Wednesday, December 28, 2022
Monday, December 26, 2022
آدمی نامہ / آرمی نامہ
اگلے دن اخبار نکلتے ھی ایڈیٹر کو جی ایچ کیو سے کال آئی۔ ایڈیٹر نے ان سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آرمی کی کوئی غلطی نہیں، غلطی ھمارے کاتب کی ھے۔۔ مگر تب تک بہت دیر ھو چکی تھی۔ ایڈیٹر کی نوکری جاتی رھی اور وہ ایڈیٹر انور مقصود تھے۔
Sunday, December 25, 2022
بچے کی فطرت - بچے کی تربیت - بچے ہمارے اعمال سے سیکھتے ہیں
مشہور پنجابی کہاوتیں
یہ چند مشہور پنجابی کہاوتیں ہیں جو ہمارے ہاں اکثر استعمال ہوتی ہیں۔ میرے خیال سے پنجاب کے علادہ باقی تہذیبوں میں بھی ان کا تھوڑا بہت اثر ملتا ہو گا۔
آپ سب بھی پڑھیں اور لطف اندوز ہوں۔
01۔ سکھ نال نصیباں دے ' دکھ نال غریباں دے
02۔ سرفہ کر کے سُتی تے آٹا لے گئی کتی
03۔ چور نالوں پَنڈ کالہی
04۔ کہنا دھی نوں ' سنانا نونہہ نوں
05۔ جس راہ نئیں جانا ' اوہدا ناں کیہ لینا
06۔ ویہلی رن ' پروہنیاں جوگی
07۔ جیناں کھادیاں گاجراں ' ٹیڈ اونہاں دے پیڑ
08۔ کُتی چوراں نال رل گئی
09۔ آٹا گُنہدی' ہلدی کیوں اے
10۔ چور اچکا چوہدری تے غُنڈی رَن پردھان
11۔ ڈگی کھوتے توں تے غصہ کمہار تے
12۔ انّے کتے ہرناں دے شکاری
13۔ گونگے دی ماں گونگے دی رمزاں جاندی اے
14۔ رب ملائی جوڑی ' اک انّا اک کوڑھی
15۔ لائی لگ نا ہوئے گھر والا تے چندرا گوانڈ نا ہو وے
16۔ آپ نہ وسّی سوہرے تے لوکاں نوں متاں دیوے
17۔ آپ کسے جہی نا تے گل کرنو رہی نا
18۔ جے کوئی کُچھڑ چُکے تے جان کے پُنجے نہی ڈِگی دا
19۔ جِدے گھر دانے ' اُوہدے کملے وی سیانے
20۔ ویلے دیاں نمازاں تے کویلے دیاں ٹکراں
21۔ ککڑ دی جان گئی تے کھان آلیا نوں صواد نہ آیا
22۔ آٹے دی بلی بناواں ' میاؤں کون کرے
23۔ مُلاں دی دوڑ مصیت تک
24۔ موئیا نئیں ' آکڑیا اے
25۔ دھی دی سھیلی تے ماں دی سوکن
26۔ مرے دا تے مُکرے دا علاج کوئی نہ
27۔ بوہے آئی جنج تے ونوں کُڑی دے کن
28۔ کملی رووے یاراں نوں ' لے لے ناں بھراواں دا
29۔ عقل ہووے تے سوچاں ' نہ ہووے تے موجاں
30۔ نکا ویکھ کے لڑیے نہ ' وڈا ویکھ کے ڈریے نہ
31۔ ٹُردے نوں کوئی نئیں ملدا
32۔ ست گھر تے ڈین وی چھڈ دیندی اے
33۔ بھاویں ماسی بنے سس ' اوہنوں وی ڈین والا چس
34۔ اکھوں دِسّے ناں تے ناں نور بی بی
35۔ جیا کِلے بدا ' جیا چوراں کھڑیا
36۔ سپاں دی کھڈ وچ سپولے جمدے نیولے نئیں
37۔ آئی موج فقیر دی ' لائی چگی نوں اگ
38۔ جَٹ ' وَٹ تے پَھٹ بَنّن نال ای قابو آندے نے
39۔ شاہاں دا قرض برا ' فکر دا درد برا
40۔ فکر دی مار بری ' بیگانی نار بری
41 اکھوں انی، ناں چراغو
Saturday, December 24, 2022
حقیقت
کرسمس_ڈے) 25 دسمبر کی حقیقت
جہاں جنوں
Friday, December 23, 2022
بارڈر کی اُس پار
واہگہ بارڈر لاھور سے صرف چند قدم دور انڈیا کا اٹاری گاؤں ہے، اس گاؤں میں پیاز 25 روپے آٹا 30 روپے کلو، روٹی 3 روپے اور بناسپتی گھی 60 روپے کلو ہے، وہاں سے چند قدم پیچھے آئیں تو یہاں لاھور کا گاؤں برکی ہے، جس میں پیاز 230 آٹا 100 روپے کلو، روٹی 12 روپے اور بناسپتی گھی 500 روپے کلو ہے۔
فصل ایک، زمین ایک، موسم ایک، ماحول ایک زمیندار ایک جیسے، بس فرق صرف ترجیحات اور قومی غیرت کا ھے۔ ایلیٹ ایڈیئٹس(elite idiots) کی اپنی تجارت کیلئے بارڈر کے گیٹ کھل جاتے ھیں، مٹھائیاں ایکسچینج ہوتی ہیں، مگر عوام کو 75 سال سے دشمنیاں پڑھائی گئی ہیں۔
امیرِ شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بحیلہء مذہب کبھی بنام_وطن
فیصلہ
چین میں3 گهنٹےمیں زنابالجبر کا فیصلہ!
ایک دفعہ بیجنگ شہر کے ایک محلے میں ایک نَو عمر لڑکی سے زنا بالجبر کا واقعہ پیش آیا اور مجرم روپوش ہو گیا۔ چیئر مین ماؤ تک خبر پہنچی۔ وہ خود متاثرہ لڑکی سے ملے اور اس سے پوچھا : "جب تم سے زیادتی کی گئی تو کیا تم مدد کے لیے چلائی تھیں ؟"
لڑکی نے اثبات میں سر ہلایا۔
چیئر مین ماؤ نے اس کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور نرمی سے کہا: "میری بچی! کیا تم اسی قوت کے ساتھ دوبارہ چِلا سکتی ہو ؟"
لڑکی نے کہا : " ہاں ۔۔۔ "
ماؤ کے حکم پر انقلابی گارڈ کے کچھ اہلکار نصف کلومیٹر کے دائرے میں کھڑے کر دیے گئے ۔ اس کے بعد لڑکی سے کہا گیا کہ : "پوری قوت کے ساتھ چیخو ۔۔۔!"
لڑکی نے ایسا ہی کیا۔ چیئرمین ماؤ نے تمام اہلکاروں کو بلایا اور ہر ایک سے پوچھا گیا کہ لڑکی کی چیخ سنائی دی یا نہیں ؟
سب نے کہا : "لڑکی کی چیخ سنائی دی گئی ۔"
چیئرمین ماؤ نے اگلا حکم صادر کیا کہ نصف مربع کلومیٹر کے اس علاقے کے تمام مردوں کو گرفتار کر لیا جائے اور تیس منٹ کے اندر اگر مجرم کی درست نشاندہی نہ ہو سکے تو تمام گرفتار مردوں کو گولی سے اڑا دیا جائے۔
حکم کی فوری تعمیل ہوئی اور دی گئی مہلت کو ابھی بمشکل دس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ مجرم کی نشاندہی ہوگئی اور اگلے بیس منٹ کے اندر اندر مجرم کو پکڑ کر چیئر مین ماؤ کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ لڑکی نے شناخت کی۔ موقع پر فیصلہ ہوا اور مجرم کا بھیجہ اڑا دیا گیا۔ جرم سے سزا تک کا وہ دورانیہ محض تین گھنٹوں پر مشتمل رہا۔ اسے کہتے ہیں فوری انصاف ۔۔۔ جس کے بل بوتے پر آج چین کامیاب ملکوں کی فہرست میں سب سے نمایاں ھے۔
کاش آج عمر رضی اللہ تعالٰی عنہہ جیسا حکمران ہوتا تو پاکستان کی معصوم زینبوں اور فرشتاوں کو یہ سیاہ دن نہ دیکھنے پڑتے.
اردو کا استاذ ہونے کا فائدہ
کتے
گالی کا کیس
ﺍﯾﮏ ﺩﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﻟﮍﮐﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﮯﻗﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﮔﺰﺭﺍ۔ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯﺍﺳﮯ ﺳﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ
ﻟﺌﮯﻣﺮﺯﺍ ﮐﻮ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ۔ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺍﻭﮐﺎﮌﮦ
ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﻨﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺎ ﮨﮯ۔ﺍﺱ ﻭﻗﺖ
ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﭘﻮﺭﺍ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﺘﯽ
ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻟﮍﮐﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ
ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﺘﮏ ﻋﺰﺕ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻭﮐﺎﮌﮦ
ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﻠﺲ ﺍﺣﺮﺍﺭ ﻻﮨﻮﺭ ﮐﮯ ﺩﻓﺘﺮ ﮐﻮ
ﺧﻂ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﯼ ﺻﻮﺭﺗﺤﺎﻝ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ
ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺪﺩﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻓﺘﺮ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺠﺎ
ﺟﺎﺋﮯ۔ﺟﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ۔
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻄﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺷﺎﮦ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ
ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﯿﺎﺕ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ۔ ﺍٓﭖ
ﺍﻭﮐﺎﮌﮦ ﭼﻠﮯﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯿﺲ ﮐﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﺮﯾﮟ ۔
ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻭﮐﺎﮌﮦ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ۔ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ
ﮐﯽ۔ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﯿﺲ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﯿﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﻭﮐﯿﻞ ﮐﯽ
ﺧﺪﻣﺎﺕ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﮟ۔ ﺍﺳﮯ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ﺣﻮﺍﻟﮯ
ﺩﮐﮭﺎﺋﮯﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﺮﺯﺍ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ
ﮐﯿﺎ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﯼ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ
ﮐﺮﻧﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﻥ ﮐﻮﻥ ﺳﮯ ﺩﻻﺋﻞ ﺩﯾﻨﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﻘﺮﺭﮦ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮭﭽﺎﮐﮭﭻ ﺑﮭﺮ
ﮔﺌﯽ۔ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ﻣﻘﺪﻣﮯ ﮐﯽ ﮐﺎﺭﻭﺍﺋﯽ ﮐﻮ ﺳﻨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ
ﺗﮭﮯ۔ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺣﯿﺎﺕ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻭﮐﯿﻞ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺗﯿﺎﺭﯼ
ﮐﺮﻭﺍﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﻭﮦ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ
ﻭﮐﯿﻞ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﻟﮯ ﮔﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﯽ
ﺑﺘﺎﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﻭﮦ ﺳﺐ ﯾﻮﻧﮩﯽ
ﺭﮦ ﮔﺌﯽ۔
ﻭﮐﯿﻞ ﺍﺱ ﻃﺮﻑ ﺍٓﯾﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻋﺪﺍﻟﺖ
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻟﻤﺒﯽ
ﭼﻮﮌﯼ ﺑﺤﺚ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺩﻻﺋﻞ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ﺍٓﭖ
ﺻﺮﻑ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ! ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺮﺯﺍ ﮐﻮ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ
ﮔﺎﻟﯽ ﺩﯼ ﮨﮯ۔ ﺗﺎﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺳﮑﮯ ﮐﮧ
ﻭﮦ ﮔﺎﻟﯽ ﮨﮯ ﺑﮭﯽ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ
ﺳﮑﺘﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ
ﻣﺠﺴﭩﺮﯾﭧ ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﺭﻭﻣﺎﻝ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ
ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﺧﻮﺏ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ۔ ﺍٓﺧﺮ ﻣﺮﺯﺍﺋﯽ ﻧﮯ
ﮐﮩﺎ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﻮﻧﺴﯽ ﮔﺎﻟﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ
ﮔﺎﻟﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﺗﮭﯽ ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ
ﻧﮩﯿﮟ ، ﻣﯿﮟ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﺍٓﭖ ﺳﻨﺘﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ، ﺟﺐ ﻭﮦ
ﮔﺎﻟﯽ ﺍٓﺋﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺩﯾﮟ :
کیا اسنے کہا تھا کہ تیرے مرزے دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺳﺎﻧﺲ
ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺯﺍﺋﯽ ﮐﻮ ﮐﺌﯽ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ، ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﮐﯿﺎ ﺍﻥ ﮔﺎﻟﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﮔﺎﻟﯽ ﺍٓﺋﯽ ھﮯ، ﺟﻮ ﺍﻥ ﻟﮍﮐﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﺎ :
ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﻭﺭ
ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺳﻨﻮ، ﺍﺱ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﯼ 51 ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ
ﺩﯾﮟ۔ ﻣﺠﺴﭩﺮﯾﭧ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺩﺑﯽ ﺩﺑﯽ ﮨﻨﺴﯽ
ﮨﻨﺲ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺑﺲ ﻣﺮﺯﺍﺋﯽ ﺳﺎﮐﺖ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ
ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﻓﻖ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺏ ﭘﮭﺮ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ۔ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﮔﺎﻟﯽ ﺍٓﺋﯽ ھﮯ۔؟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ
ﻧﮩﯿﮟ۔
ﺍﺏ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﺟﺞ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺳﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻞ ﮐﯽ
ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﮐﮯ ﺁﺅﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ
ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ھﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﻞ ﺗﮏ ﻭﮦ ﮔﺎﻟﯽ ﯾﺎﺩ ﺁ ﺟﺎﺋﮯ ۔
ﺟﺞ ﻧﮯ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺩﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺩﮮ ﺩﯼ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺩﻥ ﺟﺐ ﻭﮐﯿﻞ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺠﺴﭩﺮﯾﭧ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ
ﺑﺘﺎﯾﺎ : ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﻞ ﮨﯽ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﺩﮮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﯿﺲ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
عثمانی ترکیوں کی بے مثل و بے نظیر عادات
تعلیمی نظام
پیسٹی سائیڈ
طوطا
Thursday, December 22, 2022
امی جان
Wednesday, December 21, 2022
ہابیل و قابیل
ہم ( ہم سیریز)
آداب گفتگو
چند معیوب اور غیر اخلاقی قسم کے سوالات جن سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے:
1- (بیروزگار سے) اور کہیں نوکری وغیرہ شروع کی؟
2- (رشتے کے انتظار میں بیٹھی لڑکی سے) اور رشتے کی کوئی بات چلی؟
3- (بے اولاد جوڑے سے) کب تک خوشخبری سنارہے ہو؟
4- (کرایے پر رہنے والوں سے) اپنے مکان کا کب تک ارادہ ہے؟
5- (موٹر سائیکل یا بناء سواری والوں سے) اور گاڑی کب خرید رہے ہو؟
وغیرہ وغیرہ
آپ کے ایسے لاپرواہ سوالات کسی دوسرے کے لیے شدید ڈپریشن یا کوفت کا باعث بن سکتے ہیں۔ وہ سوشل آئسولیشن میں جاسکتے ہیں۔
میں خود ایک دور میں سوال نمبر 1، 4 اور 5 کی چبھن "جھیل" چکا ہوں۔ ایسے سوالات احساس کمتری پیدا کرنے کا مؤجب بن سکتے ہیں۔
جن کے اپنے معاملات حل ہوجائیں وہ دوسروں کو کریدتے پھرتے ہیں جو انتہائی نامناسب ہے
یہ اللہ کے معاملات ہیں، انھیں اللّٰہ پر چھوڑدیں۔ دوسروں کے sensitive معاملات کی ٹوہ میں پڑنے کی بجائے ان کے لیے خاموشی سے دعا کردیں۔
کسی کی دل آزاری کا باعث نہ بنیں اور بلاوجہ گناہ نہ کمائیں
کچھ بعید نہیں کہ آپ کا کوئی چبھتا ہوا سوال کسی کو ایسی چوٹ پہنچا جائے کہ اس کے دل سے نکلی آہ اللّٰہ کو آپ سے ناراص کردے۔۔۔۔۔!!!!
منقول
کتا اور چیتا
چیتے نے کتے سے پوچھا: تم نے انسانوں کو کیسا پایا؟
کتے نے جواب دیا: جب وہ کسی کو حقیر سمجھتے ہیں تو اسے کتا کہتے ہیں
چیتا: کیا تم نے ان کے بچوں کو کھایا؟
کتا: نہیں
چیتا: کیا تم نے انہیں دھوکہ دیا؟
کتا: نہیں
چیتا: کیا تم نے ان کے مویشی مارے؟؟
کتا: نہیں
چیتا: کیا تم نے ان کا خون پیا؟؟
کتا: نہیں
چیتا: کیا تم نے ان کو میرے حملوں سے بچایا؟؟
کتا: ہاں
چیتا: انسان بہادر اور ہوشیار کو کیا کہتے ہیں؟
کتا: وہ اسے چیتا کہتے ہیں
چیتا: کیا ہم نے تمہیں شروع سے مشورہ نہیں دیا تھا کہ ہمارے ساتھ چیتا بن کر رہو مگر تم نے انسانوں کے تحفظ کا ٹھیکے دار بننا پسند کیا۔ میں ان کے بچوں اور مویشیوں کو مارتا ہوں، ان کا خون پیتا ہوں، ان کے وسائل اور محنت کھا جاتا ہوں، اس کے باوجود نہ صرف وہ مجھ سے ڈرتے ہیں بلکہ اپنے ہیروز کو چیتے کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
تمہیں یہ سیکھنا چاہیے کہ “انسان اپنے جلادوں کے سامنے سرتسلیم خم کر لیتے ہیں اور اپنے وفاداروں اور ہمدردوں کی توہین کرتے ہیں
Monday, December 19, 2022
دانت کا کیڑا
Wednesday, December 14, 2022
ہم ماڈرن لوگ
ہم لوگ ماڈرن کہلائے جانے کے چکر میں بہت قیمتی چیزیں چھوڑ بیٹھے ہیں۔ ہم نے آسانیاں ڈھونڈیں اور اپنے لیے مشکلیں کھڑی کر دیں۔
آج ہم دھوتی پہن کے باہر نہیں نکل سکتے لیکن صدیوں کی آزمائش کے بعد یہ واحد لباس تھا جو ہمارے موسم کا تھا۔ ہم نے خود اپنے اوپر جینز مسلط کی اور اس کو پہننے کے لیے کمروں میں اے سی لگوائے۔ شالیں ہم نے فینسی ڈریس شو کے لیے رکھ دیں اور کندھے جکڑنے والے کوٹ جیکٹ اپنا لیے۔ ہمیں داڑھی مونچھ اور لمبے بال کٹ جانے میں امپاورمنٹ ملی اور فیشن بدلا تو یہ سب رکھ کے بھی ہم امپاورڈ تھے!
ہم نے حقہ چھوڑ کے سگریٹ اٹھایا اور ولایت سے وہی چیز جب شیشے کی شکل میں آئی تو ہزار روپے فی چلم دے کر اسے پینا شروع کر دیا۔ ہے کوئی ہم جیسا خوش نصیب؟
ہم نے لسی چھوڑی، کولا بوتلیں تھام لیں، ہم نے ستو ترک کیا اور سلش کے جام انڈیلے، ہم نے املی آلو بخارے کو اَن ہائی جینک بنا دیا اور وہی چیز ایسنس کے ساتھ جوس کے مہر بند ڈبے خرید کے بچوں کو پلائی، وہ پیک جس کے آر پار نہیں دیکھا جا سکتا کہ گتے کا ہوتا ہے۔ ہم نے ہی اس اندھے پن پہ اعتبار کیا اور آنکھوں دیکھے کو غیر صحت بخش بنا دیا۔
ہم نے دودھ سے نکلا دیسی گھی چھوڑا اور بیجوں سے نکلے تیل کو خوش ہو کے پیا، ہم نے چٹا سفید مکھن چھوڑا اور زرد ممی ڈیڈی مارجرین کو چاٹنا شروع کر دیا، اس کے نقصان سٹیبلش ہو گئے تو پھر ڈگمگاتے ڈولتے پھرتے ہیں۔ گوالے کا پانی ہمیں برداشت نہیں لیکن یوریا سے بنا دودھ ہم گڑک جاتے ہیں، الحمدللہ!
اصلی دودھ سے ہمیں چائے میں بو آتی ہے اور ٹی واٹنر ہم نوش جان کرتے ہیں جس پہ خود لکھا ہے کہ وہ دودھ نہیں۔ گھر کے نیچے بھینس باندھ کر ہم نے سوکھا دودھ باہر ملک سے خریدنے کا سودا کیا اور کیا ہی خوب کیا!
ہم تو وہ ہیں جو آم کے موسم میں بھی اس کا جوس شیشے کی بوتلوں میں پیتے ہیں۔
ہم گڑ کو پینڈو کہتے تھے، سفید چینی ہمیں پیاری لگتی تھی، براؤن شوگر نے ہوٹلوں میں واپس آ کے ہمیں چماٹ مار دیا۔ اب ہم ادھر ادھر دیکھتے ہوئے گال سہلاتے ہیں لیکن گڑ بھی کھاتے ہیں تو پیلے والا کہ بھورا گڑ تو ابھی بھی ہمیں رنگ کی وجہ سے پسند نہیں۔
آئیں، ہم سے ملیں، ہم ایمرجنسی میں پیاسے مر جاتے ہیں، گھروں کی ٹونٹی کا پانی نہیں پی سکتے، نہ ابال کر نہ نتھار کے، ہم پانی بھی خرید کے پیتے ہیں۔ ہم ستلجوں، راویوں، چنابوں اور سندھوں کے زمین زاد، ہم ولایتی کمپنیوں کو پیسے دے کے پانی خریدتے ہیں۔
ہم تو پودینے کی چٹنی تک ڈبوں میں بند خریدتے ہیں۔ چھٹانک دہی اور مفت والے پودینے کی چٹنی ہم ڈیڑھ سو روپے دے کے اس ذائقے میں کھاتے ہیں جو ہمارے دادوں کو ملتی تو انہوں نے دسترخوان سے اٹھ جانا تھا۔
سوہانجنا ہمیں کڑوا لگتا تھا، جب سے وہ مورنگا بن کر کیپسولوں میں آیا ہے تو ہم دو ہزار میں پندرہ دن کی خوراک خریدتے ہیں۔ وہی سوکھے پسے ہوئے پتے جب حکیم پچاس روپے کے دیتا تھا تو ہمیں یقین نہیں تھا آتا۔
پانچ سو روپے کا شربت کھانسی کے لیے خریدیں گے لیکن پانچ روپے کی ملٹھی کا ٹکڑا دانتوں میں نہیں دبانا، ’عجیب سا ٹیسٹ آتا ہے۔‘
ہم پولیسٹر کے تکیوں پہ سوتے ہیں، نائلون ملا لباس پہنتے ہیں، سردی گرمی بند جوتا چڑھاتے ہیں، کپڑوں کے نیچے کچھ مزید کپڑے پہنتے ہیں اور زندگی کی سڑک پہ دوڑ پڑتے ہیں، رات ہوتی ہے تو اینٹی الرجی بہرحال ہمیں کھانی پڑتی ہے۔
ہم اپنی مادری زبان ماں باپ کے لہجے میں نہیں بول سکتے۔ ہم زبان کے لیے نعرے لگاتے ہیں لیکن گھروں میں بچوں سے اردو میں بات کرتے ہیں۔ ہم اردو یا انگریزی کے رعب میں آ کے اپنی جڑیں خود کاٹتے ہیں اور بعد میں وجہ ڈھونڈتے ہیں کہ ہم ’مس فٹ‘ کیوں ہیں۔
عربی فارسی کو ہم نے مدرسے والوں کی زبان قرار دیا اور ہاتھ جھاڑ کے سکون سے بیٹھ گئے۔ ’فورٹی رولز آف لَو‘ انگریزی میں آئی تو چومتے نہیں تھکتے۔ الف لیلیٰ، کلیلہ و دمنہ اور اپنے دیسی قصے کہانیوں کو ہم نے لات مار دی، جرمن سے گورے کے پاس آئی تو ہمیں یاد آ گیا کہ استاد مال تو اپنا تھا۔
جا کے دیکھیں تو سہی، عربی فارسی کی پرانی ہوں یا نئی، صرف وہ کتابیں ہمارے پاس اب باقی ہیں جو مدرسوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ باقی ایک خزانہ ہے جسے ہم طلاق دیے بیٹھے ہیں۔ پاؤلو کوہلو اسی کا ٹنکچر بنا کے دے گا تو بگ واؤ کرتے ہوئے آنکھوں سے لگا لیں گے۔ متنبی کون تھا، آملی کیا کر گئے، شمس تبریز کا دیوان کیا کہتا ہے، اغانی میں کیا قصے ہیں، ہماری جانے بلا!
ہماری گلیوں میں اب کوئی چارپائی بُننے والا نہیں آتا، ہمیں نیم اور بکائن میں تمیز نہیں رہ گئی، ہمارے سورج سخت ہوگئے اور ہمارے سائے ہم سے بھاگ چکے، ہمارے چاند روشنیاں نگل گئیں اور مٹی کی خوشبو کو ہم نے عطر کی شکل میں خریدنا پسند کیا۔
وہ بابا جو نیم کی چھاؤں میں چارپائی لگائے ٹیوب ویل کے ساتھ دھوتی پہنے لیٹا ہوتا ہے، وہ حقے کا کش لگاتا ہے، ہمیں دیکھتا ہے اور ہنس کے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ اسے کب کی سمجھ آ گئی ہے، ہمیں نئیں آتی!
انسان
یہ انسان اتنے رنگ بدلتا ہے کہ کوئی مخلوق نہیں بدلتی اور یہ اپنی ہی نسل کا شکار کرنا پسند کرتا ہے...
کوئی دوست کے روپ میں دشمن ہے، کوئی مسافر کے بھیس میں لٹیرا ہے جو سچائی کی قسم کھا رہا ہے وہ سچ سے ہی دور ہے، جسے ایمانداری کا غرور ہے وہ برتری کے احساس کا غلام ہے ..مختصر یہ کہ
انسان نے سب بن کر رہنا سیکھا ایک انسان ہی بن کر رہنا اس کے لئے مشکل رہا۔۔۔✍️۔۔۔۔!!!
اچھی باتیں
خالق سے اچها تعلق اور مخلوق سےاچها برتاؤ مومن کی نشانی ہے۔ سانس لینا، کھانا، پینا، سونا، یا روز مرہ کے کام کرنا ہی زندگی نہیں بلکہ دوسروں کے دلوں میں زندہ رہنا اور انکی دعاؤں میں شامل رہنا ہی اصل زندگی ہے۔
الله رب العزت آپکو دین و دنیا کی دولت سے مالا مال فرمائے، روز محشر سرکار دو جہاں صلی الله علیہ وآله و سلم کی شفاعت نصيب فرمائے اور آپکی تمام نیک خواہشات پوری فرمائے۔ (آمین)