے ہیں، ایک پہر جدید گھڑی کے مطابق تین گھنٹوں کا ہوتا ہے.
ان پہروں کے نام یہ ہیں۔۔۔

1۔ دھمی/نور پیر دا ویلا:
صبح 6 بجے سے 9 بجے تک کا وقت

2۔ دوپہر/چھاہ ویلا:
صبح کے 9 بچے سے دوپہر 12 بجے تک کا وقت

3۔ پیشی ویلا: دوپہر 12 سے سہ پہر 3 بجے تک کا وقت

4۔ دیگر/ڈیگر ویلا:
سہ پہر 3 بجے سے شام 6 بجے تک کا وقت

5۔ نماشاں/شاماں ویلا:
شام 6 بجے سے لے کر رات 9 بجے تک کا وقت

6۔ کفتاں ویلا:
رات 9۔بجے سے رات 12 بجے تک کا وقت

7۔ ادھ رات ویلا:
رات 12 بجے سے سحر کے 3 بجے تک کا وقت

8۔ سرگی/اسور ویلا:
صبح کے 3 بجے سے صبح 6 بجے تک کا وقت

لفظ "ویلا” وقت کے معنوں میں برصغیر کی کئی زبانوں میں بولا جاتا ہے.

نجی ہسپتال وسیلہ زندگی یا وسیلہ دولت

 
 کچھ عرصہ قبل بچوں کے کہنے پر ایک انڈین فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس کا نام ’’گبر از بیک ‘‘تھا۔ اس فلم میں اکشے کمار کو بھارت کے کرپٹ سسٹم کے خلاف لڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔ میں چونکہ خود ڈرامہ نگار ہوں اور کہانیاں گھڑنے کا ہنر بھی جانتا ہوں ۔ اس لیے فلموں میں دکھائی اور بنائی جانے والی اکثر و بیشتر کہانیاں مجھے زیادہ متاثر نہیں کرتیں۔
اکشے کمار کی فلم گبر از بیک میں بھی بھارت کے نجی ہسپتالوں کی لوٹ مار دکھاتے ہوئے جب ایک سین میں دکھایا گیا کہ ایک پرائیویٹ ہسپتال والے ایک پہلے سے مرے ہوئے مردہ شخص کے علاج کیلئے بھی لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں ، تو میں تعجب سے بڑبڑایا۔ 
یہ کیا بکواس ہے ؟ ایسا کہاں ہوتا ہے ؟ مانا کہ پرائیویٹ ہسپتال کروڑوں روپے کماتے ہیں ، لیکن وہ اتنانہیں گر سکتے کہ ایک مردے کا علاج شروع کردیں۔اور اُس مردے کے نام پر لاکھوں روپے لوٹ لیں۔
فلم ختم ہوئی ، میں دل میں سوچنے لگا کہ صرف بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی تہمت اورالزام تراشی کا کلچر جس تیزی سے پھیل رہا ہے، اُس نے ہمارے معاشرے کی اخلاقی بنیادوں اور قدروں کو تہس نہس کر دیا ہے ۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے جس میں ہم ڈرامے اور فلم کے کہانی کار بھی شامل ہیں ۔میںخود کو کوس رہا تھا اور ’’گبر از بیک ‘‘ کے کہانی کار کو بھی ۔
 اس بات کو کئی مہینے گز ر گئے اور میں اکشے کی فلم کو بھی بھول گیا ، پھر میں نے ایک حقیقی فلم دیکھی۔ 
چند ہفتے قبل میرے ایک عزیز کی بیٹی کا لاہور سے نکلتے ہی مو ٹروے پر ایکسیڈنٹ ہو گیا ۔ وہ اپنی چھوٹی بہن بہنوئی اور ملازمہ کے ساتھ ڈیرہ غازی خان جانے کیلئے نکلی تھی ، مگر موٹروے پر چڑھتے ہی اُن کی کار کو ایک تیز رفتار بس نے ٹکر مار دی ۔
میرے عزیز کی بیٹی جنہیں لاہور جوہر ٹائون نہر کنارے واقع نجی ہسپتا ل میں لایا گیا ، وہ بے ہوش ضرور تھیں ، تاہم شدید ز خمی نہیں تھیں ۔ یہاں سے نجی ہسپتال والوں کی فلم کا آغاز ہوتا ہے ۔
مریضہ جن کا نام حنا نعمان تھا۔ ہسپتال میں داخل ہوتے ہی آئی سی یو وارڈ نے اُنہیں فوراً نک کالر لگا دی ۔ بتایا گیا کہ گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے ۔ ایم آر آئی اور سٹی سکین بھی فوری کر دئیے گئے ۔ پسلیوں کا ایکس رے کر کے دو پسلیوں کا فریکچر بتایا گیا ۔ دماغ میں حادثے کی وجہ سے بننے والے بلڈ کلوٹ بھی دکھا دئیے گئے ۔ اِن حالات میں سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ مریضہ کو مسلسل بے ہوشی کی دوا دی جاتی رہی ۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ اگر یہ ہوش میں آئیں تو انہیں شدید صدمہ پہنچنے کا ڈر ہے ۔ 
یہ لاہور کے اُس مہنگے ترین نجی ہسپتال کا آئی سی یو تھا، جہاں پنجاب کی اشرافیہ اپنا علاج کروا کر فخر اور تسلی محسوس کرتی ہے ۔ پاکستان میں مریض اور بیمار امیر ہو یا غریب خدا کے بعد ہسپتال کے طبی عملے کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔ ہماری مریضہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو ا۔ 
جس آئی سی یو میں اُنہیں رکھا گیاتھا اُس کے باہر ایک سیکورٹی گارڈ 24گھنٹے ایسے چاک و چوبند کھڑا رہتا تھا جیسے کسی بنک کے باہرسیکیورٹی گارڈ ۔ اس آئی سی یو میں مریضوں سے ملنا سخت منع تھا۔ اس وارڈ میں ڈاکٹر کون تھے ۔ کب آتے تھے ، کب جاتے تھے ، کن شعبوں سے وابستہ تھے۔ اِن تمام سوالوں کے جواب راز ہی رہے ۔ تاہم رات بارہ ایک بجے مریضوں کے لواحقین کو نیند سے اُٹھا کر لاکھ روپے کا بل تھما دیا جاتا اور کہا جاتا کہ یہ آج کا بل ہے ، اِسے ادا کریں۔
لاہور کے اُس عالیشان پرائیویٹ ہسپتال میں جب مسلسل چار دن تک مریضہ کی آنکھیں نہ کھلیں ، تو ہماری آنکھیں مکمل طو ر پر کھل گئیں ۔ فیصلہ کیا گیا کہ حنا نعمان کو فوری طور پر جنرل ہسپتال منتقل کیا جائے ۔ نجی ہسپتال والوں نے ہاتھ سے سونے کی چڑیا جاتے دیکھ کر ہمیں مزید ڈرانا شروع کر دیا ۔ اُن کا اصرار تھا کہ ہماری مریضہ کی حالت ٹھیک نہیں ۔ ہسپتال کے لاکھ ڈرانے کے باوجود میرے کزن نے ہمت دکھائی ۔ ہم سے لکھوایا گیا کہ مریضہ کو کچھ بھی ہوا تو ہم ذمہ دار ہونگے ۔ ہم نے اُس ذمہ داری کو قبول کیا اور جوہر ٹائون کے نجی ہسپتال سے سرکاری جنرل ہسپتال شفٹ ہو گئے ۔
جنرل ہسپتال کے دماغ کے وارڈ میں شفٹ ہوتے ہی ڈاکٹر ز نے حنا نعمان کی نک کالر اُتار دی ۔ ڈاکٹر ز نے بتایا کہ ایم آر آئی ، سٹی سکین سب کچھ نارمل ہے ۔ پسلیوں میں کوئی فریکچر نہیں ہے ۔ لہٰذا ہم بیٹی کو کھلائیں ، پلائیں ، بٹھائیں حتیٰ کہ وارڈ میں چلائیں۔
یہاں تمام تر علاج مفت تھا ۔ حنا نعمان کے مہنگے نجی ہسپتال سے جنرل ہسپتال کے مفت سرکاری اور بہترین علاج کی کہانی میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے ۔ یہ وہ تلخ حقیقت اور سچائی ہے ، جیسے بچشم سر ہم نے دیکھا ، جھیلا، سہا اور برداشت کیا۔ اگر میرے عزیز اپنی بیٹی کو نجی ہسپتال سے سرکاری ہسپتال شفٹ نہ کرتے تو پتہ نہیں اُسے مزید کتنے دن بے ہوش رکھا جاتا۔ نجی ہسپتال کے اُسی آئی سی یو میں ایک شخص ایک سال سے وینٹی لیٹر پر ہے اور ہسپتال والے ایک سال میں اُس بیمار شخص کے گھر والوں سے ڈیڑ ھ کروڑ روپے کما چکے ہیں ۔
یہ لاہور کے صرف ایک نجی ہسپتال کی کہانی ہے ۔ جو ہر طرح سے ’’گبر از بیک ‘‘ کی طرح فلمی لگتی ضرور ہے مگر یہ فلم نہیں بلکہ حقیقی اور سچی آپ بیتی ہے ۔ پاکستان کے سینکڑوں مہنگے نجی ہسپتالوں میں کتنی فلمیں چل رہی ہیں ، اِن کا حساب لگانا مشکل ہے ۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پرائیویٹ ہسپتالوں کو چیک کرے کہ وہ وسیلہ زندگی بننے کے بجائے لوٹ مار کا بے رحم کھیل کیوں کھیل رہے ہیں۔پرائیویٹ اور نجی ہسپتالوں کو وسیلہ زندگی ہونا چاہیے وسیلۂ دولت و اسباب نہیں۔

وسعت اللہ صاحب کی وال سے

مرد کی غیرت


تاریخ کی کتابوں میں ایک واقعہ درج ہے کہ ایک بدو کی دلہن کو جس گھوڑے پر بٹھا کر لوگ لائے تھے ۔دلہن کے گھوڑے سے اترتے ہی اس بدو نے اس گھوڑے کی تلوار سے گردن الگ کردی
لوگوں نے اس سے ایسا کرنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میری بیوی کے اترنے کے فورا بعد ہی کوئی اور اس کی پیٹھ پر بیٹھ جائے اور دلہن کی سواری کی وجہ سے تاحال گھوڑے کی پیٹھ گرم ہو اور کوئی غیر مرد اس حرارت کو محسوس کر لے
اسی طرح ایک اور واقعہ ہے کہ ایک عورت نے اپنے شوہر کے خلاف عدالت میں کیس دائر کیا کہ اس کے ذمہ میرے حق مہر کے500 دینار ہیں
عدالت نے شوہر کو بلا کر پوچھا تو اس نے انکار کر دیا
عدالت نے گواہوں کو طلب کیا اور ان سے گواہی لیتے وقت عورت کا چہرہ پہچاننے کے لئے عورت کو نقاب اتارنے کا کہا
اس پر اس کا شوہر جلدی سے کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ قاضی صاحب ۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ مجھ پر میری بیوی کے 500 دینار لازم ہیں ۔ بس آپ اس کا نقاب نہ اتروائیے ۔
یہ سن کر بیوی کہنے لگی کہ قاضی صاحب آپ اور تمام حاضرین گواہ رہیں کہ میں نے اپنا حق مہر معاف بخش دیا ان کو ۔
قاضی بے چارہ حیران و پریشان کہ یہ ہو کیا رہا ہے ۔
خیر ان میاں بیوی کے جانے کے بعدقاضی نے محرر سے کہا کہ
اس کیس کا الگ فائل بناو اور نام لکھو
۔"مرد کی غیرت ".
علامہ ابن قیم فرما تے ہیں کہ " انسان کے دل میں غیرت ہوتی ہے ۔اور اگر غیرت نہ ہو تو اس دل میں محبت ہو ہی نہیں سکتی ۔اور محبت سے خالی دل میں ایمان اور دین کیسے باقی رہ سکتے ہیں

المیہ ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں حوا کی بیٹی اور عصمت مسلم کو بلا روک ٹوک نیم برہنہ کرنے پر امت فخر کر رہی ہے اور اسلام کا وقار چند ٹکوں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے -
سو محبت کیجئے حلال کیجئے....

سیلاب اور ہم

سن 2010 میں وطن عزیز کو بھیانک سیلاب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان دنوں میری رہائش اپنے آبائی شہر سیالکوٹ ہوا کرتی تھی۔ دریائے چناب نے بند توڑتے ہوئے بجوات، مرالہ و گوندل کے اطراف بستیوں کو ڈبو دیا تھا۔ نو لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا انسانوں و جانوروں کو بہا لے گیا تھا۔ پانی کچھ اترا تو ایک بین الاقوامی مشہور زمانہ ادارے نے سیلاب متاثرین میں راشن کے تھیلے تقسیم کرنا تھے۔ انہوں نے اس کی کوریج کے لئے مجھ سے رابطہ کیا۔ اداروں کی مجبوری کہ امدادی کام کی "کوریج" نہ ہو تو ڈونر کو مطمئن کیسے کریں اور یہ سب نہ دکھائیں تو مزید فنڈز کہاں سے لائیں ؟ سو غریب ملکوں سے غربت و افلاس ہی ایکسپورٹ ہوتی ہے جس کے بدلے "زرمبادلہ" پاکستان آتا ہے اور دال جوتیوں میں بٹتی ہے۔ یہ ادارہ اتنا بڑا تھا کہ اس کے ڈونر افراد نہیں بلکہ ممالک تھے۔۔۔ 

راشن کے تھیلوں سے بھرے چار فوجی ٹرک موجود تھے۔ پاک فوج سے اس سلسلے میں خدمات اس لئے بھی لی گئیں کہ پاک فوج سیلاب سے متاثرہ دیہاتوں میں ریسکیو کے کاموں میں پیش پیش تھی اور سب سے اہم یہ کہ فوجی ٹرکوں کی اونچائی بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے وہ پانی کے درمیاں آسانی سے گزر سکتے تھے۔۔۔ ایک ٹرک کی فرنٹ سیٹ پر گلے میں کیمرا لٹکائے میں سوار ہو گیا۔ 

چناب کنارے آباد بجوات کے دیہاتوں میں پہنچے جو پانی میں اب تک ڈوبے ہوئے تھے۔ بجوات سیکٹر بھارت کی سرحد ہے۔ 72 گاوں پر مشتمل یہ علاقہ بہترین چاول کاشت کرنے کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔ فوجی جوان سامان تقسیم کرتے رہے۔ ان کی مانیٹرنگ بین الاقوامی ادارے کے پاکستانی عہدے داران کر رہے تھے۔ ایک فوجی چوکی پر پہنچنا ہوا۔

درجن ہرنوں کی پھولی ہوئی لاشیں میرے سامنے پڑی تھیں۔یہ بڑے خوبصورت ہرن تھے ،کچھ بچے تھے ۔بجوات کے گاؤں حسن آباد کی فوجی چوکی میں بیٹھا میں صوبیدار کی باتیں سن رہا تھا۔صوبیدار نے بتایا کہ یہ بجوات کے جنگل کے ہرن تھے۔ پانی اترنے پر لاشیں ملیں۔ پتہ نہیں اور کتنے مر گئے ۔ یہ بتاتے اس کی آواز بھر آئی تھی۔ خاموشی کے ایک مختصر وقفے کے بعد صوبیدار صاحب بولے  "کشتی میں چار بھائیوں کو بٹھانا چاہا تو ایک بھائی نے سوار ہونے سے انکار کر دیا۔ وه بولتا تھا کہ میرے ڈنگر ہیں، ان کے بنا نہیں جاؤں گا ۔ستر بھینسیں اس کی ڈوب گئیں اور خود بھی بہہ گیا۔میں نے پانیوں پر انسانوں ، جانوروں ، درختوں ، کھرلیوں ، کتوں ، اور گھروں کے سامان کو ایسے بہتے دیکھا کہ لگتا تھا طوفان نوح آ گیا ہے۔نو لاکھ کیوسک کا ریلا تھا کئی گاؤں بہا لے گیا"

صوبیدار کی آنکھ میں نمی جھلکنے لگی۔میں نے پھر سے ہرنوں کو دیکھا جن کے جسم پر بنی دهاریاں اب بھی چمک رہی تھیں ۔جدھر انسان بہہ گیا ہرنوں کا نوحہ کون پڑھتا۔صوبیدار بھٹی رحم دل انسان تھا۔ 

راشن تقسیم کرتے دوپہر ڈھلنے لگی۔ شام ہونے کو آئی۔ خالی ٹرک واپس لوٹنے لگے۔ مجھے سیالکوٹ شہر میں اتر جانا تھا۔ اترنے لگا تو دم رخصت این جی او کے ایک بڑے صاحب بولے " بخاری صاحب، آپ کے لئے 2 تھیلے رکھے ہوئے ہیں وہ لیتے جایئے گا"۔۔۔ یہ جملہ سن کر میں نے حیرت سے پوچھا " میرے لئے راشن کے تھیلے ؟ وہ کیوں ؟ "۔۔۔ ہنستے ہوئے جواب آیا "سب ہی لیتے ہیں۔ کام آ جائیں گے گھر میں" ۔۔۔ یہ سن کر اب کے جو میں نے ٹرک میں دیکھا تو لگ بھگ 30 سے 40 تھیلے "بچ" چکے تھے جو مستحقین کا حق تھا اور یہ "مال" عملہ اپنے لئے حلال سمجھ رہا تھا۔۔۔ 

مجھے غصہ آیا مگر جذباتی ہو کر انکار کرنے سے قبل میں نے سوچا اگر میں نہ لوں گا تو یہ کسی اور کو دے دیں گے یا آپس میں خود بندر بانٹ کر لیں گے۔ اس سے اچھا میں اپنا "حصہ" لے کر کسی مستحق کو دے دوں۔ میں نے مسکراتے ہوئے صاحب کو کہا " دو نہیں ، چار تھیلے تو دیں ناں مجھے" ۔۔۔ صاحب نے باچھیاں پھیلائیں اور آواز لگائی " چار تھیلے اتار دو" ۔۔۔ 

ان کے رخصت ہوتے وہ چار تھیلے میں نے رکشے میں ڈالے اور دو ایسے گھروں میں پہنچا آیا جو محلے دار تھے اور مستحق تھے۔ جن کے حالات میں ذاتی طور پر جانتا تھا۔ 

اس رات میں دیر تلک یہ سوچتا رہا تھا کہ آج کے دن ایک صوبیدار بھٹی ملا جو ہرنوں کو رو رہا تھا اور وہیں چند ایسے لوگ ملے جو غریب انسانوں کا مال ہضم کرنے پر تلے تھے۔ صوبیدار بھٹی آج کے اس بے حس دور میں یقیناً ولی تھا۔ ایسے ہی درد دل رکھنے والوں سے دنیا قائم ہے۔ ابھی قیامت نہیں آئی ۔۔۔ آنکھ تو ڈبڈباتی رہے گی۔۔۔

تحریر..... ایس ایم بخاری

ہم

یہ عمر رسیدہ معذور اور دکھی عورت خود کو گھسیٹ کر پانی سے بھرے بازار میں دو منٹ میں ایک قدم کا فاصلہ بھی بہت مشکل سے طے کر رہی تھی،بے چارگی ،بے بسی سے چلتے پھرتے،شاپنگ کرتے انسان نما جانوروں کو دیکھتی ہے، جانور تو پھر بھی ایک دوسرے کی مدد کر لیتے ہیں،،لوگ اس بےبس کی ویڈیو بناتے رہے،کسی نے مدد نہ کی،نہ اٹھا کے کسی خشک جگہ پہ پہنچایا،نہ ہی کسی خدائی خدمتگار نے لفٹ دی،لفٹ بھی آجکل عمر اور پہناوے کو دیکھ کر دی جاتی ہے،پتا نہیں اس بڑھیا نے کیسے بازار کاسفر طے کیا ہو گا،،ہم بطور معاشرہ کدھر جا رہے ہیں،اسلام میں تو میت کا بھی ادب کرنا بھی سکھایا گیا ہے،ہم کون سا اسلام فالو کر رہے ہیں،،ہم پاکستانیوں میں انسانیت نام کی چیز ناپید ہو گئی ہے، لوگ مر رہے ہیں ،ڈوب رہے ہیں،ہمارا میڈیا اور ہم نواز،زرداری ،عمران ،مثلث کے گرد گھوم رہے ہیں،جو بس اقتدار کے لیے لڑ رہے ہیں،اور کچھ نہیں،ان کی مخالفت،بس صرف اور صرف اقتدار، اور وہ اپنی اپنی ڈگڈگی بجا رہے ہیں،اورعام عوام کے گروپس ان ڈگڈگیوں پہ بندر بنے ناچ رہے ہیں،، بلوچستان میں سیلاب میں درخت پہ تین بچے چڑھ گئے پانی کا بہاو زیادہ تیز اور گہرا تھا باپ بہت دور تھا، دہائیاں دیتا رہا کہ کوئی میرے بچوں کو نکالے،کوئی ھیلی کاپٹر منگوائے،مگر کسی کے کان پہ جوں تک نہ رینگی، ان میں ایک بچہ بھوک برداشت نہ کر سکا اور مر گیا, اور ھمارے ایم این ایز کو لانے والے ہیلی کاپٹر کہاں گئے،،یاد رکھیں بنگلہ دیش میں بغاوت اور علیحدگی کی فوری وجہ سیلاب ہی بنا تھا،ان کی کسی پاکستانی نے کوئی مدد نہیں کی تھی،،میں اپنے اس گروپ کی تمام ممبران سے اپیل کرتا ہوں کہ دکھی،اور بے بس لوگوں کی مدد کیا کریں،،یہ دور ہم پہ بھی آسکتا ہے،،دوسری بات کہ سیاسی مداریوں کو پہنچانیں،،ملک کو توڑنے کی سازش ہو رہی ہے،،اور ہم چین کی نیند سو رہے ہیں، اک مشن شروع ہونا چاہیے،مشن تطہیر،ہر محکمے،ادارے، سماج،سیاست،نام نہادمذہب سب کی تطہیر ہونی چاہیے،یہ اب وقت کی ضرورت ہے،والسلام،،، (خدا بخش شامی،)