Sunday, February 26, 2023

حرام کو چھوڑنے کا بدلہ

دمشق میں ایک بہت بڑی مسجد ہے کہ جو جامع مسجد توبہ کے نام سے مشہور ہے۔اس میں ایک طالب علم کہ جو بہت زیادہ غریب، اور عزت نفس میں مشہور تها وہ اسی مسجد کے ایک کمرے میں ساکن تها۔دو روز گزر چکے تھے کہ اس نے کچھ نہیں کھایا تھا اور اس کے پاس کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں تهی اور نہ کوئی پیسہ اس کے پاس تھا۔ تیسرے روز بهوک کی شدت سے اس نے احساس کیا کہ وہ مرنے کے قریب ہے!
سوچنے لگا کہ اب میں اس حالت میں ہوں کہ شرعاً حتیٰ کہ مردار کھانا یا ضرورت کے مطابق چوری جائز ہے۔
اسی بنا پر چوری کا راستہ بہترین راه تھی۔
شیخ طنطاوی کہتے ہیں:
یہ سچا واقعہ ہے اور میں ان لوگوں کو اچهی طرح جانتا ہوں اور اس واقعہ کی تفصیل سے اگاہ ہوں۔یہ مسجد ایک قدیمی محلہ میں واقع ہے اور وہاں تمام مکانات قدیمی طرز پر اس طرح بنے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کی چھتیں آپس میں ملی ہوئی ہیں اور چهتوں سے ہی سارے محلہ میں جایا جاسکتا ہے-یہ جوان مسجد کی چھت پرگیا اور وہاں سے محلہ کے گھروں کی طرف چل دیا۔ پہلے گھر میں پہنچا تو دیکھا، وہاں کچھ خواتین ہیں تو سر جھکا کے وہاں سے چلا گیا-
بعد والے گهر پہنچا تو دیکها گهر خالی ہے لیکن اس گهر سے کھانے کی خوشبو آرہی ہے-بهوک کی شدت میں جب کھانے کی خوشبو اس کے دماغ میں پہنچی تو بھوکے کی مانند اس کو اپنی طرف کھینچ لیا. یہ مکان ایک منزل تها-فوراً باورچی خانے میں پہنچا - دیگچی کا ڈهکن اٹھایا تو اس میں بهرے ہوئے بینگن کا سالن تها-ایک بینگن اٹهایا بهوک کی شدت سے سالن کے گرم ہونے کی بهی پرواہ نہیں کی-بینگن کو دانتوں سے کاٹا اور جیسے ہی نِگلنا چاہا تو اسی وقت عقل اپنی جگہ واپس آگئی اور اس کا ایمان جاگ گیا-اپنے آپ سے کہنے لگا:
خدا کی پناہ!میں طالب علم ہوں،لوگوں کے گهر میں گهسوں اور چوری کروں؟؟
اپنے اس فعل پر شرم آ گئ ,پشیمان ہوا اور استغفار کیا اور پهر بینگن کو واپس دیگچی میں رکھ دیا۔اور جیسے آیا تها ویسے ہی واپس لوٹ گیا- اور مسجد میں داخل ہوکر شیخ کے حلقہ درس میں حاضر ہوا-بهوک کی شدت سے سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ شیخ کیا درس دے رہے ہیں۔
جب شیخ درس سے فارغ ہوئے اور لوگ بهی متفرق ہوگئے، توایک خاتون مکمل حجاب میں وہاں آئی۔شیخ سے کچھ گفتگو کی اور وہ طالب علم ان دونوں کی گفتگو نہیں سمجھ سکا۔شیخ نے اپنے اطراف میں نگاہ کی تو اس طالب علم کے علاوہ کسی کو وہاں نہ پایا۔ پهراس کو آواز دی اور کہا: تم شادی شدہ ہو ؟
جوان نے کہا: نہیں!
شیخ نے کہا: تم شادی نہیں کرنا چاہتے؟
جوان خاموش رہ گیا۔
شیخ نے پھر کہا: مجھے بتاؤ تم شادی کرنا چاہتے ہو یا نہیں؟
اس جوان نے جواب دیا: خدا کی قسم میرے پاس ایک لقمہ روٹی کے لئے پیسے نہیں ہیں،میں کس طرح شادی کروں؟
شیح نے کہا: یہ خاتون آئی ہے اس نے مجھے بتایا ہے کہ اس کا شوہر وفات پاگیا ہے اور اس شہر میں بچے اور اس کا دنیا میں سوائے ایک ضعیف چچا کے کوئی عزیز و رشتہ دار نہیں ہے۔اپنے چچا کو یہ اپنے ساتھ لے کر آئی ہے اور وہ اس وقت اس مسجد کے ایک کونے میں بیٹھا ہوا ہےاور اس خاتون کو اس کے شوہر سے گهر اور مال ورثہ میں ملا ہے۔اب یہ آئی ہے اور ایسے مرد سے شادی کرنا چاہتی ہے جو شرعاً اس کا شوہر اور اس کا سرپرست ہو- تاکہ تنہائی اور بدطینت انسانوں سے محفوظ رہے۔(اب بتاؤ) کیا تم اس سے شادی کرو گے ؟
جوان نے کہا: ہاں
اور پھر اس خاتون سے پوچھا: کہ تم اس کو اپنے شوہر کے طور پر قبول کرتی ہو؟
اس نے بھی مثبت جواب دیا۔
شیخ نے اس خاتون کے چچا اور دو گواہوں کو بلا کر ان دونوں کا نکاح پڑھا دیا اور اس طالب علم کے بجائے خود اس خاتون کا مہر ادا کیا- اور پهر اس خاتون سے کہا: اپنے شوہر کا ہاتھ تھام لو۔اس نے ہاتھ تهام لیا اور اپنے گهر کی طرف اپنے شوہر کی رہنمائی کی۔
جب گهر میں داخل ہوئی تو اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دیا۔وہ جوان اپنی زوجہ کے حسن و جمال سے حیران رہ گیا۔اور جب اس گهر کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ وہی گھر ہے جس میں وہ داخل ہوا تها۔ زوجہ نے شوہر سے پوچها کہ تمہیں کچھ کهانے کے لئے لے آوں ؟
کہا: ہاں
اس نے دیگچی کا ڈهکن اٹهایا اور بینگن کو دیکها اور بولی: عجیب ہے، گھر میں کون آیا تھا اور اس نے بینگن کو دانتوں سے کاٹا ہے؟ وہ جوان رونے لگا اور اپنا قصہ اس کو سنا دیا۔
زوجہ نے کہا: یہ تمہاری امانت داری اور تقویٰ کا نتیجہ ہے تم نے حرام بینگن کهانے سے اجتناب کیا تو الله نے سارا گھر اور گھر کی مالکہ کو حلال طریقے سے تمہیں دے دیا۔
بہت خوبصورت اور قابل غور۔
سبحان الله!


جو کوئی الله کی خاطر کسی گناہ کو ترک کرے اور تقویٰ اختیار کرے تو
الله اس کے مقابل میں بہتر چیز اس کو عطا کرتا ہے۔


(منقول)

محتاج اور حاجت روا

سارے ہی جب حاجت مند ہیں
یہ اونچا نیچا کیا ہوتا ہے؟
سب کو بھوک لگتی ہے
سب کو کھانا چبانا پڑتا ہے
سب کو قضائے حاجت کے لیے جانا پڑتا ہے
سب تھک جاتے ہیں
سب کو سونا ہوتا ہے
سب بیمار پڑتے ہیں
دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں
کپڑے سلوانے کے لیے درزی کے۔۔۔
بال بنوانے کے لیے حجام کے۔۔۔
موچی کے۔۔۔دھوبی کے۔۔۔ جمعدار کے۔۔۔ باورچی کے ۔۔۔ ملازم کے۔۔۔ نوکر کے۔۔۔مزدور کے۔۔۔
سب محتاج ہیں۔۔۔ ایک دوسرے کے
سب کے ذمے الگ الگ کام لگے ہوئے ہیں۔
کوئی رہ سکتا ہے بھلا اس دنیا میں، ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر؟؟؟
اور ہاں! سب دنیا والے محتاج ہیں اس دنیا کے مالک اللہ تعالیٰ کے!

اللہ سے دوستی

جو اپنے ربّ العزت سے دوستی کر لیتے ہیں ناں۔وہ کبھی تنہا نہیں ہوا کرتے۔جو اپنے رازوں کو ربﷻ سے کہنا شروع کر دیتے ہیں ناں..وہ کبھی رسوا نہیں ہوتے۔جو اپنے دُکھوں کو رب کریم کے آگے رکھ دیتے ہیں ناں....زندگی میں کبھی مشکلات اُنھیں جُھکا نہیں سکتی۔جہاںِ دُنیا فانی میں کیوں کسی اور کی طرف دیکھوں۔۔۔میں کیوں خود کو تنہا سمجھوں،*میرے لیے تو*۔۔۔۔ایک الله رب العالمین کی ذات ہی کافی ہے۔دوستی کے لئے،،،،!!

آج کے بچوں کے پاس دین کیوں نہیں؟

ان کی ماؤں کے پاس دین نہیں ہے اور ماؤں کے پاس دین کیوں نہیں ہے؟
کیونکہ
گھر کے مردوں نے دین سے دوری اختیار کر لی ہے۔ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہماری عورت دین دار ہے یا نہیں یا ہمارے بچوں کی کیسی تربیت ہو رہی ہے۔ تربیت صرف اچھے گریڈز یا بہترین ڈگریاں لینے کا نام نہیں ہے اور آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ ہی یہی ہے کہ اکثر والدین ہی دین سیکھنے میں رکاوٹ بن رہے ہوتے ہیں۔
منقول

دعا

وہ جائے نماز پر بیٹھی تھی
زارو قطار رو رہی تھی
ایسے جیسے کوئی اسکی بہت اہم چیز اس سے چھینی جا رہی ہو۔۔
اس کو اپنی سانسیں بند ہوتی محسوس ہو رہی تھی اس لگا اس سانس بند ہو جائے گا۔۔
وہ جو کبھی نماز بھی باقاعدگی سے نہیں پڑھتی تھی آج نوافل ادا کرنے کے لیے رب کے سامنے موجود تھی
میں کبھی ایسا نہیں کروں گی
اللہ تعالیٰ
میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں
میں ہٹ جاؤنگی ہر اس چیز سے ۔۔
ہر اس کام سے جس سے آپ ناراض ہوتے ہیں
میں نے جان لیا کوئی کسی کا نہیں
کوئئ کسی کے لیے کھڑا نہیں ہوتا۔۔۔
آپ کے سوا صرف آپ کے سوا۔۔۔
آپ بس میری دعا سن لیں
بس یہ دعا
اس حوالے سے آخری دعا۔۔
پوری شدت ،تڑپ کر وہ دعا کر رہی تھی۔۔۔
دعا مانگ کر جیسے ہی وہ مصلے سے اٹھی سامنے دیکھ کر حیران رہ گئی۔۔
اتنی جلدی اتنی جلدی دعائیں سنی جاتی ہیں ۔۔
وہ دعائیں بھی جو رب کے نزدیک غلط تھی۔۔۔
تو کیا اگر اس سے ہدایت کی دعا کی جائے وہ نہیں سنے گا کیا۔۔؟؟
اس نے خود سے سوال کیا تھا
دعا۔۔!!
ھاں دعا
اسکو یاد آیا وہ تو بچپن سے ہی رب سے چھوٹی سی چھوٹی چیز دعا سے حاصل کرتی تھی اگر ماں باپ کوئی چیز نہیں دلا رہے تو دعا کرتی تھی
اللہ امی ابو یہ چیز دلا دیں
کہیں جانا ہوتا اور اجازت نا مل رہی ہوتی تو
وہ دعا کرتی اللہ تعالیٰ اجازت مل جائے
اللہ تعالیٰ آج سکول جلدی جاؤں
اللہ آج فلاں ٹیچر نا آئے
اللہ آج گھر یہ کھانا بنا ہو
یر ہر چھوٹی چھوٹی چیز تو وہ دعا سے لیتی تھی
وہ تو بس اتنا جانتی تھی رب جو مانگنا پسند ہے اس لیے تو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا
"جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو اللہ سے مانگو"
یہ چیز تو اس کے لیے نصیحت تھی۔۔جوتی کا تسمہ اتنی چھوٹی سی چیز میں تو اب ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز رب سے مانگو گی
پھر اس نے مانگنا شروع کیا اور اسے سب ملتا تھا جو مانگتی تھی
آج کیا ہوا جب اس کو بہت چیزوں کی سخت ضرورت تھی جب وہ تکلیف میں تھی اب وہ کیسے دعاؤں کو بھول گئی تھی
اسے یاد آیا اسنے اتنے عرصے سے رب سے مانگنا چھوڑ دیا تھا اس لیے تو آج وہ ان مشکلات میں کھڑی تھی
اب اس کو سمجھ آگیا تھا اس کو کیا مانگنا ہے اس کو اب ہدایت مانگنی ہے صرف ہدایت
ہدایت مل جائے تو انسان تکالیف میں نہیں رہتا ہدایت ملے تو انسان کو لوگوں کی پرواہ نہیں رہتی ہدایت ہو تو خدا کا رحم ہوتا ہے.

سورۃ القارعۃ کا مفہوم - ایک سبق آموز واقعہ

ایک آدمی سورت القارعة تلاوت کر رہا تھا جسکا ترجمہ تھا "کھڑ کھڑانے والی ،کیا کھڑ کھڑانے والی ،تمہیں کیا معلوم کہ کھڑ کھڑانے والی کیا ہے"
وہ شخص پریشان ہو گیا کہ یہ کھڑ کھڑانے والی کیا چیز ہے سمجھ نہیں آرہی تھی وہ الجھتا رہا پھر اس نے سوچاکیوں نہ کسی عربی سے پوچھا جائے کہ یہ کھڑ کھڑانے والی کا کیا مطلب ہے اس آدمی کا ایک دوست عرب کا بدو تھا جو کہ صحرا میں خیمہ لگا کر رہتا تھا اس نے سوچا میں اسی سے پوچھتا ہوں اس کھڑ کھڑانے والی کا مطلب ،چنانچہ وہ اس کے پاس صحرا میں گیا ابھی وہ اس کے خیمہ کے پاس بھی نہ پہنچا تھا کہ اس بدو نے اپنی بیوی کو آواز دی کہ "القارعة القارعة کہ دیکھو چولہے پہ کیا رکھا ہے جو اتنا جوش دے رہا ہے کہ اس کے کھولنے سے چولہے پہ رکھی ہوئی چیز کا ڈھکن کھڑ کھڑا رہا ہے وہ آدمی وہیں رک گیا اور اس کو اس سورت کی سمجھ آ گئ کہ اللہ پاک نے اس کھڑ کھڑانے والی سے مراد وہ دوزخ ہے جو کہ آگ سے ابل رہی ہے اور اللہ پاک نے اسے قیامت تک ڈھکا ہوا ہے اور اللہ انسانوں کو اس سورت کے زریعے سمجھارہا ہے کہ تمہیں کیا معلوم وہ کھڑ کھڑانے والی کیا ہے وہ ابلتی ہوئی آگ ہے تو اے انسانوں اس آگ سے بچ جاؤ
اللہ ہمیں کیسے اپنی نشانیاں کھول کھول کر سنا رہا ہے
اور ہم پھر بھی غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اللہ ہمیں اس کھڑ کھڑانے والی سے محفوظ رکھے آمین

Monday, February 20, 2023

پنسل

 ایک عالم دین پنسل سے بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے ان کا بیٹا قریب آیا اور تتلاتے ہوئے دریافت کیا : بابا آپ کیا لکھ رہے ہیں؟۔

اس عالم دین نے مسکراتے ہوئے اپنے بیٹے سے فرمایا : بیٹا میرے لکھنے سے بھی زیادہ اہم یہ پنسل ہے جس سے میں بیٹھا لکھ رہا ہوں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ جب تم بڑے ہو جاؤ تو تم اس پنسل کی طرح بنو۔

اس بچے نے تعجب آمیز نگاہوں سے باپ کو دیکھا اور پھر بڑے غور سے پنسل کو گھورنے لگا اور وہ اس کی کسی ایسی خصوصیت کو تلاش کرنے لگا جس کی بنیاد پر بابا جان اس سے پنسل جیسا بننے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

 بڑی دیر تک پنسل کو دیکھنے کے بعد اسے کوئی ایسی چیز نظر نہ آئی جو اس کے ذہن کو کھٹکتی اور اب بچے سے رہا نہ گیا آخر کار باپ سے معلوم کربیٹھا۔

 بابا جان اس پنسل میں ایسی کون سی خصوصیت ہے جس کے سبب آپ کی خواہش یہ ہے کہ میں بڑا ہو کر اس جیسا بنوں۔

اس عالم نے کہا : اس پنسل میں ۵ اہم خصوصیات ہیں اور تم یہ کوشش کرو کہ بڑے ہو کر تمہارے اندر بھی یہیں خصوصیات پیدا ہوں۔

1۔ تم بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتے ہو لیکن کبھی یہ مت بھولو کہ کوئی ہاتھ ہے جو تمہیں چلا رہا ہے اور تم سے یہ کارنامے کروا رہا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا دست قدرت ہے۔

2۔ کبھی کبھی جب اس کی نوک گھس جاتی ہے تو کٹر یا چاقو وغیرہ سے اسے تراشا جاتا ہے اگرچہ یہ ایک اذیت ناک چیز ہوتی ہے لیکن بہرحال اس کی نوک تیز ہو جاتی ہے اور پھر یہ اچھے سے کام کرنے لگتی ہے پس تمہیں بھی یہ جان لینا چاہیئے کہ انسان کو اگر کوئی دکھ اور صدمہ پہونچتا ہے وہ اس لئے ہوتا ہے تا کہ تم بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کر سکو۔

3۔ پنسل یہ اجازت دیتی ہے کہ اگر کچھ غلط تحریر ہو جائے تو تم ربر سے اسے مٹا کر اپنی غلطی کی اصلاح کر سکو پس تم یہ سمجھ لو کہ ایک غلطی کو صحیح کرنا غلطی نہیں ہے۔

4۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ پنسل کی لکڑی اور اس کا خول لکھنے اور تحریر کرنے کے کام نہیں آتا بلکہ لکھنے کے کام ہمیشہ وہ مغز آتا ہے جو اس لکڑی کے اندر چھپا ہوا ہوتا ہے پس ہمیشہ تم اس چیز کا خیال رکھو کہ تمہارے جسم کی کوئی حیثیت و اہمیت نہیں ہے بلکہ اس کے اندر چھپی تمہاری روح اور ضمیر قدر و قیمت والا ہے جسم نہیں۔

5۔ پنسل جب کچھ لکھتی ہے تو اپنے کچھ نقوش کاغذ پر چھوڑ دیتی ہے جو مدتوں کاغذ پر دیکھے جا سکتے ہیں پس تم بھی یہ بات سمجھ لو کہ تم جو بھی کام کرو گے اس کے نقوش تمہارے بعد باقی رہیں گے اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم کیسے نقوش چھوڑ کر جاتے ہو پس کسی عمل کو انجام دینے سے پہلے کئی بار غور و فکر کر لو کہ کہیں تم کچھ غلط تو نہیں کر رہے ہو۔