Friday, March 31, 2023

ظاہر، باطن اور لوگ

ترکی کے خلیفہ سلطان مراد کی ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯿﺲ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﮔﯿﺮﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ، اس نے ایک رات اپنے ﺳﮑﯿﻮﺭﭨﯽ ﺍﻧﭽﺎﺭﺝ کو کہا کہ ،
ﭼﻠﻮ ﮐﭽﮫ ﻭﻗﺖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ _
ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ گرﺍ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ . ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮨﻼ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﺮﺩﮦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﺎ . ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮐﺮ ﺟﺎﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ .
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ ،
ﺍﺩﮬﺮ ﺁﺅ ﺑﮭﺎﺋﯽ _
ﻟﻮﮒ ﺟﻤﻊ ﮨﻮ ﮔﮱ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻧﮧ ﺳﮑﮯ . ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ؟_
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺁﺩﻣﯽ ﻣﺮﺍ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ . ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ . ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﯿﮟ .
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﺑﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﮯ _
ﺗﻮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺮﺍﺩ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺍﻣﺖ ﻣﺤﻤﺪﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ . ﭼﻠﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﭼﻠﯿﮟ _
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺖ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯼ _
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﯽ ﻻﺵ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﯽ .
ﻟﻮﮒ ﭼﻠﮯ ﮔﮱ _
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﺎ ﺳﮑﯿﻮﺭﭨﯽ ﺍﻧﭽﺎﺭﺝ ﻭﮨﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺭﻭﻧﺎ ﺳﻨﺘﮯ ﺭﮨﮯ .
ﻭﮦ کہہ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ،
ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﻮﮞ ، ﺑﯿﺸﮏ ﺗﻮ ﺍﻟﻠّﻪ ﮐﺎ ﻭﻟﯽ ﮨﮯ . ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮏ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﮯ .
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺮﺍﺩ ﺑﮍﺍ ﻣﺘﻌﺠﺐ ﮨﻮﺍ _ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ . ﻟﻮﮒ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﯿﺖ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ .
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﺗﻮﻗﻊ ﺗﮭﯽ _ ﺍﺻﻞ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﺷﺮﺍﺏ ﺧﺎﻧﮯ ﺟﺎﺗﺎ ، ﺟﺘﻨﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ ﺷﺮﺍﺏ ﺧﺮﯾﺪﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﻻ ﮐﺮ ﮔﮍﮬﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎ ﺩﯾﺘﺎ . ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ﭼﻠﻮ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﻠﮑﺎ ﮨﻮ .
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺑﺮﯼ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺍﺟﺮﺕ ﺩﮮ ﺩﯾﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ، ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﻟﮯ . ﮐﻮﺋﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻧﮧ ﺁﺋﮯ _
ﮔﮭﺮ ﺁﮐﺮ ﮐﮩﺘﺎ ، ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠّﮧ ! ﺁﺝ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﻮﺟﮫ ﮨﻠﮑﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ .
ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺟﮕﮩﻮﮞ ﭘﺮ ﺁﺗﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ _
ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮫ ! ﺟﺲ ﺩﻥ ﺗﻮ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﻏﺴﻞ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺗﺠﮭﮯ ﺩﻓﻨﺎ ﻧﺎ ﮨﮯ _
ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺩﯾﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ، ﮔﮭﺒﺮﺍ ﻣﺖ _ ﺗﻮﺩﯾﮑﮭﮯ ﮔﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ، ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻟﯿﺎ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﮔﮯ .
ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺭﻭ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ : ﻣﯿﮟ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﻮﮞ . ﮐﻞ ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻏﺴﻞ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ . ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯِ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﮐﺮﻭﺍﺋﯿﮟ ﮔﮯ .
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﮐﺜﯿﺮ ﻋﻮﺍﻡ ﻧﮯ ﭘﮍﮬﺎ .
ﺁﺝ ﮨﻢ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﯾﺎ ﻣﺤﺾ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺍﮨﻢ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﯿﺪ ﺟﺎﻥ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺯﺑﺎﻧﯿﮟ ﮔﻮﻧﮕﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ۔۔
منقول

Thursday, March 30, 2023

چڑیا ایک ماں

سمندرکِنارےایک درخت تھا جس پہ چڑیا کا گھونسلا تھا ایک دن تیز ہوا چلی تو چڑیا کا بچہ سمندر میں گرگیا چڑیا بچے کو نکالنے لگی تو اُسکے اپنے پر گیلے ہوگئے اور وہ لڑکھڑا گئی....
 اُس نے سمندر سے کہا اپنی لہر سے میرا بچہ باہر پھنک دے مگر سمندر نہ مانا تو چڑیابولی دیکھ میں تیرا سارا پانی پی جاوُں گی تجھے ریگستان بنا دونگی... سمندراپنے غرور میں گرجا کہ اے چڑیا میں چاہوں تو ساری دنیا کو غرق کردوں تو تو میرا کیا بگاڑ سکتی ہے؟
 چڑیا نے اتنا سُنا تو بولی چل پھرخشک ہونے کو تیار ہوجا اسی کےساتھ اُس نےایک گھونٹ بھرا اُوراڑ کےدرخت پہ بیٹھی پھرآئی گھونٹ بھراپھردرخت پہ بیٹھی یہی عمل اُس نے7-8 بار دُھرایا تو سمندر گھبرا کے بولا: پاگل ہوگئی ہےکیا کیوں مجھےختم کرنےلگی ہے ؟ مگرچڑیااپنی دھن میں یہ عمل بار بار کر رہی تھی سمندرنےایک زور کی لہرماری اورچڑیا کے بچے کو باہر پھینک دیا ...
 درخت جو کافی دیر سے یہ سب دیکھ رہا تھا سمندرسےبولا اے طاقت کےبادشاہ تو جو ساری دُنیا کو پل بھر میں غرق کر سکتا ہےاس کمزور سی چڑیا سےڈرگیا یہ سمجھ نہیں آئی ؟
 سمندربولا تو کیا سجھا میں جو تجھےایک پل میں اُکھاڑ سکتاہوں اک پل میں دُنیا تباہ کرسکتا ہوں اس چڑیاسے ڈرونگا؟
 نہیں میں تواس ایک ماں سےڈرا ہوں ماں کےجذبے سے ڈرا ہوں اک ماں کے سامنے توعرش ہل جاتا ہے تو میری کیا مجال.. جس طرح وہ مجھےپی رہی تھی مجھےلگا کہ وہ مجھےریگستان بنا ہی دےگی....
ماں " اللہ پاک " کی سب سے عظیم
نعمت ہے .. اس کی قدر کریں ..
اللہ پاک سے دعاء ہے کہ وہ ھمیں
اپنے والدین کی خدمت کی توفیق
 عطاء فرمائے ( آمین )

بیٹیوں کے والدین کے لیے سبق

اپنی بیٹیوں کو درج ذیل باتیں سکھائیے ۔
1۔سیڑھی پر اس وقت مت چڑھو جب آپ کے پیچھے کوٸی مرد بھی سیڑھی چڑھ رہا ہو بلکہ سیڑھی کے کسی ایک زاویہ پر رک جاٶ اور اس کے بعد چڑھیے۔
_____
2۔لفٹ پر کسی اجنبی مرد کی موجودگی میں مت چڑھو ہو اس کے نکلنے کا انتظار کرو اور بعد میں چڑھیے ۔
_____
3۔اپنے چچا،ماموں ،خالہ کے بیٹوں سے ہاتھ کے ساتھ مصافحہ مت کیجیے۔
_____
4۔اپنے ساتھ گفتگو کرنے والے شخص کےساتھ ہمیشہ مناسب فاصلہ رکھیے۔
_____
5۔ہمیشہ کسی کے ساتھ معاملہ کرنے کی حد مقرر کریں، چاہے وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو، اور اپنے وقار کا خیال رکھیے۔
_____

6- سڑک پر اپنے دوستوں کے ساتھ مذاق نہ کریں اور سڑک کے آداب کا خیال رکھیے۔
_____
7- جب کوٸی ملنے آٸے تو اسے توجہ دو ، بڑے کے احترام میں کھڑے ہو جاٶ اور تھکے ماندے اور بوڑھے کو بیٹھنے کے لیے کرسی دیجیے
___________
8-گلی محلہ کے سبھی مرد باپ کے سوا اجنبی ہوتے ہیں، اس لیے ان سے بلاضرورت بات نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ ہراساں کرنے والے ذہنی مریض ہوتے ہیں، چاہے وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔
________
9-جب آپ زمین سے کوئی چیز اٹھانے کے لیے نیچے جھکیں یا کسی دکان، بازار یا عوامی جگہ پر کوئی چیز دیکھیں تو رکوع کی حالت میں مت جھکو.. کوشش کرو بیٹھ کر چیز دیکھو .. پھر کھڑے ہو جائیں.. تاکہ آپ کا پردہ یعنی ستر یا جسم پیچھے سے بے نقاب نہ ہو۔
________
10-اپنی پوری زندگی بس یا ٹیکسی میں بلند آواز سے باتیں مت کیجیے۔۔۔!!
سبھی بیٹوں, لڑکوں, مردوں کے لیے بھی یہی سب باتیں اور آداب 'ضرور' کرنے والے ہیں۔

میں ایک پاکستانی

وہ پاکستان جو گندم کی پیداوار میں 7واں بڑا ملک ہے۔ 

یہ میری وہ کتابیں ہیں جو آج تک مجھ سے جدا نہیں ہوئی۔ کلاس نہم سے لیکر ماسٹر تک سارا نصاب ابھی تک موجود ہے۔ لیکن زندگی نے جو سبق دیا وہ ان میں سےکسی کتاب میں نہیں۔ جو ان کتابوں میں پڑھا ایسا کچھ بھی میری زندگی میں نہیں۔ نہ قائد اعظم کے چودہ نکات۔ نہ اکبر بادشاہ۔ نہ الجبرا۔ نہ مسٹر چپس۔ نہ سطح مرتفع پوٹھوہار۔ نہ ہی وہ پاکستان جو گندم کی پیداوار میں ساتواں خود کفیل ملک ہے۔
 مجھے پیسے کمانے کا طریقہ تو بتایا نہ گیا۔ بس فوٹو سنتھسیز کا عمل پڑھاتے رہے۔ سارا دن کمسٹری کے فارمولے کو رٹہ لگواتے رہے۔ حالانکہ ہر چیز بنی بنائی ملتی ہے وہ بھی پیسوں سے۔ تو پیسہ کمانا تو کسی ماسٹر نے نہیں 
سکھایا۔ 
بیالوجی کی کتنی شاخی ہیں اگر یاد نہ ہوا تو فیل۔ لیکن میرے سے کتنے لوگوں کی امیدیں وابسطہ ہیں یہ کہیں نہیں لکھا۔
تمام helping verb یاد ہیں مجھے لیکن helping work کوئی بھی یاد نہیں۔
مجھے my father مضمون آج بھی یاد ہے۔ لیکن father خوش کیسے رہتا ہے یہ نہیں پتا۔
میں نے پڑھا ہے کہ پاکستان میں نمک کی اپنے بڑے بڑے پہاڑ ہیں۔ لیکن مجھے اپنے اس پہاڑ کا ایک چھوٹا سا پتھر 100 روپے میں ملتا ہے۔ 
سوچنے لگا کہ اپنے اساتذہ سے پوچھو کہ آپ نے جو پڑھایا وہ صحیح تھا۔ جب استاد کا دروازاہ کھٹکھٹایا تو آواز آئی کہ وہ مردم شماری کے لئے گئے ہیں۔ دوسرے استاد کا پتا کیا تو معلوم ہوا کہ وہ سکول کے بعد ڈینگی مہم کی میٹنگ میں ہیں۔ تیسرے استاد کا کی طرف گیا وہ پولیوں ۔ یعنی میرے استادوں کو اصل مقصد سے ہٹا کر دوسرے کاموں میں لگا دیا۔ پھر ایک استاد یاد آیا کہ وہ اس وقت گھر ہوں گے۔ انکے گھر پہنچا تومعلوم ہوا کہ 3 گھنٹے ہو گئے وہ آٹا لینے گئے واپس نہیں آئے۔  
پھر مجھے سمجھ آگیا کہ کچھ بھی نہیں ان کتابوں میں جو مجھے 3 وقت عزت کی روٹی دے سکے۔ اتنی کتابیں پڑھنے کا کیا فائدہ ہوا اگر مزدوری ہی کرنی تھی۔ 
آخر میں تلخ بات یہ کہ کتابیں مجھے اتنا بھی نہ سکھا سکی کہ جو کتابیں پڑھ کے میں زمانے میں معتبر ٹھہرا۔ لوگ مجھے پڑھا لکھا کہتے ہیں ۔ انہیں کتابوں پہ تبصرا کرنے لگ گیا۔ بندہ زیرک تو کتنا پاگل ہے۔ایک ایک لیکچر کے ہزاروں روپے دئیے۔ فیسیں جمع کروائی۔ داخلے جمع کروائیں۔ راتوں کو جاگ جاگ کر مشقیں لکھیں ۔ ایک ایک کتاب سینکڑوں ہزاروں میں خرید کر پڑھی تھی۔ اج ردی میں اسکا صرف 900 روپے ریٹ لگا۔ بہت دکھ ہوا مجھے کہ اتنا مہنگا علم اتنے سستے میں کیسے بیچ سکتا ہوں۔ لیکن کیا کرتا روٹی کمانا تو سیکھایا ہی نہیں گیا۔ 
پھر یوں ہوا کہ وہ ساری کتابیں 900 میں بیچ کر اپنے پاس سے 250 روپے ڈال کر 10 کلو آٹے کا تھیلا لے کر گھر آگیا۔

ہزاروں ڈگریاں لے کر، علم پر دسترس پا کر
چھلکتے لفظ آنکھوں سے ، نہ پڑھ پاؤ تو جاہل ہو۔💔

منتخب

Wednesday, March 29, 2023

ہمسائے

ایک عورت نے ہمسائیوں کے دروازے پر دستک دی اور ان سے نمک مانگ لیا، اسکا بیٹا یہ منظر دیکھ رہا تھا کہنے لگا "امی جی! ابھی کل ہی تو میں نمک بازار سے لے آیا تھا پھر یہ ہمسائیوں سے مانگنے کی کیا ضرورت تھی؟"
ماں جی کہنے لگی، "بیٹا! ہمارے ہمسائے غریب ہیں وہ وقتاً فوقتاً ہم سے کچھ نہ کچھ مانگتے رہتے ہیں مجھے معلوم ہے کہ ہمارے کچن میں نمک موجود ہے لیکن میں نے ان سے نمک صرف اس لئے مانگ لیا تاکہ وہ ہم سے کچھ مانگتے ہوئے ہچکچاہٹ اور شرمندگی محسوس نہ کریں، بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ ہمسائیوں سے حسب ضرورت چیزیں مانگی جا سکتی ہیں، یہ ہمسائیوں کے حقوق میں سے ہے۔"
🌹خوبصورت معاشرے ایسی ہی ماؤں سے تشکیل پاتے ہیں۔ 

گدھوں میں شیر اور شیروں میں گدھا



. . . . . جنگل میں طویل معرکے کے بعد شیروں نے گدھے کا بچہ شکار کر لیا۔
گدھے کا بچہ کافی حد تک زخمی تھا تو شیروں میں سے ایک بزرگ شیر نے کہا: اسے مزید مارنے یا کھانے کے بجائے اسے اپنے پاس رکھ کر پال پوس کر بڑا کرنا زیادہ فائدہ مند ہے۔
 بوڑھے شیر کی بات مان کر شیروں نے اس گدھے کو گود لے لیا اور اس کا ہر طرح سے خیال رکھا حَتّیٰ کہ وہ شیروں کا وفادار گدھا بن گیا۔
ایک دن اسی بزرگ شیر نے کہا ،اب وقت آگیا ہے کہ اس گدھے کو واپس اس کی برادری میں چھوڑ دیا جائے۔

 شیروں نے ایسا ہی کیا اور اس وفادار گدھے کو اپنی ہمراہی میں لے جا کر گدھا برادری کے سپرد کردیا اور کہا یہ گدھا تم میں سے باقی گدھوں سے ممتاز ہے کیونکہ یہ ہمارا حمایت یافتہ گدھا ہے۔
 گدھوں نے فورًا اس گدھے کو اپنا سردار مان لیا اور شیروں کی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے اس کے ہر حکم کی تعمیل کرتے اور نافرمانی سے ڈرتے رہتے۔

کیونکہ جو بھی گدھا اس سردار گدھے کی حکم عدولی کرتا تو سردار گدھا اس نافرمان گدھے کو گرفتار کرکے شیروں کے حوالے کر دیتا اور وہ اس نافرمان کو چیر پھاڑ کر کھا جاتے تھے۔

 اس طرح گدھوں کو سردار مل گیا اور شیروں کو شکار کی پریشانی سے نجات مل گئی۔

 جہاں تک بات ہے اس سردار گدھے کی تو وہ گدھوں کے نزدیک شیر تھا اور شیروں کے درمیان گدھا تھا۔

کہانی کے مصنف کو نامعلوم تصور کیا جائے۔
توقیر بُھملہ

Monday, March 27, 2023

5G کا دور

چالیس سال قبل  گاؤں کے ہر گھر میں ایسا ہی برانڈڈ  کچن ہوا کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ سماج میں کلاس سسٹم کا نام و نشان نہیں تھا  
دھرتی  سے سالانہ اتنا غلہ اگتا تھا کہ کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا 
خواہشوں کا زور نہیں تھا ۔۔۔ سادگی کا زمانہ تھا  
پڑوس میں  سالن کی پلیٹ بھیجنا  احسان نہیں  بلکہ سماجی رسم تھی ۔۔۔۔۔ 
چھوٹے   گھروں میں بڑے دل والے لوگ رہتے تھے ۔۔۔
مٹی کے گھر  تھے ۔۔۔ مٹی کے برتن تھے  
مٹی کے  انسان کتنے سکون سے جیتے  تھے ۔۔۔۔  
کچن  کا ذائقہ تھا یا مٹی کی برکت  ۔۔۔ 
نہ حرص ۔۔ نہ لالچ اور نہ ہی پوری عمر کی جھوٹی مقابلہ بازی ۔
مٹی کے کچن سے پل کر بڑا ہونے والے  طبقاتی نظام کے درد کو خوب جانتے ہیں ۔۔۔۔ 
اب  ہم نے ترقی کر لی  ہے  ۔۔۔   فائیو جی  کا زمانہ ہے 
دوسروں کے دکھ درد سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اپنے اپنے کمرے میں اپنی  موج سے رہتے ہیں ۔۔۔ 
اور اپنی نیند کی گولی کھا کر سوتے ہیں۔