Monday, November 14, 2022

ہم بحیثیت مسلم قوم اور ہمارا میڈیا

"قوموں کی ترجیحات انکے عروج و زوال کا پتا دیتی ہیں"
اگر آپ کا ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے دوران برائے راست میچ دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے تو ایک چیز ضرور آپ کی توجہ کا مرکز بنی ہو گی۔ #ٹی_وی_کمرشل_ایڈز
اگر آپ نے نوٹ نہیں کیا تو کل فائنل میچ میں دونوں طرف کے ایڈز دیکھ لیجئیے گا۔ میں بھی آپ کو آئینہ دکھاتا ہوں؛
انڈین چینلز پر جو ایڈز آپ کو دیکھنے کو ملتے ہیں ان میں زیادہ تر کسی کارآمد ایپ، لائف انشورنس، تعلیم و تدریس، کرپٹو کرنسی، ٹیکنالوجی سے متعلق ہوتے ہیں جبکہ اگر آپ کسی پاکستانی چینل پر میچ دیکھ رہے ہوتے ہیں تو آپ کو ہئیر ریموونگ اور رنگ چِٹا کرنے والی کریمز اور صابن، چائے پتی، بسکٹس، ببل گمز، عشاق کے لئے کال و انٹرنیٹ پیکیجز، ڈیٹرجینٹس وغیرہ اور وہ بھی اتنے بھونڈے کہ جن میں اگر پراڈکٹ کا نام دکھایا یا لیا نہ جائے تو آپ کبھی جان ہی نہ پائیں کہ مدعا کیا ہے۔ کہیں ننگی رانیں دکھائی جاتی ہیں تو کہیں چھاتیوں کے ابھار، کہیں مخلوط ڈانس تو کہیں عاشقی کی ٹیوشن دی جا رہی ہوتی ہے۔ ایک اور چیز بھی آپ نوٹ کریں گے کہ جیسے ہی کمرشل بریک ہوتی ہے تو والیم خود بخود اونچا ہو جاتا ہے تا کہ اگر غلطی سے آپ کی آنکھ لگ گئی ہے تو آپ جاگ جائیں کہ کہیں آپ اس سعادت کو دیکھنے سے محروم نہ رہ جائیں۔
جناب عالی و صد احترام میرے دیش واسیو! ہم نے جب سے زوال کی شاہراہ پہ چلنا شروع کیا ہے تب سے پیچھے دیکھے بنا آگے ہی بڑھے چلے جا رہے ہیں۔ کبھی ایک منٹ کے لئے بھی ہمیں نہیں لگا کہ ہم راستہ بھول گئے ہوں۔ ہم نے جب سے لوہے کو سونا بنانے پر تجربات شروع کئے تھے، تب سے آج تک ہم وہی تجربات کئیے جا رہے ہیں اور انہی کی کامیابی کی دعائیں کئیے جا رہے ہیں۔ ہم لاہور جانے والی بس پر بیٹھے ہوئے ہیں اور دعائیں کئیے جا رہے ہیں کہ یا اللہ ہمیں پنڈی پہنچا دے۔ دعا کی قبولیت تدبیر سے مشروط ہے۔ سعی صرف کوشش کا نام نہیں بلکہ سب سے پہلے درست رویئے اور نیت کا نام ہے۔ پہلے صحیح بس پہ بیٹھئیے اور پھر منزل پر بخیریت پہنچنے کی دعا و التجا کیجئیے۔
دکھایا وہ جاتا ہے جس کی طلب ہو اور جو بکتا ہے۔ یہی ہماری قوم کی ڈیمانڈ ہے۔ ان کمرشل ایڈز میں بہت جان ہوتی ہے۔ اگر کچھ اچھا دکھایا جائے تو شاید اس کی ڈیمانڈ بھی بننے لگے اور کچھ اچھا بکنے لگے۔
لیکن اگر آپ کی ترجیح اپنی ہوس کی تسکین، پیسہ اور انٹرٹینمنٹ ہے تو لگے رہو .

بھنا ہوا مرغا

ہمیں بچپن سے سکھایا گیا کہ جھوٹ مت بولو اور جو دل میں ہو وہی کہو۔ ابا میاں نے تربیت ہی ایسی کی تھی۔ سکول جانے لگے۔ ایک دن لائیو اسٹاک کی کلاس میں استانی جی نے پوچھا، "آپ کو کون سا جانور پسند ہے؟"
"بھنا ہوا مرغا"، ہم نے دل کی آواز کو سچ کی زبان دی۔ استانی جی نے غصیلی نظروں سے ہمیں دیکھا، کالر سے پکڑا اور پرنسپل صاحب کے پاس لے گئیں۔
پرنسپل صاحب نے پوری بات سنی، ہم سے استفسار فرمایا اور ہمارا مدعا بغور سماعت فرمانے کے بعد خوب کھل کر ہنسے۔ ہمیں آئیندہ ایسا نہ کہنے کی تنبیہہ کر کے رخصت فرمایا۔ اس تمام واقعہ پر ہماری حیرانی بدستور موجود تھی۔ گھر آ کر ابا میاں کو تمام واردات سے تفصیلاً آگاہ کیا۔ وہ بھی بہت ہنسے اور ہمیں آئیندہ ایسی بات نہ کرنے کی نصیحت کی۔
ہم زمانے کے اس دوغلے پن کو سمجھ تو نہ سکے تاہم دل ہی دل میں آئیندہ ایسی بات نہ کرنے کا عہد کیا۔
اگلے دن استانی جی نے دوبارہ وہی سوال دہرایا۔
"زندہ مرغا" ہمارا جواب سن کر خوش ہوئیں اور اگلا سوال پوچھا، "کیوں؟"
"تا کہ اسے بھون سکیں"، ہمارا فطری جواب تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم دوبارہ پرنسپل صاحب کے رو بہ رو پیش کر دیے گئے۔ وہ پھر ہنسے آور آئیندہ ایسا نہ کہنے کی نصیحت کر کے رہا کر دیا۔
استانی جی نے اگلے دن پھر وہی سوال دہرایا۔
"زندہ مرغا"، ہم نے اطمنان کے ساتھ جواب دیا۔
"کیوں؟"
"تا کہ اس کی افزائشِ نسل کر سکیں"، ہم اعتماد سے بولے۔ خوشی کی ایک لہر ان کے چہرے پر دوڑتی ہوئی نظر آئی۔
"کیوں؟" اگلا سوال۔
"تا کہ ہمارے پاس پیارے پیارے چوزے ہوں"، ہمارا اعتماد بحال رہا۔
"ان کا کیا کرو گے؟" ان کے لہجے میں فتح کا تاثر تھا۔
"ان کی پرورش کریں گے تا کہ وہ سب صحت مند مرغے بن جائیں"، ہمیں محسوس ہوا ہمارا اندازِ گفتگو انتہائی پیشہ ورانہ تھا۔
"کیوں؟" استانی جی نے اپنا تکیہ کلام جاری کیا۔
"تا کہ ان سب کو بھون سکیں"، نہ چاہتے ہوئے بھی ہماری زبان سے یہ فقرہ پھسل گیا۔
اگلے دن پھر ہمیں پرنسپل کے سامنے پیش کیا گیا
لیکن
ایک نئے سکول میں
😂😂😂😂

Saturday, November 5, 2022

غلیظ ترین کھانا

میرا ایک فوتگی والے گھر جانا ھوا، کیا دیکھتا ھوں کہ ایک لڑکا بہت ہی زیادہ رو رہا ھے 
معلوم کرنے پہ پتہ چلا کہ جو فوت ہوئیں ہیں وہ رونے والے کی والدہ تھیں 
میں ھکا بکا ایک طرف کھڑا ہو کے سوچنے لگا کہ بھرپور جوانی کے وقت اتنا بے رحم دکھ اس نوجوان کو آدھا کر دے گا 
مجھ سے اس کا رونا دیکھا ہی نہیں جا رہا تھا ، اس کی چیخیں لگتا تھا قیامت لے آئیں گی 
وہ اکلوتا بیٹا تھا اپنے ماں باپ کا 

اچانک ایک بھائی صاحب آگے آتے ہیں وہ اس سے کھانے کا مینیو پوچھتے ہیں 
میں حیران ہو جاتا ھوں کہ اس حالت میں وہ کھانا کیسے کھا سکتا ھے ،اس سے تو صحیح سے بولا بھی نہیں جا رہا 
بعد میں پتہ چلا کہ وہ ان لوگوں کے کھانے کی بات کر رہے تھے جنہوں نے گھر افسوس کرنے آنا ھے 

یہ ھو کیا رہا ھے ،یہ چل کیا رہا ھے 
ان کے گھر کوئی شادی یا سالگرہ کا فنکشن نہیں ھے بلکہ ایک لڑکے کی جنت اسے چھوڑ کے چلی گئی ھے 
بجائے اس چیز کے کہ ہم اس گھر کا حوصلہ بنیں اس گھر کے دکھ میں شریک ھو جائیں الٹا وہ لوگ ہماری گندی اور کبھی نہ مٹنے والی بھوک کا بندو بست کرنے میں لگ گے ہیں 
کیا ہم اس قدر بے حس اور گھٹیا قوم ہیں کہ میت والے گھر بھی کھانا پینا نہیں چھوڑتے 

اور پھر جنازے کہ بعد گھناونا کھیل شروع ھوا ایک ایسا کھیل جسے دیکھ کے کسی غیرت مند کو موت آ جائے مگر ہمیں نہیں آتی 

وہی لڑکا جس کی دنیا لٹ گئی برباد ھو گئی ہاں ہاں وہی لڑکا روتی آنکھوں کے ساتھ ان بھوکی ننگی زندہ لاشوں ،جن کی عقلوں پہ ماتم کرنا چاہیے ان کو کھانا دے رہا ھے کیا ان کو شرم نہیں آتی کیوں یہ غیرت سے مر نہیں جاتے 
 
پھر میرے کانوں نے سنا کہ ایک آدمی نے اسی لڑکے کو آواز دے کے کہا کہ بھائی یہ پلیٹ میں لیگ پیس ڈال کے لانا 
اف میرے خدا یہ کون لوگ ہیں جن کے پیٹ نہیں بھرتے ،ایسے لوگ دنیا میں ہی کیوں ہیں یہ مر کیوں نہیں جاتے 
شرم نہی آتی اسی سے لیگ پیس مانگتے جس کی ماں مر گئی ھے 
بجائے اس کے کہ تمہارا ہاتھ اس کے کندھے پہ ھو اور حوصلہ دے رہا ھو ، تمہارا ہاتھ لیگ پیس کو پڑ رہا ھے 

کسی دانا آدمی کا قول یاد آ گیا کہ 
''سب سے غلیظ ترین کھانا وہ ھے جو ہم میت والے گھر سے کھاتے ہیں ''

ہمیں ترس یا رحم نہیں آتا یہ دیکھ کے بھی کہ لوگ روتے ھوۓ کھانا بانٹ رہے ہیں 

میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو میت والے گھر سے ناراض ھو کے چلے جاتے ہیں کہ ہمیں کھانا نہیں دیا ،ہمیں کھانا نہیں پوچھا کسی نے 
یہی گھٹیا لوگ کھا کھا کے پھر گندی ڈکاریں مارتے ہیں اور اسی میت والے گھر ہنستے بھی ہیں، تمیز تہذیب کی سبھی حدیں ان لوگوں نے پار کی ہوتی ہیں 
ان کو کسی سے کوئی سرو کار نہیں ھے انہیں مطلب ھے تو بس لیگ پیس سے 

میں ہاتھ جوڑتا ھوں کہ خدا کے لئے میت والے گھر کا حوصلہ بنیں ،ان کے غم میں شریک ہوں ،رونا نہیں آتا تو رونے والا منہ بنا لیں 

اللہ ہم سب کو نیک عمل کرنے کی توفیق دے 
آمین ،

Wednesday, November 2, 2022

روح کا وزن

لاس اینجلس کے ڈاکٹر ابراہام نے انسانی روح کا وزن معلوم کرنے کے لئیے نزع کے شکار لوگوں پر پانج سال میں بارہ سو تجربے کیے.
اس سلسلے میں اس نے شیشے کے باکس کا ایک انتھائی حساس 
ترازو بنایا، وہ مریض کو اس ترازو پر لٹاتا‏مریض کی پھیپھڑوں کی آکسیجن کا وزن کرتا، ان کے جسم کا وزن کرتا ہے اور اس کے مرنے کا انتظار کرتا ہے مرنے کے فوراً بعد اس کا وزن نوٹ کرتا ہے۔

ڈاکٹر ابراہام نے سینکڑوں تجربات کے بعد اعلان کیا کہ 
"انسانی روح کا وزن 21 گرام ہے"
ابراہام کا کہنا تھا کہ انسانی روح‏اس 21 گرام آکسیجن کا نام ہے جو پھیپھڑوں کے کونوں، کھدروں،درزوں اور لکیروں میں چھپی رہتی ہے،موت ہچکی کی صورت میں انسانی جسم پر وار کرتی ہے اور پھیپھڑوں کی تہوں میں چھپی اس 21 گرام آکسیجن کو باہر دھکیل دیتی ہے اس کے بعد انسانی جسم کے سارے سیل مر جاتے ہیں اور انسان فوت ہوجاتا ہےیہ ھے ہماری اور آپ کی اوقات
لیکن ہم بھی کیا لوگ ہیں، 21 گرام کےانسان خود کو کھربوں ٹن وزنی کائنات کا خدا سمجھتے ہیں.

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر روح کا وزن 21 گرام ہے تو ان 21 گراموں میں ہماری خواھشوں کا وزن کتنا ہے؟
 اس میں ہماری نفرتیں، لالچ، ہیراپھیری، چالاکی، سازشیں
 ہماری گردن کی اکڑ، ہمارے لہجے کے غرور کا وزن کتنا ھے؟قرآن کریم کے مطابق روح امر ربی ہے اور اس وزن نہیں کیونکہ یہ مادی نہیں اسکا تعلق عالم امر سے ہے
خود سوچئے کیا کسی سوچ ۔خیال کا کوئ وزن ہو سکتا ہے 
21 گرام روح کا نہیں اس آکسیجن کا وزن ہے جو جسم انسانی میں اسوقت موجود ہو گی امر کا لعدم ہوا تو آکسیجن بھی معطل  
_________________
(واللہ اعلم بالصواب)

پری زاد اور ہم

ٹی وی پر چلنے والا ڈرامہ ”پری زاد“ صرف ڈرامہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا حقیقی چہرہ تھا۔ پری زاد ڈرامے کا ایک ڈائیلاگ مجھے حقیقت پہ مبنی لگا۔ ڈرامے کے ہیرو پری زاد سے ایک امیر کبیر خاتون کہتی ہے!
”سنو لڑکے یہ چہرہ، صورت ، شخصیت ہیں ناں یہ سب لوئر مڈل کلاس کے مسائل ہوتے ہیں۔ مرد کی صورت شخصیت اور وقار سب اس کے پیسے سے ہوتا ہے۔ جاو اس بے رحم دنیا میں جاو اور اپنے حصے کی دولت سمیٹ لو۔ خود کو اتنا امیر کرو یہ جو تمہاری شخصیت کے عیب ہیں ناں دنیا کو سٹائل لگنے لگیں۔ اور ہاں چھوڑو یہ شاعری واعری یہ سب بھرے پیٹ کے چونچلے ہیں۔ غریب کی شاعری دنیا کو فضول لگتی ہے اور مرد اگر امیر ہوتو دنیا کو اس کی گالی بھی شاعری لگنے لگتی ہے۔

راز محبت

"جب اشیاء کی افراط ہو جائے تو ان کی خاصیت میں ان کی ضد کا ظہور ہوتا ہے ؛ اللہ کی قدرت کی یہ بڑی عجیب بات ہے جس میں اہل عقل کی سوچیں گمراہ ہو گئی ہیں ؛ مثلاً جب برف کو کافی دیر تک جسم پر رکھا جائے تو وہ آگ کی طرح جلانے لگتی ہے ؛ فرحت کا زیادہ ہونا بھی انسان کو تباہ کر دیتا ہے جیسے کہ غموں کا انبار اسے مار ڈالتا ہے ؛ اسی طرح جب ہنسنے میں شدت آ جائے تو آنکھ سے رونے کی طرح آنسو بہنے لگتے ہیں ؛ بالکل اسی طرز پر آپ دو محبت کرنے والوں کو دیکھو گے کہ جب ان کی مصاحبت گہری اور ان کی محبت کامل ہو جائے تو وہ اکثر بے معنی باتوں پر لڑ پڑتے ہیں ۔ ان میں سے ایک ؛ جان بوجھ کر دوسرے کی بات سے اختلاف کرتا ہے اور اس کی رائے کے برعکس بیان دیتا ہے ۔عام اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی ان کا تضاد رہتا ہے ۔ اگر ایک کوئی بات کہے تو دوسرا اس کے لفظوں کی بعید تاویل کر کے ناراض ہو بیٹھتا ہے۔
لیکن اس محبت والی ناراضگی اور بغض و نفرت کی ناراضگی میں سب سے بڑا فرق جھگڑے کے بعد بہت جلد راضی ہونا ہے؛ آپ دیکھیں گے کہ دو اہل محبت کا کسی بات میں اختلاف حد کو جا پہنچا ہے اور ان کی اس ناراضگی پر انسانی فطرت کا انداز بھی یہی کہہ رہا ہو گا کہ ایک لمبی مدت تک ان کی صلح اور محبت بحال نہ ہو گی ، مگر پھر چند ہی ساعتوں میں آپ ایک عجب مشاہدہ کریں گے کہ سب کچھ بھول کر وہ دونوں تو پہلے سے زیادہ الفت سے آراستہ موجود ہیں۔ ایک ہی وقت میں ان کی صحبت پہلے جیسی خوبصورت ہے اور وہ لطیف نظروں کے اشارے لیے باہم پیار سے ہنس رہے ہیں؛(جیسے کہ کبھی ایک دوجے سے روٹھے ہی نہیں )
اگر کبھی تو دو انسانوں میں ایسا انداز دیکھے تو تجھے ہر گز کوئی شک اور وہم نہیں رہنا چاہیے کہ ان دونوں کے دلوں میں راز محبت دفن ہے جس سے وہ کبھی جدا ہونے والے نہیں!"

____امام ابن حزم رحمه الله تعالى/طوق الحمامة❤

بچے اور غائبانہ منشیات

چھ دن سے میرے کزن کی بیٹی اسپتال میں داخل تھی۔ اسکی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ پتہ چلا کہ چیختی ہے چلاتی ہے اور کاٹتی ہے۔ 
بارہ سال کی بچی ہے۔ مجھے پتہ چلا تو دیکھنے اسپتال گیا۔ بچی کی ٹانگیں اور ہاتھ باندھے ہوئے تھے اور وہ تڑپ رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب سے ملا تو بولے ہیسٹیریا ہے۔ باپ سے پوچھا تو کہنے لگے اس کو سایہ ہو گیا ہے۔ والدہ نے کہا اسکی پھوپھو نے جادو کروا دیا ہے۔ ۔!!!
جتنے منہ اتنی باتیں۔ میں نے بچی کے پاس جا کر اسے پیار کیا اور پانی پلایا۔ وہ بیقرار تھی۔ کہتی ہے مجھے گول گپے کھانے ہیں۔ !!!
ڈاکٹر صاحب نے منع کیا ہے کہ اس کو کوئی چیز بازار سے نہیں دینی ۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔ میں نے پوچھا کہ بچی کی یہ حالت کب سے ہے۔ !!والدہ نے بتایا کہ چھٹیوں کے آخری بیس ایام اپنی پھوپھو کے گھر گئی تھی۔ وہاں سے جب واپس آئی ہے طبیعت ناساز ہے۔ چڑچڑی ہوگئی ہے۔ باہر نکل نکل کر بھاگتی ہے۔ کہتی ہے کہ گول گپے کھانے ہیں وہ بھی لا کر دئیے پر پسند نہیں آتے پھینک دیتی ہے۔ چیختی ہے چلاتی ہے۔ 
میں نے لڑکی سے تنہائی میں بات کرنے کی اجازت چاہی جو مل گئی۔میں نے بچی کے ہاتھ پاؤں کھولے اور ٹیرس پر لے گیا، اسے پانی پلایا میں نے کہا مجھے اپنا دوست سمجھو جو کچھ ہم میں بات ہوگی وہ راز رہے گی۔ میں نے قسم کھائی۔ لڑکی کو کچھ حوصلہ ہوا تو کہنے لگی ۔!!
آپ اپنی ماں کی قسم کھائیں کہ کسی کو نہیں بتائیں گے، کہنے لگی پھوپھو کے محلے میں ایک گول گپے والا ہے جس کے گول گپے مجھے بہت پسند ہیں۔ 
میرا کزن اور میں ہم دونوں وہ کھانے کیلئے جاتے تھے میں جب سے واپس لوٹی ہوں دل بہت بیقرار رہتا ہے اور جسم میں جیسے کچھ جل سا رہا ہے۔ میں نے اس سے اس کی پھوپھو کا نمبر لیا اور اس کو یقین دلایا کہ میں جو کچھ بھی کر سکا ضرور کروں گا۔
اگلے روز میں اس کی پھوپھو کے گھر گیا۔ رشتے دار تھے میری بہت عزت کی۔ میں نے اس کے بیٹے کے ساتھ سے بازار تک ساتھ چلنے کو کہا ۔ہم پیدل ہی شام کو گھر سے نکلے، باتوں باتوں میں نے لڑکی کے حوالے سے گول گپوں کی تعریف کی اور یوں ہم اس دکان کے کیبن میں پہنچ گئے۔ 
گول گپے منگوائے گئے اور کھائے بھی۔ بہت مزے دار تھے۔ الگ سا ذائقہ تھا۔ خیر میں نے کچھ پیک کروا لئیے اور ساتھ لے آیا۔ رات کو واپس شہر آیا اور وہ گول گپے ایک دوست کی لیب والے کو دیئے کہ اس کو چیک کردے۔ منشیات والے ادارے کو بھی ایک سیمپل دیا۔ 
اگلے دن رپورٹ آئی تو میں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا،رپورٹ میں پتہ چلا کہ مصالحہ جات میں ہیروئن ملائی گئی ہے۔ میرا ایک لمحے کیلئے دم بند سا ہو گیا۔ 
میں نے فوراًاینٹی نارکوٹکس سے رابطہ کیا اور اس گول گپے والے کی دکان پر ریڈ کیاتو وہاں سے شراب، ہیروئن اور چرس برآمد ہوئی۔ یہ باقاعدہ ایک منشیات کا اڈہ تھا اور گول گپے والا اپنے گول گپوں میں ہیروئن گھول کر کھلا رہا تھا۔ جو لگ گئے وہ یہاں سے ہٹ نہیں سکتے تھے۔
 ان کو پکڑوا کر بچی کی طرف لوٹا اور ڈاکٹر صاحب کو اعتماد میں لے کر بچی کو ترک منشیات کے ادارے میں داخل کروا کر علاج کروایا۔
یہ ایک سچا واقعہ تھا۔۔ اب آئیں اصل مسئلے پر۔۔ اور وہ یہ ہے کہ ہمارے بچوں کے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے۔ 
اسکولوں کے باہر ریہڑیوں پر اور اسکول کالجوں کی کینٹینوں پر محلے میں پھرتے رہڑی والے ہمارے بچوں کے ساتھ کیا کچھ کر رہے ہیں ۔ہمارے بچے اب نشوں پر لگ چکے ہیں اور ہمیں معلوم ہی نہیں۔ ہم بحیثیت مجموعی اپنی اولادوں سے غافل ہیں۔

میں نے بھی بلیو ایریا سے ایک ٹھیلے سے چائے پی تو مجھے بہت سکون محسوس ہوا. میں اگلے دن نمل سے پھر چائے پینے چلاگیا.مجھے مجھے احساس ہی نہیں رہا کہ میں تین ماہ تک چائے پیتا رہا پھر ایک رات نیوز دیکھی کہ مطلوبہ ٹھیلہ جس میں چائے پیتا تھا اس کو سیکیورٹی والوں نے دھر لیا ہے وہ چائے میں ڈوڈے وغیرہ ڈالتے تھے.. وہ لوگ اپنے منافع کے لئے لوگوں کی جان کھیل جاتے ہیں اللہ کریم انھیں ہدایت دے!
حکومت بے خبر ہے تو والدین اور اساتذہ کو جاگنا ہوگا۔ ان تک اپنے بچوں کو نہ جانے دیں۔ یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں ،گول گپے والاتو گول گپے بیچ جائے گا مگر ہماری پوری نسل نشہ آور بن کر تباہ ہو جائے گی۔۔!!!
جاگتے رہیں ورنہ سب کچھ سو جائے گا۔۔
#copied

Tuesday, November 1, 2022

چرس اور حکمران

ایک ٹرک ڈرائیوراپنے شاگرد کے ساتھ ایک ہوٹل پر رکا کھانا کھایا اور دو چرس کے سگریٹ پئے اور شاگرد کو بولا کہ چل تو بھی کیا یاد کرے گا آج ٹرک تم چلاّو، لیکن ٹرک چلانے سے پہلے ٹائر پانی چیک کر لو۔
شاگرد بہت خوش ہوا کہ آج ٹرک چلاوں گا، اس نے جلدی سے ریڈی ایٹر کا پانی چیک کیا، ٹائر کی طرف آیا تو دیکھا ٹائر پنکچر تھا، اس نے استاد کو ٹائر کے بارے میں بتایا، استاد نے کہا جلدی سے بڑا جیک لگاو اور ٹائر بدل دو اتنی دیر میں استاد نے دو اور چرس کے سگریٹ پئے، جب ٹائر بدل دئے تو استاد نے شاگرد کو کہا کہ میں اب تھوڑی دیر سونے لگا ہوں تم ٹرک چلانا شروع کر دو۔
کنڈکٹر کچھ جوش میں اور کچھ چرس کے نشے میں سپیڈ دئے جا رہا تھا، کافی دیر بعد جب استاد کی آنکھ کھلی تو اس نے کنڈکٹر سے پوچھا۔
ہاں بھائی کنڈکٹر کہاں پہنچے؟
کنڈکٹر بولا۔ استاد جی جگہ کا تو نہیں پتا لیکن میں کافی سپیڈ و سپیڈ جا رہا ہوں۔
استاد بولا۔ اچھا تم گاڑی سائیڈ پر روکو میں خود چلاتا ہوں۔ 
شاگرد نے ایکسلیٹر سے پاوں ہٹایا اور گاڑی روک دی، استاد نیچے اترا تو دیکھا سامنے ایک ہوٹل ہے۔ 
استاد نے ہوٹل والے سے پوچھا کہ بھائی یہ کونسی جگہ ہے؟
ہوٹل والا حیران و پریشان ان دونوں کو دیکھنے لگا اور بولا جناب آپ تو اسی جگہ پر ہیں جہاں سے آپ نے کھانا کھایا، ہم تو سمجھے شاید ٹرک میں کوئی خرابی ہے اس لئے ٹرک جیک پر لگا کر آپ ایکسلیٹر دئے جا رہے ہیں۔ 
یہی حال 74 سالوں سے ہمارے ملک کا ہے، اقتدار کے نشے میں دھت ہو کر یہ ہوس کے پجاری حکمران اورــــــــــــ پاکستان کو ایسے ھی چلا رہے ہیں، نہ پاکستان آگے جاتا ہے اور نہ ہی ان جیسے نمک حراموں سے چھٹکارا ملتا ہے۔

مجھےاختلاف ہے

‏زندگی میں کچھ پل ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہم چاہ کر بھی بھلا نہیں سکتے،اپنی یاداشت سے مٹا نہیں سکتے۔
مجھے اختلاف ہے ان لوگوں سے جو کہتے ہیں
وقت ہر زخم کا مرہم ہے۔

یہ وقت بھی گزر جائے گا

چہرے پہ جھریاں، ہاتھوں میں رعشہ، لڑکھراتی زبان، مستقل ویل چیئر، ہر قسم کے وسائل کے باوجود بغیر کسی خوراک کے صرف ادویات پر گزارہ، کبھی اسکا پروٹوکول دنیا دیکھتی تھی، کل کا مرد آہن، آج کا بے بس و لاچاری کی تصویر، اسے کے ساتھی فصلی بٹیرے کبھی کا ساتھ چھوڑ کر کسی اور گاڑی کے مسافر بن چکے ہیں۔ یہ طاقت یہ اختیار انسان کے پاس عارضی ہے اور دوسروں کو اس سے سیکھنا چائیے . جب اختیار ھے تو کوئی ایسا کام کر جاو کہ دنیا تمھیں یاد رکھے۔

دوستی

بائیس سال پہلے ٹی وی پہ نشر ہونے والا گانا دوستی جسے جواد احمد نے گایا تھا۔ اس گانے کے تین مرکزی کردار علی عارف۔عرفان چوہدری۔تیسرے کا نام معلوم نہیں۔ بہت خوبصورت عکاسی ۔ بہترین الفاظ پہ مبنی شاعری۔ گانے کا مرکزی خیال ان تین نوجوان فوجیوں کا آپس کا یارانہ تھا—