Wednesday, December 28, 2022

ٹیکنالوجی کی ترقی یا بے حیائی کا فروغ

پوری تاریخِ انسانی میں کسی کو گناہ کے اتنے مواقع نہ تھے جتنے آج دستیاب ہیں۔کسی نے گانا سننا ہوتا یا عورتوں کے جسم کو دیکھنا اور ان کو ناچتے دیکھنا ہوتا تو اس کو باقاعدہ کوئی ایسا فحاشی کا اڈہ تلاش کرنا پڑتا تھا اور پھر وہاں جانا پڑتا تھا، اور پھر شاید پیسہ خرچ کرنا پڑتا تھا یا منت ترلے کرنے پڑتے تھے۔

گانا اچھا لگا؟ دوبارہ کیسے سنیں؟ گانے والی کے پاس دوبارہ جائیں، وہی سارا سیاپا کریں اور اس سے گانے کی درخواست کریں؟ اس کا موڈ ہو نہ ہو، پیسے لگیں۔ وغیرہ۔

منظر اچھا لگا؟ دوبارہ کیسے دیکھیں؟ وہی سیاپا۔

یعنی گناہ ایک بار کر بھی لیا تو دوبارہ کرنا مشکل۔

لیکن ٹیکنالوجی کے افراط کے ساتھ ساتھ گناہ کی لذت بھی عام ہوئی۔ بٹن دباؤ تو ایک نہیں، دو نہیں، لاکھوں کروڑوں گانے والے اپنے پورے کے پورے بینڈ باجوں سمیت حاضر، اور بار بار بٹن دبانے پر بار بار حاضر۔۔۔ اور وہ بھی بالکل مفت۔ نہ کہیں جانا پڑتا ہے، نہ یہ ڈر کے کون آپ کو ایسی جگہ جاتے دیکھ رہا ہے، نہ گانے والوں کا موڈ دیکھنا پڑتا ہے۔ ایک پسند نہیں آیا تو لاتعداد دیگر موجود ہیں۔ بٹن دبائیے اور "لطف اندوز " ہو جائیے۔

یہی حال بصارت کی لذت، یعنی "آنکھیں ٹھنڈی" کرنے سے ہے۔ حقیقی دنیا میں کسی کی مجال کہ کوئی جب چاہے نامحرموں کو جھانک کر نہ صرف دیکھے بلکہ ان کی جلد کا ہر زاویہ سے اچھی طرح معائنہ کرے، اس کے جسمانی اعضا کو ہر وقت تکتا رہے،

لیکن ٹیکنالوجی کی بدولت برہنگی دیکھنے کو ایک بٹن کی مسافت پر موجود۔ اور وہ بھی ایک یا دو عورتوں کی عارضی جھلک نہیں، بلکہ لاکھوں کروڑوں سراپا برہنہ۔۔۔ ہر جگہ، ہر وقت۔۔۔ ایک بٹن کی مسافت پر۔۔۔

ٹیکنالوجی کے افراط کے ساتھ گناہ کا افراط ہوا تو رفتہ رفتہ گناہ کے بارے میں احساسات بدل گئے۔ گناہ نارمل سی بات بن گیا اور گناہ کے کے کاموں کے لئے مستعمل الفاظ بھی بدل گئے، تاثرات بھی بدل گئے۔۔

گانے بجانے والی نائکہ اب فنکارہ اور آرٹسٹ ہو گئی۔

اپنی "نرم و ملائم اور سفید" جلد اور اپنے جسم کی نمائش کر کے جنسی ہوس بھڑکانے والی عورت بھی اب فنکاارہ، ماڈل اداکارہ اور آرٹسٹ کہلائی۔ (اگرچہ چند ایک جسم کی نمائش کی مرتکب تو نہ تھیں، لیکن بہرحال بےحجابی سے ہر وقت بچنا بھی ناممکن تھا)

چنانچہ: بیہودگی آرٹ ہو گئی۔

اسی پر بس نہیں۔۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت میڈیا نے ترقی کی تو یہ سب "فنکار" اب سٹار اور پھر سپر سٹار کہلائے جانے لگے۔

( سب ازلی حقیقت بھول گئے کہ ستارے تو اصل میں بڑے تقدس کی چیز ہیں ، رب کی نشانیاں ہیں، جن کا ذکر کر کے ہمارے رب نے قسم کھائی۔ )

ابھی تک اس ترقی یافتہ میڈیا پر طوائفوں اور ناچنے گانے والیوں ، المعروف "سٹار" بننے کے لئے باقاعدہ کوئی میڈیا ہاؤس، کوئی ٹی وی چینل پر منت سماجت کر کے مواقع حاصل کرنا ہوتے تھے۔

وقت کا پہیہ مزید گھوما اور ہر ایک کے ہاتھ میں سمارٹ فون اور پورا کا پورا "میڈیا ہاؤس" اور "ٹی وی چینل" آ گیا۔۔۔۔۔ یوٹیوب اور پھر ٹک ٹاک کی صورت میں۔ بٹن دبایا، اور لاکھوں لوگوں کو "انٹرٹین" کرنا شروع۔ چٹخارے دار باتیں، لطیفے،ذو معنی فقرے، حسن و شباب کی نمائش۔۔۔۔ لاکھوں کروڑوں لذت کے رسیا کان اور آنکھیں، جنسی میلان کو جنسی ہوس اور پھر بھانبھڑ میں بدلتی پوری کی پوری نسلیں۔ اور پھر اس پر بھی تسکین نہ ملنے پر پورن ویب سائٹس ایک یا دو بٹن کلک کی دوری پر۔ ٹک ٹاک اور پورن سائٹس پر دیکھ کر روز روز لمحہ لمحہ ذہن میں جنسی خیالات کے ابال۔ چنگاریاں بھانبھڑ۔اور پھر اس جنسی پیاس اور بھانبھڑ کو مزید ایندھن فراہم کرنے کے لئے کسی جنسی عمل کی تلاش۔

اکثر کوئی نیم برہنہ اور اخلاق باختگی کو ابھارنے والی بازاری عورت نہ ملی تو ٹھیک۔ ورنہ کوئی ماڈرن لباس والی سہی، کہ ماڈرن لباس کی وجہ سے وہ جسم کو ڈھانپنے کی اتنی قائل نہیں۔ اور یہ بھی نہیں تو پھر باحجاب کو ہی "چھو" کر لذت لینے کی کوشش۔

جب ہوس ناکی میں یہ تلاش جاری تو ساتھ میں روز وہی ٹک ٹاک اور پورن ویب سائٹس سے اس "پیاس" کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش۔ لیکن یہ کیا۔یہ بھانھڑ تو بجھنے کا نام نہین لیتا۔

جب بے حجاب "شکار" ہاتھ نہ لگے تو پھر کسی کمسن بچی کا شکار۔ جنسی زیادتی جیسے خبیث ترین عمل کے بعد بے حسی کا غلبہ، اور پھر اس زندہ لاش کا قتل اور ٹھکانے لگانا۔

اور پھر جب یہ بھی نہیں تو پھر کسی حجابی پر ہی حملہ۔

اور پھر۔

چڑیلوں ڈائنوں سمیت معاشرے کے اچھے خاصے "سمجھدار روشن خیالوں" کی طرف سے چیخ و پکار۔۔۔۔ "ارے دیکھو، اس والی نے تو کپڑے پہن رکھے تھے"

"ارے یہ سب مرد خبیث ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ "

ایسا کہنے والوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو بِن باپ کے پیدا ہو گئے ہوں۔ ان کے باپ بھی مرد ہی ہیں۔

یہ جو سب مَرد خبیث ہوتے ہیں۔۔۔۔ ان سب نے عورتوں کے ذریعہ جنم لے کر ان کی پرورش اور تربیت حاصل کی تھی۔ وہ عورتیں کیا ہوتی ہیں؟

رکیے جناب، یہ حادثات اچانک نہیں رونما ہو جاتے۔ دسیوں سال لگے ہیں گناہ کو "کارِ ثواب" اور خوبی کی چیز بنا کر اذہان میں بار بار انڈیل کر پختہ کرنے میں۔

بہت ممکن ہے کہ جنسی جرم کے شکار افراد کا لباس اس جرم کی وجہ نہ ہو۔ لیکن مجرموں کے اذہان میں کئی سال تک پکنے والی گندگی کا تعلق اسی بے حجابی، بے لباسی ، گانے بجانے، اور شباب کی نمود و نمائش سے ہو جو پہلے بڑے جتن کر کے ۔۔۔۔کوئی ایک آدھ بدقماش۔۔۔۔ کبھی کبھار طوائف کے کوٹھے پر جا کر ہی حاصل کرتا تھا اور آج ۔۔۔۔ہر دوسرا شخص ۔۔۔"سٹارز" اور "سپر سٹارز" اور پورن سائٹس دیکھ کر کسی بھی وقت، ہر وقت، ہر روز ہر لمحہ حاصل کرتا ہے۔

پہلے طوائف کے تماشبین ہوتے تھے

اب سٹار کے فینز ہوتے ہیں۔

کان ادھر سے پکڑ لو یا ادھر سے۔

بہت ممکن ہے اس والی "سٹار" نے کوئی بیہودہ حرکت نہ کی ہو، برہنگی نہ دکھائی ہو۔ لیکن ہیجان ، ہوسناکی اور حیوانیت کا تو ایک پورا پس منظر ہے، جس کا "کھُرا"بے حجابی سے حاصل ہونے والی لذت میں ہے۔

پس:




اذالم تستحي فاصنع ما شئت

جب تم حیا نہ کرو تو پھر جو چاہے کرو ! (حديث)



قاری عارف کی پوسٹ


Monday, December 26, 2022

آدمی نامہ / آرمی نامہ

اردو کے پہلے عوامی شاعر تھے نظیرؔ اکبر آبادی۔ ان کی مشہور نظم "آدمی نامہ" ھے، جو میٹرک کے نصاب میں بھی شامل رھی ھے. ڈان گروپ کا ایک اخبار "حریت اخبار" ہوا کرتا تھا۔ نظیر اکبر آبادی کی برسی کے موقع پر "آدمی نامہ" چھپنے کو کاتب کو دی گئی۔ کاتب نے اپنی فنکاری دکھاتے ھوئے آدمی نامہ کی ’’د‘‘ کو ذرا سا سیدھا لکھ دیا، جب نظم پریس میں چھپنے کو پہنچی تو چھاپنے والا سمجھا کہ ’’ر‘‘ ھے، اس نے "آرمی نامہ" لکھ کر چھاپ دی۔ اس وقت جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی۔ تو نظم کچھ یو چھپی:

دنیا میں بادشاہ ھے سو ھے وہ بھی آرمی
اور مفلس و گدا ھے سو ھے وہ بھی آرمی
زردار ھے نوا ھے سو ھے وہ بھی آرمی
نعمت جو کھا رھا ھے سو ھے وہ بھی آرمی
ٹکڑے چبا رھا ھے سو ھے وہ بھی آرمی

مسجد بھی آرمی نے بنائی ھے یہاں میاں
بنتے ھیں آرمی ھی امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ھیں آرمی ھی قرآن اور نماز یہاں
اور آرمی ھی ان کی چراتے ھیں جوتیاں
جو اُن کو تاڑتا ھے سو ھے وہ بھی آرمی

فرعون نے کیا تھا جو دعویٰ خدائی کا
شداد بھی بہشت بنا کر ھوا خدا
نمرود بھی خدا ھی کہلاتا تھا برملا
یہ بات ھے سمجھنے کی آگے کہوں میں کیا
یہاں تک جو ھو چکا ھے سو ھے وہ بھی آرمی

اشراف اور کمینے سے لے شاہ تا وزیر
یہ آرمی ھی کرتے ھیں سب کار دل پذیر
یہاں آرمی مرید ھے اور آرمی ھی پیر
اچھا بھی آرمی ھی کہلاتا ھے اے نظیرؔ
اور سب میں جو برا ھے سو ھے وہ بھی آرمی

اگلے دن اخبار نکلتے ھی ایڈیٹر کو جی ایچ کیو سے کال آئی۔ ایڈیٹر نے ان سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آرمی کی کوئی غلطی نہیں، غلطی ھمارے کاتب کی ھے۔۔ مگر تب تک بہت دیر ھو چکی تھی۔ ایڈیٹر کی نوکری جاتی رھی اور وہ ایڈیٹر انور مقصود تھے۔


Sunday, December 25, 2022

بچے کی فطرت - بچے کی تربیت - بچے ہمارے اعمال سے سیکھتے ہیں

 ذرا توجہ کیجئے! 
 والد کتاب پڑھنے میں مشغول ہیں، والدہ کچن میں برتن دھو رہی ہے اور بچہ ہال میں کھلونوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ 
ٹیلیفون بجتا ہے ماں کام چھوڑ کر ٹیلیفون کی طرف جانا چاہتی ہیں لیکن والد ان سے پہلے ہی اٹھ کر فون اٹھا لیتے ہیں۔ فون پر بات کرکے دوبارہ مطالعہ شروع کر دیتے ہیں۔
 والد گھر میں نہیں، بچہ مسلسل ماں کا دامن کھینچ رہا ہے کہ میرے ساتھ کھیلیں لیکن ماں کھانا بنانے میں مصروف ہے اس لیے کہتی ہے: تھوڑا صبر کرو بیٹا چند منٹ بعد آؤں گی۔ اچانک فون بجتا ہے، ماں کام چھوڑ کر فون اٹھاتی ہے۔
 بچہ چند دنوں سے اس بات کو نوٹ کر رہا ہے (فون کی آواز سن کر کام چھوڑ کر جواب دینا)
 آج بھی فون بجا بچہ جو کاپی میں رنگ کر رہا تھا، فوراً فون کا جواب دینے اٹھا سب سے پہلے اس نے فون اٹھایا لیکن ماں نے مسکرا کر اس کے ہاتھوں سے فون لے لیا۔
 اب آگے دیکھئے!!! 
بچہ اپنی گاڑی سے کھیل رہا ہے، ماں کپڑے استری کررہی ہے، والد صوفے پہ لیٹے اخبار پڑھ رہے ہیں۔
 مسجد سے آذان کی آواز آتی ہے بچہ سر اٹھاکر ایک نظر باہر ڈالتا ہے اور آواز کو ڈھونڈتا ہے پھر ایک نظر اپنے والدین پر کوئی خاص حرکت نہیں دیکھی دوبارہ کھیلنے میں مصروف ہوگیا۔
 ماں پھلوں کی پلیٹ لے کر والد کے نزدیک بیٹھتی ہیں۔ بچے کو اپنی گود میں بٹھاتی ہے۔ سب میوے کھانے میں مصروف ہیں۔ آذان کی آواز آتی ہے، بچہ پھر آواز کی طرف توجہ کرتا ہے، والدین کی طرف سے کوئی اقدام دیکھنا چاہتاہے لیکن چند روز تک ایسے ہی ہوتا ہے۔
 آج پھر گھر میں سب اپنے کاموں میں لگےہوئے ہیں اور بچہ کھیلنے میں۔ آذان کی آواز آتی ہے لیکن بچہ سر اٹھا کہ بھی نہیں دیکھتا۔
یہ وہی فرمانِ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وال وسلم ہے جس میں خبردار کیا گیا ہے:
  "بچے پاک فطرت پہ پیدا ہوتے ہیں، یہ ماں باپ ہیں جو اسے بے دین کرتے ہیں"  
 اگر والدین آذان کی آواز سن کر کام کاج چھوڑ کر نماز کی طرف جائیں تو بچے کے تحت شعور میں محفوظ ہو جائے گا کہ آذان کی آواز آئے تو کیا کرنا ہوتا ہے؟
 جیسے فون کی آواز کے بعد کا رد عمل اس کے ذہن میں رہ گیا۔
 اسی طرح بچہ نماز سے آشنا ہوتا ہےاور بغیر بولے ہمارے عمل سے سیکھتا ہے.

مشہور پنجابی کہاوتیں

 یہ چند مشہور پنجابی کہاوتیں ہیں جو ہمارے ہاں اکثر استعمال ہوتی ہیں۔ میرے خیال سے پنجاب کے علادہ باقی تہذیبوں میں بھی ان کا تھوڑا بہت اثر ملتا ہو گا۔

آپ سب بھی پڑھیں اور لطف اندوز ہوں۔

01۔ سکھ نال نصیباں دے ' دکھ نال غریباں دے

02۔ سرفہ کر کے سُتی تے آٹا لے گئی کتی

03۔ چور نالوں پَنڈ کالہی

04۔ کہنا دھی نوں ' سنانا نونہہ نوں

05۔ جس راہ نئیں جانا ' اوہدا ناں کیہ لینا

06۔ ویہلی رن ' پروہنیاں جوگی

07۔ جیناں کھادیاں گاجراں ' ٹیڈ اونہاں دے پیڑ

08۔ کُتی چوراں نال رل گئی

09۔ آٹا گُنہدی' ہلدی کیوں اے

10۔ چور اچکا چوہدری تے غُنڈی رَن پردھان

11۔ ڈگی کھوتے توں تے غصہ کمہار تے

12۔ انّے کتے ہرناں دے شکاری

13۔ گونگے دی ماں گونگے دی رمزاں جاندی اے

14۔ رب ملائی جوڑی ' اک انّا اک کوڑھی

15۔ لائی لگ نا ہوئے گھر والا تے چندرا گوانڈ نا ہو وے

16۔ آپ نہ وسّی سوہرے تے لوکاں نوں متاں دیوے

17۔ آپ کسے جہی نا تے گل کرنو رہی نا

18۔ جے کوئی کُچھڑ چُکے تے جان کے پُنجے نہی ڈِگی دا

19۔ جِدے گھر دانے ' اُوہدے کملے وی سیانے

20۔ ویلے دیاں نمازاں تے کویلے دیاں ٹکراں

21۔ ککڑ دی جان گئی تے کھان آلیا نوں صواد نہ آیا

22۔ آٹے دی بلی بناواں ' میاؤں کون کرے

23۔ مُلاں دی دوڑ مصیت تک

24۔ موئیا نئیں ' آکڑیا اے

25۔ دھی دی سھیلی تے ماں دی سوکن

26۔ مرے دا تے مُکرے دا علاج کوئی نہ

27۔ بوہے آئی جنج تے ونوں کُڑی دے کن

28۔ کملی رووے یاراں نوں ' لے لے ناں بھراواں دا

29۔ عقل ہووے تے سوچاں ' نہ ہووے تے موجاں

30۔ نکا ویکھ کے لڑیے نہ ' وڈا ویکھ کے ڈریے نہ

31۔ ٹُردے نوں کوئی نئیں ملدا

32۔ ست گھر تے ڈین وی چھڈ دیندی اے

33۔ بھاویں ماسی بنے سس ' اوہنوں وی ڈین والا چس

34۔ اکھوں دِسّے ناں تے ناں نور بی بی

35۔ جیا کِلے بدا ' جیا چوراں کھڑیا

36۔ سپاں دی کھڈ وچ سپولے جمدے نیولے نئیں

37۔ آئی موج فقیر دی ' لائی چگی نوں اگ

38۔ جَٹ ' وَٹ تے پَھٹ بَنّن نال ای قابو آندے نے

39۔ شاہاں دا قرض برا ' فکر دا درد برا

40۔ فکر دی مار بری ' بیگانی نار بری

41 اکھوں انی، ناں چراغو


Saturday, December 24, 2022

حقیقت

 بدکردار عورت اور مرد کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ رشتوں کی پہچان بھول جاتے ہیں ایک روز ایک شوہر جب باہر سے اپنے گھر میں داخل ہوا، تو دیکھتا ہے، کہ اس کی بیوی زار و قطار رو رہی ہے، رونے کا جب سبب دریافت کیا، تو بیوی کہنے لگی کہ ہمارے گھر کے درخت پر بیٹھنے والے پرندے بسا اوقات مجھے بلا شرعی حجاب اور بغیر پردے کے دیکھتے ہیں۔

تو مجھے ڈر لگتا ہے، کہ کہیں اس میں اللہ کی معصیت اور گناہ کا ارتکاب نہ ہوتا ہو، جس کا اگر مجھے ایک دن اللہ کے سامنے حساب دینا پڑ گیا، تو میں کیا جواب دوں گی؟ بس یہی سوچکر اور اسی خوف سے میں رو رہی ہوں! بظاہر انتہائی نیک اور دینی جذبات سے لبریز بیوی کا یہ جواب سن کر شوہر بہت خوش ہوا، اور اس کی اس درجہ پاکدامنی، پاکیزگی اور جذبئہ خدا ترسی کو دیکھتے ہوئے عالمِ بے خودی میں فورا اس کا ماتھا چوما، اور اسی وقت کلہاڑی لے کر گھر کے پیڑ کو کاٹ کر باہر پھینک دیا۔ اس واقعہ کے ایک ہی ہفتہ بعد ایک روز وہ شوہر اپنے کام سے جلدی فارغ ہو کر اپنے نارمل وقت سے کچھ پہلے ہی گھر آ گیا، تو کیا دیکھتا ہے، کہ اس کی وہی “پارسا” بیوی اپنے عاشق کے بانہوں میں لپٹی ہوئی سو رہی ہے! یہ ناقابل یقین دلخراش منظر دیکھ کر اس نے مزید کچھ نہیں کیا، بس گھر سے اپنی بعض ضروریات کا سامان لیا، اور اپنا گھر اور بستی چھوڑ کر نکل پڑا، اور چلتے چلتے ایک دوسرے شہر تک پہنچ گیا، جو بادشاہ وقت کا اپنا شہر تھا، وہاں دیکھا؛ کہ امیر شہر کے محل کے ارد گرد کافی لوگ جمع ہیں، یہ منظر دیکھ کر جب اس نے اس بھیڑ کا سبب پوچھا، تو لوگوں نے بتایا: کہ بادشاہ سلامت کی تجوری چوری ہو گئی ہے۔

اسی دوران اس بھیڑ سے ایک ایسے شخص کا گزر ہوا، جو پورے پیر کے بجائے صرف اپنی انگلیوں کے اطراف کے بَلْ بہت سنبھل سنبھل اور بچا بچا کر انتہائی احتیاط سے چل رہا تھا، اس آدمی نے جب اس شخص کے بارے میں پوچھا: کہ یہ صاحب کون ہیں؟ تو لوگوں نے بتایا: کہ اس شہر کے دینی گرو، مذہبی پیشوا اور شیخ صاحب ہیں، جو اپنی انگلیوں کے بَلْ محض اس لئے چلتے ہیں، تاکہ ان کے پاوں کے نیچے کوئی چیونٹی آکر کہیں دب نہ جائے، اور اس کی موت ہو جائے، اور اس طرح وہ نا حق قتل نفس کے عظیم گناہ کے مرتکب نہ ٹھہر جائیں۔ شیخ صاحب کے متعلق لوگوں کا یہ جوابسن کر اس آدمی نے فورا اور برجستہ کہا: اللہ کی قسم! مجھے بادشاہ کے خزانہ اور تجوری کے چور کا پتہ حتمی مل گیا ہے، مجھے اسی وقت بادشاہ کے پاس لے چلو، بادشاہ کے پاس پہنچ کر ابتدائی حال چال کے بعد اس آدمی نے عرض کیا: بادشاہ سلامت! آپ کی تجوری کا چور کوئی اور نہیں، بلکہ آپ کے اس شہر کے دینی گرو اور مذہبی پیشوا شیخ صاحب ہی ہیں، یہ سن کر بادشاہ کو سخت حیرت وتعجب ہوا، جس پر وہ آدمی مزید یقین دہانی کراتے ہوئے کہنے لگا: کہ اگر مجھے اس الزام میں جھوٹا پایا جائے، تو میرا خون معاف، اور اگر اس الزام کے بدلے میری گردن بھی اڑا دی جائے۔

تو بھی میں اس کیلئے مکمل طور پرتیار ہوں۔ آخر کار بادشاہ نے اس کا اتنا پختہ جواب سن کر شیخ صاحب کو فورا دربار میں حاضر کرنے کا حکم دے دیا، انہیں دربار میں لایا گیا، پوچھ تاچھ اور تحقیق کے بعد آخر کار شیخ صاحب نے اپنا جرم قبول، اور تجوری چوری کا اعتراف کر ہی لیا۔شیخ کے اقرار جرم کے بعد بادشاہ اس شخص سے کہنے لگا: تم یہ بتاو کہ آخر تم کو کیسے پتہ چلا، کہ چور یہی شیخ صاحب ہیں، جب کہ وہ اپنی ظاہری شکل وصورت اور وضع قطع سے انتہائی نیک، صالح، اور پارسا دِ کْھتے ہیں؟بادشاہ کے اس سوال کا جو قیمتی جواب اس آدمی نے اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں دیا، وہ جواب یہ تھا کہ: “جب بھی اظہار پارسائی میں مبالغہ آرائی ہو رہی ہو،اور جہاں بھی نیکی اور فضائل کے بیان میں حد سے زیادہ د کھاوا نظر آئے، تو آپ فوراً سمجھ لیں، کہ وہاں ضرور کسی بڑے جرم اور گناہ کو چھپانے کی کوشش ہو رہی ہے” سچ ہے کہ صرف:لباسِ پارسائی سے شرافت آ نہیں سکتی..شرافت نفس میں ہوگی تو انساں پارسا ہوگا..کردار کو کپڑوں میں چھپا رکھا ہے تو نے, کپڑوں کی طرح تو تیرا کردار نہیں ہے ۔اللہ رب العزت ہم سب کو ظاہر کے ساتھ ساتھ اپنے باطن کوبھی سنوارنے کی نیک توفیق، نیز ہمیشہ سچی پارسائی اور حقیقی تقویٰ نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

کرسمس_ڈے) 25 دسمبر کی حقیقت

1 - میری کرسمس کہنا کیسا هے؟
2 - اس کا کیا مطلب ہے ...... ؟
3 - کیا ہم کسی عیسائی کو میری کرسمس کہہ سکتے ہیں ...... ؟


میری کرسمس کا مطلب ہے .....
 اللہ کے بیٹا ہوا ہے، مبارک ہو. 

الله کی پناہ، نعوذباللہ من ذلك

ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے جو مسلمان سے ایمان ختم کر دیتا ہے.
       _____ ×××××× _____
اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے _____

(قل هو الله أحد الله الصمد لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا احد)
( سورة إخلاص. جزء 30)

ترجمہ ------ اے نبی! آپ کہہ دیجئے، اللہ ایک ہے. وہ کسی کا محتاج نہیں ہے. نہ اس نے کسی بیٹے کو جنا. اور نہ اس کو کسی نے جنا ہے .اور نہ کوئی اس جیسا ہو سکتا ہے

ہم مسلمان ہیں .....
نہ تو ہمیں میری کرسمس کہنا چاہئے، ❌
اور نہ ہی ہیپی نیو ایئر.❌

عیسی عليه السلام. کو عیسائی اللہ کا بیٹا مانتے ہیں
اور ان کی پیدائش کی خوشی میں کرسمس ڈے مناتے ہیں.

تو برائے کرم .....
مسلمان ہونے کے ناطے کبھی .....
❌ میری کرسمس نہ کہنا.
نہ اس دن کو منانا

📌اس بات کا لوگ شعور نہیں رکھتے کہ جب ہم کسی کو کرسمس کی مبارک دیتے ہیں تو ہم اس بات سے اتفاق کر رہے ہوتے ہیں کہ الله نے بیٹا جنا (پیدا کیا). نعوذ بالله یہ شرک ہے.

سبحان الله عما یشرکون".​
الله پاک ہے اس سے جو یہ شرک کرتے ہیں

قریب ہے کے اس (بات) سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر کر ریزہ ریزہ ہو جائیں.
کہ دعوی کیا انہوں نے رحمان کے لیے اولاد کا
(یعنیMerry Christmas الله نے بیٹا پیدا کیا نعوذبالله).
رحمان کے لائق نہیں کے وہ اولاد بنائے (پیدا کرے یا رکھے).
سورۃ مریم (19)
آیت 90-92

کہہ دو الله ایک (یکتا) ہے.
الله بےنیاز ہے.
نہیں جنا اس نے (کسی کو) اور نہ ہی وہ (خود) جنا گیا.
اور اس کا کوئی بھی ہمسر نہیں ہے.
سورۃ الاخلاص (112)
آیت 1-4
ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان تہواروں سے بچ کر رہے۔
الله پاک ہمیں ہر قسم کے کفرو شرک سے بچائے کیونکہ الله کے ہاں شرک کی معافی نہیں ....

*▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭*

جہاں جنوں

میرا بڑا تایا زاد منشیات فروش تھا سو پیسوں کی ریل پیل تھی۔ اچھے وقتوں میں اس کے کسی جاننے والے نے اس سے دو ہزار روپے ادھار لیا تھا کہ کبھی اچھا وقت آیا تو لوٹا دونگا۔ نشیئوں پر آج تک اچھا وقت کبھی آتے نہیں دیکھا سو سالوں سے اس کے پیسے بھی ڈوبے رہے۔ ایک دن گھر میں اس کے اپنے حالات اچھے نہیں رہے کہ بیگم نے سونے کی چوڑیوں کی فرمائش کی۔ پولیس کے چھاپوں سے بزنس بھی ٹپ ہوگیا تھا۔ کھاتے کھول کر پرانے حساب کتاب لیکر بیٹھ گیا کہ کس سے کتنے لینے ہیں۔ صفحات پلٹتا گیا کہ برسوں پرانے دو ہزار پر نظریں اٹک گئیں۔ غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے پستول اٹھائی کہ ایک ماہ کی مہلت پر دو ہزار لئے تھے اور دو سال ہوگئے کہ پیسے واپس نہیں کئے۔ 
میں یونیورسٹی سے چھٹیوں پر آیا تھا۔ گھر کے دروازے پر دھوپ سینک رہا تھا کہ آواز دی۔ چل آ بائیک پر بیٹھ۔ 
غصے میں تھا پوچھا نہیں کہ کہاں بس ایک بات کا ڈر تھا کہ ابا نہ دیکھ لیں کیونکہ تایازاد کیساتھ بیٹھنے کی سخت ممانعت تھی کہ کہیں اپنا کردار نہ خراب ہو۔
گاوں کے کچی پکی ناہموار سڑکوں پر بائیک دوڑاتا رہا اور ساتھ میں مغلظات بکتا رہا کہ اج اس بے غیرت کو چھوڑوں گا نہیں۔ میں کانپ رہا تھا کہ بھائی نے اگر کسی کا قتل کیا تو میں تو مفت میں مارا گیا۔
تین گاوں چھوڑ کر چوتھے گاوں، اس کے مقروض کے گھر جا پہنچے۔ موٹر سائیکل کھڑی کی۔ بھائی غصے میں بائیک سے نیچے اترا اور دروازے پر ہاتھ مارنے والا تھا کہ اندر سے ایک نسوانی آواز آئی۔
"اللہ غارت کرے میرے والدین کو جنہوں نے تیرے پلے باندھ دیا۔ دو دن سے گھر میں آٹا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ پڑوسیوں سے مانگ مانگ کر بچوں کو کھلا رہی ہوں۔ اپنی بات ہوتی تو صبر کرلوں۔ مگر ان معصوموں کا کیا جرم ہے؟۔"۔
آگے سے مرد کی منمناتی آواز آئی۔
"کیا کروں میں بھی اب تنگ آگیا ہوں کوئی مزدوری ہی نہیں دیتا کہ چرسی ہے ہاتھ پیر کانپ رہے ہیں۔۔۔۔"۔
عورت کی آواز آئی
"اللہ غارت کرے منشیات فروشوں کو جو یہ زہر بیچ رہے ہیں۔ جیتے جی مار دیتے ہیں یہ ظالم۔۔۔۔۔۔۔"۔
بھائی کا ہاتھ اٹھا کا اٹھا رہ گیا۔ جیسے اس کیلئے کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہورہا تھا۔
تیزی سے واپس پلٹا۔ بائیک پر بیٹھا اور ایک گھنٹے بعد دس ہزار کا راشن گدھا گاڑی پر ڈھوتا ہوا واپس اس گھر کے سامنے تھا جہاں سے دو ہزار لینے تھے۔
دروازہ کھٹکھٹایا، آواز دی
"میر محمد سے کہنا عابد آیا ہے"۔
اندر خاموشی چھا گئی۔
تھوڑی دیر کے بعد عورت کی لجاتی آواز آئی۔
"بھیا میر محمد پچھلے ایک ہفتے سے گھر نہیں ہے۔۔۔۔۔۔"۔
بھائی کو پہلی بار مسکراتے دیکھا۔ کانپتی آواز میں جواب دیا
"بھابھی باہر سامان پڑا ہے اندر لیجائیں اور میر محمد سے کہیں اگلے ماہ پیسے نہیں دیئے تو گولی ماردونگا"۔
میں حیرت سے بھائی کو دیکھ رہا تھا جس کا پورا جسم لرز رہا تھا۔

عارف خٹک

Friday, December 23, 2022

بارڈر کی اُس پار


 واہگہ بارڈر لاھور سے صرف چند قدم دور انڈیا کا اٹاری گاؤں ہے، اس گاؤں میں پیاز 25 روپے آٹا 30 روپے کلو، روٹی 3 روپے اور بناسپتی گھی 60 روپے کلو ہے، وہاں سے چند قدم پیچھے آئیں تو یہاں لاھور کا گاؤں برکی ہے، جس میں پیاز 230 آٹا 100 روپے کلو، روٹی 12 روپے اور بناسپتی گھی 500 روپے کلو ہے۔

 فصل ایک، زمین ایک، موسم ایک، ماحول ایک زمیندار ایک جیسے، بس فرق صرف ترجیحات اور قومی غیرت کا ھے۔ ایلیٹ ایڈیئٹس(elite idiots) کی اپنی تجارت کیلئے بارڈر کے گیٹ کھل جاتے ھیں، مٹھائیاں ایکسچینج ہوتی ہیں، مگر عوام کو 75 سال سے دشمنیاں پڑھائی گئی ہیں۔

 امیرِ شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے

کبھی بحیلہء مذہب کبھی بنام_وطن


فیصلہ

 چین میں3 گهنٹےمیں زنابالجبر کا فیصلہ!

ایک دفعہ بیجنگ شہر کے ایک محلے میں ایک نَو عمر لڑکی سے زنا بالجبر کا واقعہ پیش آیا اور مجرم روپوش ہو گیا۔ چیئر مین ماؤ تک خبر پہنچی۔ وہ خود متاثرہ لڑکی سے ملے اور اس سے پوچھا : "جب تم سے زیادتی کی گئی تو کیا تم مدد کے لیے چلائی تھیں ؟"

لڑکی نے اثبات میں سر ہلایا۔ 

چیئر مین ماؤ نے اس کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور نرمی سے کہا: "میری بچی! کیا تم اسی قوت کے ساتھ دوبارہ چِلا سکتی ہو ؟"

لڑکی نے کہا : " ہاں ۔۔۔ "

ماؤ کے حکم پر انقلابی گارڈ کے کچھ اہلکار نصف کلومیٹر کے دائرے میں کھڑے کر دیے گئے ۔ اس کے بعد لڑکی سے کہا گیا کہ : "پوری قوت کے ساتھ چیخو ۔۔۔!"

لڑکی نے ایسا ہی کیا۔ چیئرمین ماؤ نے تمام اہلکاروں کو بلایا اور ہر ایک سے پوچھا گیا کہ لڑکی کی چیخ سنائی دی یا نہیں ؟

سب نے کہا : "لڑکی کی چیخ سنائی دی گئی ۔"

چیئرمین ماؤ نے اگلا حکم صادر کیا کہ نصف مربع کلومیٹر کے اس علاقے کے تمام مردوں کو گرفتار کر لیا جائے اور تیس منٹ کے اندر اگر مجرم کی درست نشاندہی نہ ہو سکے تو تمام گرفتار مردوں کو گولی سے اڑا دیا جائے۔

حکم کی فوری تعمیل ہوئی اور دی گئی مہلت کو ابھی بمشکل دس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ مجرم کی نشاندہی ہوگئی اور اگلے بیس منٹ کے اندر اندر مجرم کو پکڑ کر چیئر مین ماؤ کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ لڑکی نے شناخت کی۔ موقع پر فیصلہ ہوا اور مجرم کا بھیجہ اڑا دیا گیا۔ جرم سے سزا تک کا وہ دورانیہ محض تین گھنٹوں پر مشتمل رہا۔ اسے کہتے ہیں فوری انصاف ۔۔۔ جس کے بل بوتے پر آج چین کامیاب ملکوں کی فہرست میں سب سے نمایاں ھے۔ 

کاش آج عمر رضی اللہ تعالٰی عنہہ جیسا حکمران ہوتا تو پاکستان کی معصوم زینبوں اور فرشتاوں کو یہ سیاہ دن نہ دیکھنے پڑتے.


اردو کا استاذ ہونے کا فائدہ

اُردو کا اُستاذ ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پیپر چیک کرتے ہوئے بندے کو اُکتاہٹ نہیں ہوتی اور بندہ مسلسل مسکراتا ہی رہتا ہے ۔
مضمون نگاری کے حوالے موضوع تھا کہ "" جدید دور میں اولاد اور والدین کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے جا رہے ہیں """ تبصرہ کیجیے 
ایک بچے نے اپنے مضمون میں بہت ہی شاندار دلائل کے ہمراہ لکھا کہ "" جدید نسل اور والدین کے درمیان بڑھتے فاصلے ایک زندہ حقیقت ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اپنے والدین کی شادیاں سولہ ، سترہ یا بیس سال کی عمر میں ہو گئی تھیں جبکہ جدید نسل کو چوبیس سال کی عمر تک تعلیم کے بہانے اکیلا رکھا جاتا ہے اور اس کے بعد اچھی نوکری حاصل کرنے میں تین چار سال مزید لگ جاتے ہیں ۔ جدید نسل اپنے بزرگوں کی چالاکیاں خوب سمجھتی ہے ۔ خود تو اپنے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی دیکھ رہے ہیں اور دوسری طرف جدید نسل دیر سے شادی ہونے کی وجہ سے شاید ہی اپنی اولاد کو بھی جوان ہو کر برسرِ روزگار ہوتا دیکھ سکے ۔
والدین اگر چاہتے ہیں کہ اُن کی اولاد خوش رہے تو والدین کو اپنے بزرگوں کے طرزِ عمل کو اپناتے ہوئے اپنے بچوں کی دوران تعلیم ہی شادی کر دینی چاہیے تا کہ جدید نسل اور والدین کے درمیان خوشگوار ماحول قائم ہو سکے ۔ جہاں تک بات رزق کی ہے ، اس کی گارنٹی تو ڈگری کے بعد بھی نہیں اور ڈگری کے بغیر بھی لوگ یہاں گورنر بن کر یونیورسٹیوں کے چانسلر لگ رہے ہیں اور ڈگریاں بانٹ رہے ہیں """ :)

کتے

علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا۔ سلوتریوں سے دریافت کیا۔ خود سر کھپاتے رہے۔ لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا فائدہ کیا ہے؟ گائے کو لیجیے دودھ دیتی ہے۔ بکری کو لیجیے، دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔ یہ کتے کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ کتا وفادار جانور ہے۔ اب جناب وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار بغیر دم لیے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے چلے گئے۔ تو ہم لنڈورے ہی بھلے۔

کل ہی کی بات ہے کہ رات کے کوئی گیارہ بجے ایک کتے کی طبیعت جو ذرا گدگدائی تو انہوں نے باہر سڑک پر آ کر طرح کا ایک مصرع دے دیا۔ ایک آدھ منٹ کے بعد سامنے کے بنگلے میں ایک کتے نے مطلع عرض کر دیا۔ اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کو جو غصہ آیا، ایک حلوائی کے چولہے میں سے باہر لپکے اور بھنا کے پوری غزل مقطع تک کہہ گئے۔ اس پر شمال مشرق کی طرف ایک قدر شناس کتے نے زوروں کی داد دی۔ اب تو حضرت وہ مشاعرہ گرم ہوا کہ کچھ نہ پوچھئے، کم بخت بعض تو دو غزلے سہ غزلے لکھ لائے تھے۔ کئی ایک نے فی البدیہہ قصیدے کے قصیدے پڑھ ڈالے، وہ ہنگامہ گرم ہوا کہ ٹھنڈا ہونے میں نہ آتا تھا۔ ہم نے کھڑکی میں سے ہزاروں دفعہ ”آرڈر آرڈر“ پکارا لیکن کبھی ایسے موقعوں پر پر دھان کی بھی کوئی بھی نہیں سنتا۔ اب ان سے کوئی پوچھئے کہ میاں تمہیں کوئی ایسا ہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوا میں جاکر طبع آزمائی کرتے یہ گھروں کے درمیان آ کر سوتوں کو ستانا کون سی شرافت ہے۔

اور پھر ہم دیسی لوگوں کے کتے بھی کچھ عجیب بدتمیز واقع ہوئے ہیں۔ اکثر تو ان میں ایسے قوم پرست ہیں کہ پتلون کوٹ کو دیکھ کر بھونکنے لگ جاتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک حد تک قابل تعریف بھی ہے۔ اس کا ذکر ہی جانے دیجیئے اس کے علاوہ ایک اور بات ہے یعنی ہمیں بارہا ڈالیاں لے کر صاحب لوگوں کے بنگلوں پر جانے کا اتفاق ہوا، خدا کی قسم ان کے کتوں میں وہ شائستگی دیکھی ہے کہ عش عش کرتے لوٹ آئے ہیں۔ جوں ہی ہم بنگلے کے اندر داخل ہوئے کتے نے برآمدے میں کھڑے کھڑے ہی ایک ہلکی سی ”بخ“ کردی اور پھر منہ بند کر کے کھڑا ہو گیا۔ ہم آگے بڑھے تو اس نے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں پھر ”بخ“ کردی۔ چوکیداری کی چوکیداری موسیقی کی موسیقی۔ ہمارے کتے ہیں کہ نہ راگ نہ سر۔ نہ سر نہ پیر۔ تان پہ تان لگائے جاتے ہیں، بے تالے کہیں کے نہ موقع دیکھتے ہیں، نہ وقت پہچانتے ہیں، گل بازی کیے جاتے ہیں۔ گھمنڈ اس بات پر ہے کہ تان سین اسی ملک میں تو پیدا ہوا تھا۔

اس میں شک نہیں کہ ہمارے تعلقات کتوں سے ذرا کشیدہ ہی رہے ہیں۔ لیکن ہم سے قسم لے لیجیے جو ایسے موقع پر ہم نے کبھی سیتا گری سے منہ موڑا ہو۔ شاید آپ اس کو تعلی سمجھیں لیکن خدا شاہد ہے کہ آج تک کبھی کسی کتے پر ہاتھ اٹھ ہی نہ سکا۔ اکثر دوستوں نے صلاح دی کہ رات کے وقت لاٹھی چھڑی ضرور ہاتھ میں رکھنی چاہیے کہ دافع بلیات ہے لیکن ہم کسی سے خواہ مخواہ عداوت پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ کتے کے بھونکتے ہی ہماری طبعی شرافت ہم پر اس درجہ غلبہ پا جاتی ہے کہ آپ اگر ہمیں اس وقت دیکھیں تو یقیناً یہی سمجھیں گے کہ ہم بزدل ہیں۔ شاید آپ اس وقت یہ بھی اندازہ لگا لیں کہ ہمارا گلا خشک ہوا جاتا ہے۔ یہ البتہ ٹھیک ہے ایسے موقع پر کبھی گانے کی کوشش کروں تو کھرج کے سروں کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا۔ اگر آپ نے بھی ہم جیسی طبیعت پائی ہو تو آپ دیکھیں گے کہ ایسے موقع پر آیت الکرسی آپ کے ذہن سے اتر جائے گی اس کی جگہ آپ شاید دعائے قنوت پڑھنے لگ جائیں۔
 
بعض اوقات ایسا اتفاق بھی ہوا ہے کہ رات کے دو بجے چھڑی گھماتے تھیٹر سے واپس آرہے ہیں اور ناٹک کے کسی نہ کسی گیت کی طرز ذہن میں بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں چونکہ گیت کے الفاظ یاد نہیں اور نومشقی کا عالم بھی ہے اس لیے سیٹی پر اکتفا کی ہے کہ بے سرے بھی ہو گئے تو کوئی یہی سمجھے گا کہ انگریزی موسیقی ہے، اتنے میں ایک موڑ پر سے جو مڑے تو سامنے ایک بکری بندھی تھی۔ ذرا تصور ملاحظہ ہو آنکھوں نے اسے بھی کتا دیکھا، ایک تو کتا اور پھر بکری کی جسامت کا۔ گویا بہت ہی کتا۔ بس ہاتھ پاؤں پھول گئے چھڑی کی گردش دھیمی دھیمی ہوتے ہوتے ایک نہایت ہی نامعقول، زاوئیے پر ہوا میں کہیں ٹھہر گئی۔ سیٹی کی موسیقی بھر تھرتھرا کر خاموش ہو گئی لیکن کیا مجال جو ہماری تھوتھنی کی مخروطی شکل میں ذرا بھی فرق آیا ہو۔ گویا ایک بے آواز لے ابھی تک نکل رہی ہے۔ طب کا مسئلہ ہے کہ ایسے موقعوں پر اگر سردی کے موسم میں بھی پسینہ آ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں بعد میں پھر سوکھ جاتا ہے۔

چونکہ ہم طبعاً ذرا محتاط ہیں۔ اس لیے آج تک کتے کے کاٹنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ یعنی کسی کتے نے آج تک ہم کو کبھی نہیں کاٹا اگر ایسا سانحہ کبھی پیش آیا ہوتا تو اس سرگزشت کی بجائے آج ہمارا مرثیہ چھپ رہا ہوتا۔ تاریخی مصرعہ دعائیہ ہوتا کہ ”اس کتے کی مٹی سے بھی کتا گھاس پیدا ہو“ لیکن۔

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے سگ رہ بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
 
جب تک اس دنیا میں کتے موجود ہیں اور بھونکنے پر مصر ہیں سمجھ لیجیے کہ ہم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں اور پھر ان کتوں کے بھونکنے کے اصول بھی تو کچھ نرالے ہیں۔ یعنی ایک تو متعدی مرض ہے اور پھر بچوں اور بوڑھوں سب ہی کو لاحق ہے۔ اگر کوئی بھاری بھرکم اسفندیار کتا کبھی کبھی اپنے رعب اور دبدبے کو قائم رکھنے کے لیے بھونک لے تو ہم بھی چار و ناچار کہہ دیں کہ بھئی بھونک۔ (اگرچہ ایسے وقت میں اس کو زنجیر سے بندھا ہونا چاہیے۔ ) لیکن یہ کم بخت دو روزہ، سہ روزہ، دو دو تین تین تولے کے پلے بھی تو بھونکنے سے باز نہیں آتے۔ باریک آواز ذرا سا پھیپھڑا اس پر بھی اتنا زور لگا کر بھونکتے ہیں کہ آواز کی لرزش دم تک پہنچتی ہے اور پھر بھونکتے ہیں چلتی موٹر کے سامنے آ کر گویا اسے روک ہی تو لیں گے۔ اب اگر یہ خاکسار موٹر چلا رہا ہوتو قطعاً ہاتھ کام کرنے سے انکار کردیں لیکن ہر کوئی یوں ان کی جان بخشی تھوڑا ہی کردے گا؟

کتوں کے بھونکنے پر مجھے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ان کی آواز سوچنے کے تمام قویٰ معطل کر دیتی ہے خصوصاً جب کسی دکان کے تختے کے نیچے سے ان کا ایک پورا خفیہ جلسہ باہر سڑک پر آ کر تبلیغ کا کام شروع کردے تو آپ ہی کہیے ہوش ٹھکانے رہ سکتے ہیں؟ ہر ایک کی طرف باری باری متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ کچھ ان کا شور، کچھ ہماری صدائے احتجاج (زیرلب) بے ڈھنگی حرکات و سکنات (حرکات ان کی، سکنات ہماری۔ ) اس ہنگامے میں دماغ بھلا خاک کام کر سکتا ہے؟ اگرچہ یہ مجھے بھی نہیں معلوم کہ اگر ایسے موقع پر دماغ کام کرے بھی تو کیا تیر مار لے گا؟

بہرصورت کتوں کی یہ پرلے درجے کی نا انصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفرین رہی ہے۔ اگر ان کا ایک نمائندہ شرافت کے ساتھ ہم سے آ کر کہہ دے کہ عالی جناب، سڑک بند ہے تو خدا کی قسم ہم بغیر چوں و چرا کیے واپس لوٹ جائیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہم نے کتوں کی درخواست پر کئی راتیں سڑکیں ناپنے میں گزار دی ہیں لیکن پوری مجلس کا یوں متفقہ و متحدہ طور پر سینہ زوری کرنا ایک کمینہ حرکت ہے (قارئین کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر ان کا کوئی عزیز و محترم کتا کمرے میں موجود ہو تو یہ مضمون بلند آواز سے نہ پڑھا جائے مجھے کسی کی دل شکنی مطلوب نہیں۔ )
 
خدا نے ہر قوم میں نیک افراد بھی پیدا کیے ہیں۔ کتے اس کلیے سے مستثنیٰٰ نہیں۔ آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہوگا، اس کے جسم میں تپسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بار گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔ سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورت حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔ کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کر دیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔

رات کے وقت یہی کتا اپنی خشک، پتلی سی دم کو تاحد امکان سڑک پر پھیلا کر رکھتا ہے۔ اس سے محض خدا کے برگزیدہ بندوں کی آزمائش مقصود ہوتی ہے۔ جہاں آپ نے غلطی سے اس پر پاؤں رکھ دیا، انہوں نے غیظ و غیب کے لہجہ میں آپ سے پرسش شروع کردی، ”بچہ فقیروں کو چھیڑتا ہے، نظر نہیں آتا، ہم سادھو لوگ یہاں بیٹھے ہیں“ ۔ بس اس فقیر کی بددعا سے سے اسی وقت رعشہ شروع ہوجاتا ہے۔ بعد میں کئی راتوں تک یہی خواب نظر آتے رہتے ہیں کہ بے شمار کتے ٹانگوں سے لپٹے ہوئے ہیں اور جانے نہیں دیتے۔ آنکھ کھلتی ہے تو پاؤں چارپائی کی ادوائن میں پھنسے ہوتے ہیں۔

اگر خدا مجھے کچھ عرصے کے لیے اعلیٰ قسم کے بھونکنے اور کاٹنے کی طاقت عطا فرمائے، تو جنون انتقام میرے پاس کافی مقدار میں ہے۔ رفتہ رفتہ سب کتے علاج کے لیے کسولی پہنچ جائیں۔ ایک شعر ہے :

عرفی تو میندیش زغوغائے رقیباں
آواز سگاں کم نہ کند رزق گدا را
 
یہی وہ خلاف فطرت شاعری ہے، جو ایشیا کے لیے باعث ننگ ہے، انگریزی میں ایک مثل ہے، کہ ”بھونکتے ہوئے کتے کاٹا نہیں کرتے“ یہ بجا سہی۔ لیکن کون جانتا ہے، کہ ایک بھونکتا ہوا کتا کب بھونکنا بند کردے، اور کاٹنا شروع کردے!

گالی کا کیس


ﺍﯾﮏ ﺩﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﻟﮍﮐﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﮯﻗﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﮔﺰﺭﺍ۔ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯﺍﺳﮯ ﺳﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ

ﻟﺌﮯﻣﺮﺯﺍ ﮐﻮ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ۔ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺍﻭﮐﺎﮌﮦ

ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﻨﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺎ ﮨﮯ۔ﺍﺱ ﻭﻗﺖ

ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﭘﻮﺭﺍ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﺘﯽ

ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻟﮍﮐﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ

ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﺘﮏ ﻋﺰﺕ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻭﮐﺎﮌﮦ

ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﻠﺲ ﺍﺣﺮﺍﺭ ﻻﮨﻮﺭ ﮐﮯ ﺩﻓﺘﺮ ﮐﻮ

ﺧﻂ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﯼ ﺻﻮﺭﺗﺤﺎﻝ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ

ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺪﺩﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻓﺘﺮ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺠﺎ

ﺟﺎﺋﮯ۔ﺟﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ۔

ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻄﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺷﺎﮦ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ

ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﯿﺎﺕ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ۔ ﺍٓﭖ

ﺍﻭﮐﺎﮌﮦ ﭼﻠﮯﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯿﺲ ﮐﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﺮﯾﮟ ۔

ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻭﮐﺎﮌﮦ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ۔ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ

ﮐﯽ۔ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﯿﺲ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﯿﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﻭﮐﯿﻞ ﮐﯽ

ﺧﺪﻣﺎﺕ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﮟ۔ ﺍﺳﮯ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ﺣﻮﺍﻟﮯ

ﺩﮐﮭﺎﺋﮯﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﺮﺯﺍ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ

ﮐﯿﺎ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﯼ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ

ﮐﺮﻧﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﻥ ﮐﻮﻥ ﺳﮯ ﺩﻻﺋﻞ ﺩﯾﻨﮯ ﮨﯿﮟ

ﻣﻘﺮﺭﮦ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮭﭽﺎﮐﮭﭻ ﺑﮭﺮ

ﮔﺌﯽ۔ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ﻣﻘﺪﻣﮯ ﮐﯽ ﮐﺎﺭﻭﺍﺋﯽ ﮐﻮ ﺳﻨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ

ﺗﮭﮯ۔ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺣﯿﺎﺕ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻭﮐﯿﻞ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺗﯿﺎﺭﯼ

ﮐﺮﻭﺍﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﻭﮦ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ

ﻭﮐﯿﻞ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﻟﮯ ﮔﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﯽ

ﺑﺘﺎﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﻭﮦ ﺳﺐ ﯾﻮﻧﮩﯽ

ﺭﮦ ﮔﺌﯽ۔

ﻭﮐﯿﻞ ﺍﺱ ﻃﺮﻑ ﺍٓﯾﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻋﺪﺍﻟﺖ

ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻟﻤﺒﯽ

ﭼﻮﮌﯼ ﺑﺤﺚ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺩﻻﺋﻞ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ﺍٓﭖ

ﺻﺮﻑ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ! ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺮﺯﺍ ﮐﻮ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ

ﮔﺎﻟﯽ ﺩﯼ ﮨﮯ۔ ﺗﺎﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺳﮑﮯ ﮐﮧ

ﻭﮦ ﮔﺎﻟﯽ ﮨﮯ ﺑﮭﯽ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ

ﺳﮑﺘﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ

ﻣﺠﺴﭩﺮﯾﭧ ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﺭﻭﻣﺎﻝ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ

ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﺧﻮﺏ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ۔ ﺍٓﺧﺮ ﻣﺮﺯﺍﺋﯽ ﻧﮯ

ﮐﮩﺎ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﻮﻧﺴﯽ ﮔﺎﻟﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ

ﮔﺎﻟﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﺗﮭﯽ ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ

ﻧﮩﯿﮟ ، ﻣﯿﮟ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﺍٓﭖ ﺳﻨﺘﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ، ﺟﺐ ﻭﮦ

ﮔﺎﻟﯽ ﺍٓﺋﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺩﯾﮟ :

کیا اسنے کہا تھا کہ تیرے مرزے دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟

 ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺳﺎﻧﺲ

ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺯﺍﺋﯽ ﮐﻮ ﮐﺌﯽ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ، ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﮐﯿﺎ ﺍﻥ ﮔﺎﻟﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﮔﺎﻟﯽ ﺍٓﺋﯽ ھﮯ، ﺟﻮ ﺍﻥ ﻟﮍﮐﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﺎ :

ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﻭﺭ

ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺳﻨﻮ، ﺍﺱ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﯼ 51 ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ

ﺩﯾﮟ۔ ﻣﺠﺴﭩﺮﯾﭧ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺩﺑﯽ ﺩﺑﯽ ﮨﻨﺴﯽ

ﮨﻨﺲ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺑﺲ ﻣﺮﺯﺍﺋﯽ ﺳﺎﮐﺖ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ

ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﻓﻖ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺏ ﭘﮭﺮ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ۔ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ

ﮐﻮﺋﯽ ﮔﺎﻟﯽ ﺍٓﺋﯽ ھﮯ۔؟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ

ﻧﮩﯿﮟ۔

ﺍﺏ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﺟﺞ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺳﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻞ ﮐﯽ

ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﮐﮯ ﺁﺅﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ

ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ھﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﻞ ﺗﮏ ﻭﮦ ﮔﺎﻟﯽ ﯾﺎﺩ ﺁ ﺟﺎﺋﮯ ۔

ﺟﺞ ﻧﮯ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺩﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺩﮮ ﺩﯼ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺩﻥ ﺟﺐ ﻭﮐﯿﻞ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺠﺴﭩﺮﯾﭧ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ

ﺑﺘﺎﯾﺎ : ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﻞ ﮨﯽ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﺩﮮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﯿﺲ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔


عثمانی ترکیوں کی بے مثل و بے نظیر عادات

 *(1) قہوہ اور پانی:* 
جب عثمانی ترکوں کے پاس کوئی مہمان آتا تو وہ اس کے سامنے قہوہ اور سادہ پانی پیش کرتے، اگر مہمان پانی کی طرف ہاتھ بڑھاتا وہ سمجھ جاتے کہ مہمان کو کھانے کی طلب ھے تو پھر وہ بہترین کھانے کا انتظام کرتے اور اگر وہ قہوہ کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو وہ جان لیتے کہ مہمان کو کھانے کی حاجت نہیں ھے۔

 *(2) گھر کے باہر پھول:* 
اگر کسی گھر کے باہر پیلے رنگ کے پھول رکھے نظر آتے تو اس کا مطلب ہوتا کہ اس گھر میں مریض موجود ھے آپ اس مریض کی وجہ سے گھر کے باہر شور شرابہ نہ کریں اور عیادت کو آسکتے ہیں اور اگر گھر کے باہر سرخ پھول رکھتے ہوتے تو یہ اشارہ ہوتا کہ گھر میں بالغ لڑکی ہے لہذا گھر کے آس پاس بازاری جملے نہ بولے جائیں اور اگر آپ پیغامِ نکاح لانا چاہتے ہیں تو خوش آمدید۔

 *(3) ہتھوڑا:* 
گھر کے باہر دو قسم کے ڈور بیل (گھنٹی نما) ہتھوڑے رکھے ہوتے، ایک بڑا ایک چھوٹا، اگر بڑا ہتھوڑا بجایا جاتا تو اشارہ ہوتا کہ گھر کے باہر مرد آیا ھے لہذا گھر کا مرد باہر جاتا تھا اور اگر چھوٹا ہتھوڑا بجتا تو معلوم ہوتا کہ باہر خاتون موجود ہے لہذا اس کے استقبال کے لئیے گھر کی خاتون دروازہ کھولتی تھی۔

 *(4) صدقہ:* 
عثمانی ترکوں کے صدقہ دینے کا انداز بھی کمال تھا کہ ان کے مالدار لوگ سبزی فروش یا دوکانداروں کے پاس جا کر اپنے نام سے کھاتہ کھلوا لیتے تھے اور جو بھی حاجت مند سبزی یا راشن لینے آتا تو دوکاندار اس سے پیسہ لیئے بغیر اناج و سبزی دے دیتا تھا یہ بتائے بغیر کہ اس کا پیسہ کون دے گا، کچھ وقت بعد وہ مالدار پیسہ ادا کر کے کھاتہ صاف کروا دیتا۔

 *(5) تریسٹھ سال:* 
اگر کسی عثمانی ترک کی عمر تریسٹھ سال سے بڑھ جاتی اور اس سے کوئی پوچھتا کہ آپکی عمر کیا ہے؟ تو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حیاء و ادب کرتے ہوئے یہ نہ کہتا کہ میری عمر تریسٹھ سال سے زیادہ ہوگئی ھے بلکہ یہ کہتا بیٹا ہم حد سے آگے بڑھ چکے ہیں، اللّٰه اللّٰه کیسا ادب کیسا عشق تھا ان لوگوں کا، کیسی بہترین عادات تھی ان لوگوں کی، یہی وجہ تھی کہ عالم کفر نے سلطنت عثمانیہ کے غداروں سے مل کر ٹکڑے کر ڈالے.♥

تعلیمی نظام

آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان برصغیر پاک و ہند 1858ء میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ برصغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس " پاسنگ مارکس " 65 ہیں تو برصغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کر دیے گئے اور ہم 2018 میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔

جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھایا جاتا ہے اور وہ " اخلاقیات " اور " آداب " ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا "جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں "۔ مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علیؓ کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک ان کی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی۔ بہر حال، اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے۔ ہمارے ایک دوست جاپان گئے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں۔ یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز۔

اشفاق احمد صاحب کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انہوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے ۔ آپ یقین کریں استادوں کو عزت وہی قوم دیتی ہے جو تعلیم کو عزت دیتی ہے اور اپنی آنے والی نسلوں سے پیار کرتی ہے۔ جاپان میں معاشرتی علوم " پڑھائی" نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہے اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں۔ جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لیے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں، صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے۔

دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے، ہمارے بچے " پبلشرز " بن چکے ہیں۔ آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں، بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں، اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں، خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیں اور خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کر کے خود نمبر بھی دے دیتے ہیں، بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کر دیتے ہیں اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں، جن کے بچے فیل ہو جاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو " کوڑھ مغز " اور " کند ذہن " کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔

آپ ایمانداری سے بتائیں اس سب کام میں بچے نے کیا سیکھا، سوائے نقل کرنے اور چھاپنے کے؟ ہم 13، 14 سال تک بچوں کو قطار میں کھڑا کر کر کے اسمبلی کرواتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ کر اپنا کام کرواتے ہیں، جو جتنے بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے ۔ ہم پہلی سے لے کر اور دسویں تک اپنے بچوں کو " سوشل اسٹڈیز " پڑھاتے ہیں اور معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ بتانے اور سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ ہم نے کتنا " سوشل " ہونا سیکھا ہے؟ اسکول میں سارا وقت سائنس " رٹتے " گزرتا ہے اور آپ کو پورے ملک میں کوئی " سائنس دان " نامی چیز نظر نہیں آئے گی کیونکہ بدقسمتی سے سائنس " سیکھنے " کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہے اور ہم اسے بھی " رٹّا" لگواتے ہیں۔

ہمارا خیال ہے کہ اسکولز کے پرنسپل صاحبان اور ذمہ دار اساتذہ اکرام سر جوڑ کر بیٹھیں اس " گلے سڑے " اور " بوسیدہ " نظام تعلیم کو اٹھا کر پھینکیں، بچوں کو " طوطا " بنانے کے بجائے " قابل " بنانے کے بارے میں سوچیں۔

پیسٹی سائیڈ

ایک نوجوان نے پیسٹی سائیڈ کمپنی سے سیلزمینی کی جاب چھوڑدی اور بہتر مستقبل کی تلاش میں کینیڈا چلا گیا۔
وہاں اس نے ایک بڑے ڈیپارٹمینل اسٹور میں سیلزمین کی پوسٹ پر ملازمت کیلئے اپلائی کیا۔
اس اسٹور کا شمار دنیا کے چند بڑے اسٹورز میں ہوتا تھا جہاں سے آپ سوئی سے جہاز تک سب کچھ خرید سکتے ہیں۔
اسٹور کے مالک نے انٹروویو کے دوران پوچھا
"آپکے ڈاکومنٹس کے مطابق آپ کا تعلق کسی ایشیائی ملک پاکستان سے ہے۔
پہلے بھی کہیں سیلزمینی کی جاب کی "
"جی میں آٹھ سال کراچی پاکستان کی ایک کمپنی میں جاب کر چکا ہوں"
مالک کو یہ لڑکا پسند آیا
"دیکھو۔۔۔میں آپ کو جاب دے رہاہوں۔۔۔آپ نے اپنی کارگردگی سے میرے فیصلے کو درست ثابت کرنا ہے۔۔۔کل سے آ جاؤ۔
گڈلک"
اگلے دن وہ پاکستانی لڑکا اپنی جاب پر پہنچا۔۔۔پہلا دن تھا۔طویل اور تھکا دینے والا دن۔
بہرحال شام کے چھ بج گئے۔
مالک نے اسے اپنے دفتر میں بلایا
" ہاں بھئی۔۔اپ نے آج دن میں کتنی سیل ڈیل کیں؟"
"ایک" اس نے جواب دیا
"صرف ایک" مالک مایوسی سے بولا "دیکھو۔
میرے سیلزمین دن میں کم سے کم 20 سے 30 ڈیلز کرتے ہیں۔آپ کو اپنی کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا ورنہ مشکل ہو جائیگی"
"بہتر سر"
مالک نے پھر پوچھا "اچھا۔
یہ بتاؤ تمہاری یہ ڈیل کتنے ڈالر کی تھی؟"
"سر نو لاکھ پچاس ہزار سات سو نو ڈالر کی" وہ بولا
"کیا۔۔۔نو لاکھ ڈالر۔۔۔۔نو لاکھ ڈالر کی ایک ڈیل" مالک حیرت سے کھڑا ہو گیا تھا
"نو لاکھ نہیں۔۔۔۔سر۔۔۔نو لاکھ پچاس ہزار سات سو نو ڈالر"
"او خدا کے بندے! کیا بیچا" ملک چیخ ہی پڑا تھا
"سر! ایک آدمی آیا ۔پہلے میں نے اسے مچھلی پکڑنے والی چھوٹی، پھر درمیانی اور پھر سب سے بڑی رسی ROD بیچی۔
پھر میں نے اس سے پوچھا کہ وہ مچھلی کہاں پکڑنے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ کہنے لگا کہ سمندر کے خاموش پانیوں میں۔۔۔تو میں نے اسے کہا کہ تب تو اسے ایک کشتی کی ضرورت ہو گی۔۔۔۔میں اسے کشتی والے پورشن میں لے گیا۔۔۔اس نے ایک بڑی کشتی خریدی۔۔۔
پھر میں نے اس سے کہا کہ اس کی گاڑی یہ کشتی ساحل تک نہیں لے جا سکے گی۔
میں اسے آٹوموبائل والے پورشن میں لے گیا۔۔۔۔جہاں اس نے ایک 4×4 بلیزر گاڑی خریدی۔
پھر میں اسے کہا کہ "آپ کسی ہوٹل کے کمرے میں ٹھہریں گے یا رونق بھرے جگمگاتے جاگتے ساحل پر" اسے میرا آئیڈیا پسند آیا۔
اور ساحل پر رات گزارنے کیلئے ایک 6×6 کا خیمہ ، خیمہ ڈیپارٹمنٹ سے خریدا۔
کھانے پینے کی چیزوں، میوزک سسٹم ، کچھ دیگر ضروری سامان کے علاوہ دو کارٹن بیئر کے خریدے۔
مالک گویا پاگل ہونے کو تھا۔۔۔"یعنی۔۔۔ایک ہی گاہک کو تم نے یہ سب کچھ بیچا۔
ایک ہی گاہک جو صرف مچھلی پکڑنے والی چھوٹی Rod خریدنے آیا تھا"
"جی نہیں۔۔۔۔وہ بوریت اور یکسانیت کی وجہ سے سر میں ہونے والے درد کو دور کرنے کیلیے گولی خریدنے آیا تھا۔۔۔میں نے اسے بتایا کہ گولی کی بجائے وہ مچھلی پکڑنے جیسی دلچسپ ایکٹویٹی کیوں شروع نہیں کر دیتا۔۔۔۔۔بس پھر اس نے ایک ڈالر کی دو گولیوں کی ڈیل کی بجائے ساڑھے نو لاکھ۔۔۔۔۔ "
مالک *"او بھائی۔۔۔۔تو کہاں سے آیا ہے۔۔۔"*
*بولا سر میں پاکستان میں پیسٹی سائیڈ کمپنی میں سیلز مینیجر کی ملازمت کرتا تھا ۔۔

طوطا

ایک پروفیسر کی بیگم نے پرندوں کی دوکان پر ایک طوطا پسند کیا اور اُس کی قیمت پوچھی، دوکاندار نے کہا محترمہ قیمت تو اس کی زیادہ نہیں ہے لیکن یہ اب تک ایک طوائف کے کوٹھے پر رہا ہے لہٰذا میرا خیال ہے اسے رہنے ہی دیں کوئی اور پرندہ دیکھ لیں، پروفیسر کی بیگم کو طوطا کچھ زیادہ ہی پسند آ گیا تھا، کہنے لگیں ’’ بھئی اب اسے بھی تو پتہ چلے شریفوں کے گھر کیسے ہوتے ہیں ‘‘ انہوں نے طوطے کی قیمت ادا کی اور پنجرہ لے کر گھر آ گئیں۔ پنجرے کو ڈرائنگ روم میں ایک مناسب جگہ لٹکایا تو طوطے نے اِدھر اُدھر آنکھیں گھمائیں اور بولا
 ’’ واہ ، نیا کوٹھا ! یہ کوٹھا تو پسند آیا بھئی ‘‘ بیگم کو اچھا تو نہیں لگا لیکن وہ خاموش رہیں۔ تھوڑی دیر بعد اُن کی بیٹیاں کالج سے لوٹ کر گھر آئیں تو انہیں دیکھ کر طوطا بولا،
 ’’ اوہ نئی لڑکیاں آئی ہیں ‘‘
بیگم کو غصّہ تو آیا لیکن پی گئیں یہ سوچ کر کہ ایک دو دن میں طوطے کو سدھا لیں گی۔ شام کو پرو فیسر صاحب اپنے وقت پر گھر لوٹے۔
 جیسے ہی انہوں نے ڈرائنگ روم میں قدم رکھا طوطا حیرت سے چیخا

 ’’ ابے واہ جاوید! تُو یہاں بھی آتا ہے ‘‘

           اس کے بعد سے جاوید گھر سے غائب ہے اور بیگم نے طلاق کا مقدمہ دائر کر دیا ہے
(منقول)

Thursday, December 22, 2022

امی جان

میں اپنے والدین کی قبروں پر فاتحہ پڑھ کر فارغ ہی ہوا تھا کہ میری نظر اس پر پڑی ۔ ملگجا اور بے تاثر چہرہ، کھچڑی بال اور داڑھی، سر پر ٹوپی جو گرد میں اٹ کر اپنا اصلی رنگ کبھی کا کھو چکی تھی ، پرانے کپڑے اور بغل میں دبی بیساکھی ۔ "ہونہہ پھر آ گیا حرام خور" میرے دل میں دبی گداگروں کیلئے فطری نفرت پھر سے عود آئی۔ "میرے سامنے آیا تو اسکو اوقات یاد دلا دوں گا" میں نے دل ہی دل میں گویا دانت پیسے اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔

میرا اس شخص سے سامنا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ ہفتے میں ایک بار دفتر کے بعد فاتحہ کیلئے رکنا میرا برسوں کا معمول تھا۔ شہر کی بھیڑ بھاڑ سے دور قبرستان میں چند لمحے رک کر بینچ پر وقت گزارنے اور خود کلامی سے مجھے بہت سکون ملتا۔ تدفین کے علاوہ یہاں لوگ شاذونادر ہی نظر آتے ۔ ویسے بھی غرض کے رشتے نبھانا تو صرف زندوں کو ہی زیب دیتا ہے ۔ ان خاموش مکینوں سے کسی کو کیا دلچسپی ہو سکتی تھی ۔ 

چند ہی روز گزرے تھے کہ اس سے ایک بار پھر مڈبھیڑ ہو گئی۔ اب کی بار میری ناگواری کا احساس قدرے کم تھا۔ شاید اسکے پیچھے وہ احساس تفاخر تھا جو آج صبح سے میرے رگ و پے میں سمایا ہوا تھا۔ دراصل آج صبح ہی باس نے بلا کر میرے کام کی تعریف کی تھی اور اگلے سال کی پروموشن کے امیدواروں کیلئے میرا نام منتخب کیے جانے کا مژدہ سنایا تھا۔ فطری طور پر میرے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے ۔ اسی خوشی میں میں نے بیوی بچوں کیلئے کچھ خریداری بھی کر لی تھی۔ 

اسی احساس کے زیر اثر قبروں کے درمیان سے اپنا راستہ بناتے ہوئے اسکے پاس سے گزرتے ہوئے آج میں نے اپنی خود ساختہ عظمت اور سخاوت کی تسکین کیلئے اسکی جانب پانچ سو روپے کا نوٹ بڑھا دیا۔ "میں مانگنے والا نہیں ہوں۔" اسکے دھیمے لہجے میں بھی ایسی تپش تھی کہ میرا جسم یکلخت سنسنا سا گیا۔ "میری مردم شناسی ناکام نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک پیشہ ور بھکاری ہے '۔ میرے اندر کہیں ایک کھوکھلی سی آواز گونجی ۔ "تو پھر تم یہاں روز کیا کر رہے ہوتے ہو؟' میں نے اپنی بوکھلاہٹ کو بمشکل چھپاتے ہوئے قدرے رعب دار آواز میں پوچھا۔ جواب میں اس نے محض مجھے نظر بھر کر غور سے دیکھا۔ آج پہلی بار مجھے اسکی آنکھوں میں جھانکنے کا اتفاق ہوا۔ دو سلگتی آنکھیں جن میں شاید برسوں کے نوحے پوشیدہ تھے۔ یکایک میرے اندر موجود خود ستائی کا وہ آخری بت بھی شاید ڈھے گیا۔ 

اسنے اپنے بائیں جانب ایک کتبے کی طرف اشارہ کیا۔ "پیاری امی جان ۔ رضیه بی بی۔ تاریخ وفات 13 مارچ 2003"۔ میں ابھی اس سالخوردہ کتبے کو پڑھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ وہ قدرے نرم آواز میں بولا۔ "یہاں اپنے ماں باپ کیلئے آتے ہو"؟ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ "ان سے بہت پیار کرتے تھے" ؟ پھر میرے جواب کا انتظار کئے بنا بولا۔ "بیٹھو گے؟" میرے پاس گویا انکار کی گنجائش ہی نہ تھی۔ وہ جو غالباً میرے چہرے پر ثبت سوچ کو پڑھ چکا تھا، ایک توقف کے بعد گویا ہوا۔ "یہ سب ویسا نہیں ہے جیسا تم سوچ رہے ہو۔ میری عمر سینتالیس سال ہے اور میری اپنی ماں سے آخری ملاقات چار سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ تب سے اب تک۔۔۔" یہاں تک پہنچ کر شاید اندرونی انتشار کے آگے اسکے الفاظ ہار گئے ۔ چند لمحوں بعد اس نے اپنی میلی سے بوتل سے چند گھونٹ پانی پیا اور یوں شروع ہوا ۔

"میرا نام شفیق ہے اور میرا تعلق یہاں سے دو کوس دور ایک گاؤں سے ہے۔ میرا ماموں بتاتا ہے کہ میری پیدائش پر ماں باپ نے پورے گاؤں میں برفی بانٹی تھی۔ شاید یہ میرے وجود سے متعلق پہلی اور آخری خوشی تھی۔ میرا باپ گاؤں کے ساتھ والے بس اڈے پر مرونڈے اور مونگ پهلیاں بیچتا تھا جبکہ ماں کھیتوں میں دیھاڑی پر فصل کی کٹائی کرتی تھی۔ باپ کا خیال تھا کہ میں بڑا ہو کر اسکا کام ساتھ والے گاؤں میں پھیلاؤں گا۔ ہم غریب لوگ اس سے زیادہ اونچے خواب دیکھنے کی جرات کر بھی نہیں سکتے۔" 

"جب میں نے چلنا شروع کیا تو میری ٹانگ میں لنگڑاہٹ تھی جو وقت کے ساتھ بڑھتی چلی گئی ۔ ساتھ ہی ایک ٹانگ سوکھنا شروع ہو گئی۔ گاؤں کے ڈسپنسر نے باپ کو بتایا کہ یہ پولیو ہے جو خاندان میں اوپر تلے کی شادیوں کی وجہ سے ہوا ہے اور لاعلاج ہے۔ یہ جان کر بابا کی آنکھوں کے دیپ بجھ سے گئے۔ شاید انکا بوجھ بانٹنے والا خود ایک بوجھ بن کر رہ گیا تھا۔"

یہاں پہنچ کر شفیق ایک لمحے کیلئے خاموش ہو گیا جیسے اپنی سوچوں کا تانا بانا بن رہا ہو۔ پھر گود میں رکھے ہاتھوں کو گھورتے ہوئے گویا ہوا۔ "زندگی ایک سست سی ڈگر پر چل رہی تھی۔ میری حالت کی وجہ سے ماں مجھے کام پر ساتھ نہیں لے جا سکتی تھی چنانچہ میں گھر پر یا گلی کے تھڑے پر اسکی راہ دیکھتا رہتا۔ کھیل کود میں حصہ نہ لے پانے کی وجہ سے محلے کے بچے بھی مجھ سے کتراتے بلکہ اکثر تو آتے جاتے مجھ پر استہزائیہ جملے بھی اچھال دیتے۔ انکے لئے میں صرف ایک لنگڑا تھا، محلے کا ایک ناکارہ اور غیر ضروری سا حصہ۔ سنا ہے بچپن زندگی کا سب سے خوبصورت دور ہوتا ہے۔ میرے لئے تو یہ صرف ایک تکلیف دہ یاد تھا اور بس۔ ان سب میں واحد سہارا ماں کا ہوتا تھا جب وہ کھیتوں سے آ کر مجھے اٹھا کر گھر لے جاتی، مجھے نہلا دھلا کر صاف ستھرا کرتی اور میرے ساتھ باتیں کرتی۔ میرا پورا دن ان چند گھنٹوں کے انتظار میں گزرتا"۔

"پھر وہ تاریک دن آ پہنچا جہاں سے میری اصل بدقسمتی کا آغاز ہوتا ہے۔ ابھی سورج ڈوب رہا تھا۔ ماں ہانڈی پکا رہی تھی اور میں فرش پر بیٹھا تنکے سے مٹی کرید رہا تھا کہ اچانک گلی میں شور سا اٹھا۔ کچھ لوگ میری ماں کو اونچا اونچا پکار رہے تھے ۔ اور پھر آنا فانا گھر کے صحن میں چادر میں بندھا ہوا ایک خون آلود کچلا ہوا وجود پڑا تھا جسے میں صبح تک اپنا باپ کہتا تھا۔ روڈ پر دو بسوں کی اندھی ریس نے ایک لمحے میں میرا اور میری ماں کے سر کا سایہ نگل لیا۔ "

"دو تین دن تک ہمارے گھر میں سوگ اور رونا پیٹنا چلتا رہا۔ پھر ماں دوبارہ کام پر جانے لگی۔ خوشی ہو یا غمی، ہم غریب اسکو ایک حد سے زیادہ نہیں سہار سکتے۔ خالی پیٹ ہمارے طبقے کا سب سے بڑا سوگ ہوتا ہے۔ رہ گیا میں، تو میرا شعور ابھی آگہی کی اس منزل تک نہیں پہنچا تھا کہ يتیمی کے درد کا احساس کر سکتا۔ ہاں مجھے کندھے پر بٹھا کر پھرانے والے بازو کہیں کھو گئے تھے"۔

"شب و روز واپس اسی ڈگر پر آ گئے۔ بس فرق اتنا پڑا کہ ماں اور میں اٹھ کر نانا نانی کے گھر آ گئے جو دو گلیاں چھوڑ کر ہی تھا۔ تحفظ کے احساس کے علاوہ وہاں کچھ نیا نہیں تھا۔ وہی بیگانگی اور وہی اجنبیت ۔ ماں بھی اب کمہلا سی گئی تھی ۔ میری ضروریات اب بھی وہی پوری کرتی، مگر اسکے لہجے میں اب کچھ تھکن اور چڑچڑاہٹ سی در آئی تھی"۔ 

"چھ مہینے ایسے ہی گزر گئے۔ گو کہ ماں نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا مگر پھر بھی لوگ ہم سے کنی کتراتے۔ ہم جیسے لوگوں میں دوسروں سے اجتناب بھی اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کا ایک انداز ہوتا ہے۔ ماں نے چونکہ کم عمری میں ہی زندگی کا یہ بهیانک رنگ دیکھ لیا تھا اسلئے اس پر ایک خاموشی سی طاری ہو گئی تھی۔ ایسے میں ایک دن محلے کی ایک عورت کے توسط سے اس کیلئے باسط کا رشتہ آ گیا"۔

"باسط کی ہمارے علاقے میں کریانے کی دکان تھی جبکہ گھر کسی اور بستی میں تھا۔ رنڈوا اور اکیلا تھا۔ عمر میں ماں سے شاید دوگنا تھا۔ شادی کی واحد شرط یہ تھی کہ اسے میرا بوجھ اٹھانا گوارا نہیں تھا۔ میری عمر اس وقت چار سال تھی۔ ماں نے حسب توقع انکار کردیا جس پر گھر میں طوفان سا آ گیا۔ منت ، التجا اور پھر آخر میں دھمکیاں سب کچھ کیا گیا۔ ان سب میں ماموں پیش پیش تھے کیونکہ سردیوں میں انکی شادی طے شدہ تھی اور نئی دلہن کی سردی سے حفاظت کیلئے دوسرے کمرے کی اشد ضرورت تھی جہاں میں اور ماں قیام پذیر تھے۔ نئے کمرے کے نام پر لیا گیا جہیز پہلے ہی فصل کی کاشت پر لگ چکا تھا ۔ قصہ مختصر ماں کو اس شرط پر تیار کر لیا گیا کہ ماموں میرا خیال اپنی اولاد کی طرح رکھیں گے اور یوں چند روز بعد ماں کی سادگی سے شادی اور رخصتی ہو گئی۔ ہمارے یہاں ویسے بھی دوسری شادی دنیاوی کے بجاۓ مسنون طریقے سے کرنا احسن سمجھا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے اس روز ماموں مجھے بہلا کر کھیت کی سیر کرانے لے گئے تھے اور میں اس غیر متوقع محبت کے سحر میں ساتھ چلا گیا تھا ۔ واپس آ کر جب ماں کو غائب پایا تو بہت تڑپا اور مچلا مگر ماموں اور نانا نانی کے آگے میری ایک نہ چل پائی"۔

"ماں کی شکل میں میری زندگی میں جو واحد رنگ تھا وہ بھی ختم ہو چلا تھا۔ میں نے اپنے آپ کو ایک خول میں قید کر لیا۔ ویسے بھی میرے اردگرد کوئی ایسا نہیں تھا جسے میری کیفیت سے کوئی فرق پڑتا ۔ ماں ہر دو تین ہفتے بعد چند گھنٹوں کیلئے نانا نانی سے ملنے آتی۔ اس وقت مجھے گھر سے غائب کر دیا جاتا۔ اسکے شوہر کا کام کافی چل نکلا تھا جس پر محلے والوں کا خیال تھا کہ یہ سب ایک بیوہ کی دست گیری کی برکت ہے۔ نجانے لوگ ایسی نیکیاں کرتے وقت کیوں بھول جاتے ہیں کہ یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنا بھی تو ایک اتنی ہی عظیم نیکی ہوتی ہے۔ شائد ہمارے معاشرے میں نیکی کے پیمانوں میں جسمانی اور مالی ضروریات کے مطابق گنجائش رکھی جا سکتی ہے۔ چونکہ ماں کا شوہر خوشحال تھا اسلئے وہ گاہے بگاہے تھوڑی بہت مالی مدد بھی کرتی رہتی تھی تاہم اسکے اثرات مجھ تک کبھی نہیں پُہُنچے"۔ 

"ماموں کی شادی کے بعد میں نے لاشعوری طور پر ممانی میں ماں ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر انہوں نے مجھے اس قدر بے رحمی سے دھتکارا کہ مجھے دوبارہ کبھی ہمت نہ پڑی۔ رہنے کیلئے مجھے اناج والی کوٹھری میں جگہ مل گئی تھی اور وہی میری کل کائنات تھی"۔ 

"آٹھ نو سال کا ہوا تو ماموں نے مجھے منياری کا کام سیکھنے کیلئے علاقے کی مارکیٹ میں استاد صادق کی دکان پر بٹھا دیا۔ میں نے بھی اس فرار کو اپنے لئے غنیمت جان کر پوری محنت کے ساتھ کام سیکھنا شروع کر دیا۔ دکان میں ہفتے میں چھ دن صبح سے رات تک کام کرنا ہوتا۔ سکھائی کی کوئی تنخواہ نہیں تھی مگر دوپہر کا کھانا استاد کے ذمے تھا"۔ 

"شروع شروع میں تو استاد کا رویہ میرے ساتھ اچھا تھا مگر جوں جوں اسکو میرے گھر کے حالات معلوم ہوئے تو اسکا برتاؤ جارحانہ ہوتا گیا۔ اور پھر ایک دن موقع پا کر دکان کے اوپر بنے سٹور میں اس نے مجھے اپنی حیوانیت کا نشانہ بنا ڈالا۔ میں بہت رویا چلایا مگر اس پر وحشت سوار تھی۔ آخر میں اس نے مجھے دھمکی دی کہ اگر میں نے زبان کھولی تو وہ میرے ماموں کو میری بدکرداری کی شکایت لگا دیگا۔ یہ حربہ کارگر رہا۔ پھر رفتہ رفتہ یہ معمول بنتا چلا گیا۔ مجھے اعتراف ہے کہ میرا ذہن خوف اور صدمے سے ماؤف ہو چکا تھا جسکا استاد نے پورا فائدہ اٹھایا۔ اس دن مجھے اپنے باپ کی کمی بہت شدت سے محسوس ہوئی۔ اگر وہ میرے سر پر ہوتا تو شاید مجھے اس عذاب سے نہ گزرنا پڑتا۔ اسکی یہ شیطانیت تقریباً دو سال تک جاری رہی۔ پھر اسکی توجہ نئے شاگردوں پر منتقل ہو گئی"

"ایک کے بعد دوسری دکان پر کام کرتے کرتے میری عمر تقریباً بیس سال ہو گئی۔ چونکہ میری زندگی میں اسکے علاوہ کوئی اور مقصد کوئی اور مصروفیت نہیں تھی چنانچہ میرے کام میں پختگی آتی گئی اور میرا کڑھائی کا کام پسند کیا جانے لگا۔ اس دوران میں نے کئی بار ماں کی خبر لینے کی کوشش کی۔ اسکے باسط سے دو بیٹے ہو چکے تھے اور وہ پوری طرح اپنی نئی زندگی میں مصروف ہو چکی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ میری یاد بھی اسکے ذہن سے محو ہو چکی ہو کیونکہ وہ نانا نانی کے گھر بھی کئی کئی مہینوں بعد ہی آتی تھی۔ ویسے بھی ان دونوں کے انتقال کے بعد وہ گھر اب صرف ماموں کے استعمال میں تھا۔ رہا میں تو میری آمد صرف رات کو سونے کیلئے ہی ہوتی۔ باقی سارا دن کا وقت میں مارکیٹ کی نذر کر دیتا۔ ماموں ممانی کی مہربانی تھی کہ وہ میرا وجود اب تک برداشت کر رہے تھے"۔

"انہی دنوں ایک روز لاہور کی ایک پارٹی مارکیٹ میں مال لینے آئی ۔ وہ لوگ میرے کام کی نفاست سے متاثر ہوئے اور مجھے لاہور میں اپنے ساتھ کام کرنے کی آفر کی جسے میں انکار نہ کر سکا۔ ویسے بھی میرا اب یہاں کوئی ایسا رشتہ نہ بچا تھا جو میرے پاؤں کی زنجیر بنتا۔ یوں تین ہفتے بعد میں انار کلی بازار پہنچ گیا۔ شوروم کے مالک محب صاحب تھے جو پڑھے لکھے اور خدا ترس انسان تھے۔ انکے ساتھ کام کرکے مجھے کبھی غیریت اور اجنبیت کا احساس نہ ہوا۔ تھوڑا تھوڑا کر کے انہوں نے مجھے پڑھنا لکھنا بھی سکھا دیا اور یوں مجھے کتابوں کی صورت میں تنہائی کا ایک سہارا مل گیا۔ یوں بھی صنف نازک کی نہ مجھے کبھی کوئی توجہ ملی تھی نہ ہی مجھے اس حوالے سے کوئی خوش فہمی تھی اسلئے مجھے اندازہ تھا کہ میں نے باقی زندگی اکیلے ہی گزارنی ہے"۔ 

"میری زندگی لاہور آنے کے بعد کسی حد تک پرسکون ہو گئی تھی۔ اپنے شہر سے دور ہو جانے کی وجہ سے تکلیف دہ یادوں کی چبھن بھی کم ہو چلی تھی۔ محب صاحب اور انکے خاندان کا رویہ بھی میرے ساتھ بہت دوستانہ تھا جسکی وجہ سے مجھے کبھی بھی وہاں سے جانے کا خیال نہیں آیا۔ انہوں نے میری ذمہ داریاں اور تنخواہ بھی بڑھا دی تھیں اور گاہے بگاہے میرے پڑھنے کے شوق کو دیکھتے ہوئے رسائل، ناول اور دینی کتابیں وغیرہ خرید کر بھی بھجوا دیتے تھے۔ اسی طرح دس گیارہ سال گزر گنے"۔ 

"محب صاحب نے مجھے مارکیٹ کے قریب ایک الگ کمرہ بھی رہائش کیلئے کراۓ پر لے دیا تھا۔ رات کو کام سے فارغ ہو کر آتا تو اکثر ایک معصوم اور بے ضرر سا آوارہ کتا اکثر باہر بیٹھا ہوا ملتا۔ میں کبھی کبھار اپنا بچا ہوا کھانا اسکو ڈال دیتا جس وجہ سے وہ مجھ سے کافی مانوس ہو چلا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ روٹین سی بن گئی تھی ۔ میں روز اپنے کھانے سے کچھ بچا کر شاپر میں لے آتا ۔ وہ دم ہلاتا ہوا آتا اور اپنا کھانا اٹھا کر لے جاتا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اگر مجھے آنے میں دیر سویر بھی ہو جاتی تو شائد اسکو میری آمد کا احساس ہو جاتا اور وہ میرے دروازے پر پہنچنے سے پہلے ہی لپک کر نمودار ہو جاتا۔ یوں لگتا تھا کہ میں اور وہ غیر محسوس طریقے سے ایک رشتے میں بندھ گئے تھے۔ میں نے اسکا نام ٹامی رکھ دیا تھا"۔

"شاید سب یوں ہی چلتا رہتا اگر ایک دن نثار احمد کی شکل میں میری جھیل میں ایک پتھر آ کر نہ گرتا۔ نثار میرے محلے کا رہنے والا تھا۔ بعد میں اس نے بھی مارکیٹ میں دھاگے بٹن کا کام شروع کر دیا تھا۔ یہ وہ واحد شخص تھا جس سے میری تھوڑی سی دعا سلیک تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ میرے گھریلو حالات سے بھی تھوڑی بہت واقفیت رکھتا تھا۔ لاہور آنے کے بعد میری کچھ عرصۂ خط و کتابت رہی تھی مگر اب اس بات کو بھی کئی سال گزر چکے تھے۔ چند روز قبل دکان کا سامان خریدنے کیلئے اسکی لاہور آمد ہی تھی۔ کام سے فراغت کے بعد وہ دکان کا پتا ڈھونڈتا ہوا میرے پاس پہنچ گیا۔ سچ پوچھو تو مجھے اسکی بے موقع آمد سے کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ شائد میں خود بھی اپنے حالات کے ہاتھوں کسی حد تک مردم بیزار ہو چکا تھا۔ بہرطور وہ تقریباً دوپہر کے کھانے کے وقت پہنچا تو میں نے اسے اخلاقاً ساتھ کھانے کی دعوت دے دی۔ کھانے کے دوران میرے نہ چاہتے ہوئے بھی گھوم پھر کر بات ہمارے شہر کے حالات پر جا پہنچی۔ اسکی زبانی معلوم ہوا کہ ماموں چند سال قبل چارے کی مشین میں اپنا ایک ہاتھ حادثے میں گنوا بیٹھے تھے اور اب بہت مشکل سے کھیتوں کا کام کر پا رہے تھے۔ استاد صادق کو سانپ نے کاٹ لیا تھا۔ بروقت علاج سے جان تو بچ گئی تھی مگر زہر پھیلنے کی وجہ سے ٹانگ ناکارہ ہو گئی تھی اور وہ بستر کا ہو کر رہ گیا تھا ۔نجانے کیوں مجھے یہ سن کر ایک عجیب سی مسرت محسوس ہوئی ۔ شائد تلخی کی رشتوں میں ایسا ہی ہوتا ہے"۔

"نثار کا اگلا انکشاف میرے سر پر گویا بم بن کر گرا۔ تقریباً ایک مہینہ قبل باسط اور ماں رات کو کسی شادی میں شرکت کے بعد واپس آ رہے تھے کہ ایک بس نے انکی گاڑی کو ٹکر مار دی۔ "شفیقے یہ وہی روڈ تھی جہاں سے تیرے ابّا کو گاؤں والے اٹھا کر لاۓ تھے" ۔ نثار اپنی دھن میں بولتا رہا۔ "باسط تو اپنی زندگی ہار گیا جبکہ تیری ماں تب سے اب تک ہسپتال میں پڑی ہے۔ آدھے سے زیادہ جسم مفلوج ہو گیا ہے اور سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے یاداشت اور آنکھیں ضائع ہو چکی ہے۔ اسکی اولادوں کو تو باپ کے پیسوں کی غرض ہے۔ گاؤں میں علاج ممکن نہیں تھا تو ماں کو شہر کے سرکاری ہسپتال میں پھینک کر غائب ہوگئے ہیں"۔

"میں نے حتی الوسع کوشش کی کہ اپنے آپ کو غیر جذباتی اور لاتعلق ظاہر کرتا رہوں مگر میں اندر سے ہل کر رہ گیا تھا ۔ نثار کے رخصت ہونے کے بعد میں نے محب صاحب سے اجازت لے کر دکان سے جلدی نکل آیا۔ رات گئے تک بے مقصد سڑکوں پر پھرتا رہا۔ کھانے کا سوچا مگر آج بھوک بھی شاید مر سی گئی تھی ۔ اسی جھکڑ جھکڑ سے ذہن کے ساتھ آخر تھک ہار کو کمرے میں آیا تو ٹامی کو سامنے پایا۔ آج پہلی بار میں نے اسکو نظر انداز کر کے دروازہ کھولا اور اندر آ کر بے سدھ ہو کر سو گیا"۔ 

"اگلے چند روز انتہائی سخت ذہنی کشمکش میں گزرے۔ میں تو اپنی ساری زنجیریں توڑ کر اور ماضی کے طرف لے جانے والے تمام راستے بند کر کے آیا تھا تو پھر یہ بے کلی کیسی تھی۔ ماں نے تو مجھے خود اپنی زندگی سے الگ کیا تھا تو اب ایسا کیا ہے کہ میرا دل اسکی تکلیف سن کر تڑپ اٹھا ہے۔ ذہن سمجھا رہا تھا کہ مڑ کر دیکھوں گا تو پتھر کا ہو جاؤں گا مگر دل تھا کہ کسی تاویل کو خاطر میں نہیں لا رہا تھا۔ واقعی خون کے رشتے زخم پر آئی کھرنڈ جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ان کو کھرچنے کی قیمت رستے لہو سے ہی چکانی پڑتی ہے"۔ 

"اسی ادھیڑ بن میں دو ہفتے گزر گئے۔ اس دوران میرا کام اور صحت دونوں بہت بری طرح متاثر ہوئے ۔ محب صاحب نے بھی چیز نوٹ کی مگر میری پچھلی کارکردگی کی وجہ سے خاموش رہے۔ آخر کار آہستہ آہستہ میرا استدلال میرے اضطراب پر غالب آ گیا . مگر مجھے اعتراف ہے کہ اسکا نتیجہ سکون کے بجاۓ مزید کرب میں نکلا۔ میری بھوک پیاس اور رات کی نیند اڑ گئی۔ میں راتوں کو سجدے میں گر کر اللّه سے سکون اور ارتکاز کی التجا کرتا مگر شاید میرے اللّه نے میری زندگی میں مزید امتحان لکھے ہوئے تھے"۔ 

"اس سارے عرصے میں جہاں میرے باقی معمولات متاثر ہوئے وہیں ٹامی کا رات کا کھانا بھی ختم ہو کر رہ گیا۔ وہ بے زبان مجھے دیکھ کر روز دم ہلاتا ہوا آتا مگر میں اسے نظر انداز کر دیا کرتا۔ مگر وہ بھی رضا کی تصویر بنا روز پہنچ جاتا۔ کبھی کبھی مجھے اسکی مستقل مزاجی سے چڑ ہوتی۔ ایک دن تو جھنجھلا کے اس کی جانب ایک پتھر بھی اچھال دیا مگر اگلے روز وہ ڈھیٹ پھر وہیں موجود تھا۔ تنگ آکر میں نے اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا"۔

"چند روز بعد ایک دن میں رات گئے کمرے پر پہنچا تو وہ حسب عادت کہیں سے نکل آیا۔ مگر آج غیر معمولی چیز یہ ہوئی کہ اسکے منہ میں ایک شاپر دبا ہوا تھا جو اسنے دروازے پر رکھ دیا اور خود ایک قدم پیچھے ہو کر دم ہلانے لگا۔ میں نے اچنبھے میں جھک کر تھیلی کھولی تو اس میں کسی کا بچا ہوا کھانا تھا۔ ابھی میں اس پر غور کر رہا تھا کہ میرے ذہن میں جھماکہ سا ہوا۔ شاید اس بے زبان نے ان تین چار ہفتوں میں میری بے رخی سے یہ نتیجہ نکالا کہ میرے پاس کھانے کو نہیں ہے اور بیچارہ میرے لئے کہیں سے یہ تھیلی ڈھونڈھ لایا" ۔ 

"یکایک مجھے شرمساری کے احساس نے گھیر لیا ۔ اس حیوان نے میرے چند روز کے جوٹھے ٹکڑوں کر عیوض بھی وفاداری نبھائی اور ایک میں ہوں کہ اس ماں کے وجود سے ہی انکاری ہو گیا جس نے مجھے پیدا کیا اور معذوری میں پالا پوسا۔ مجھے معلوم تھا اس کی دوسری شادی اور مجھ سے علیحدگی ایک مجبوری کا مسلط کیا گیا فیصلہ تھا۔ مگر کیا میں کتے سے بھی بدتر نکلا کہ اس کی محبت کا قرض اتارنے میں بھی تاویلیں اور حیلے تلاش کرتا رہا۔ مجھے یوں لگا کہ اچانک میرے ذہن پر چھاۓ بدل چھٹ گئے ہیں۔ایک چوپاے نے مجھے ایک لمحے میں میری آگہی سے ہمکنار کر دیا"۔ 

"اگلے روز میں محب صاحب سے ملا اور بلا کم و كاست پوری کہانی بیان کر دی اور ساتھ اپنا استعفیٰ پیش کر دیا ۔ انہوں نے مجھے لمبی چھٹی کا مشورہ دیا مگر میں اب فیصلہ کر چکا تھا ۔ اسی روز شام کی بس سے میں نے لاہور کو الوداع کر دیا"۔ 

"اگلے دن جب بس نے مجھے اڈے پر اتارا تو میں سیدھا وہاں سے ہسپتال پہنچا۔ وہاں ہر سرکاری ہسپتال کی طرح افراتفری کا عالم تھا۔ میں ایک وارڈ سے دوسرے وارڈ میں بھاگتا رہا مگر مجھے ماں کی صورت نظر نہیں آئی۔ ایسے میں شریف وارڈ بواۓ مجھے لیکر نرسنگ انچارج کے پاس چلا گیا۔ جب میں نے اسے پوری صورتحال سے آگاہ کیا تو اس نے مجھے بیٹھا کر پانی پلایا اور انتظار کرنے کو کہا۔ تقریباً دو گھنٹے کے بعد ایک نیک صورت ڈاکٹر صاحب آے اور مجھے ساتھ آنے کیلئے کہا ۔جب انہوں نے تصدیق کیلئے سوال جواب کیے تو میں نے اپنا دل کھول کر سامنے رکھ دیا ۔ میری کہانی جان کر وہ ایک لمحے کیلئے خاموش ہو گئے۔ پھر کہنے لگے "میں تمہیں تمہاری ماں سے ملوانے لے جا سکتا ہوں۔ وہ اب سکون سے ہے۔ مگر تمہیں میری ڈیوٹی ختم ہونے کیلئے شام تک انتظار کرنا ہوگا"۔ میں تو ماں تک پہنچنے کیلئے کچھ بھی کر سکتا تھا چنانچہ باہر بینچ پر جا کر بیٹھ گیا"۔ 

"شام پانچ بجے ڈاکٹر صاحب فارغ ہوکر میرے پاس آۓ اور ساتھ چلنے کا کہا۔ پورا راستہ وہ گاڑی میں خاموش رہے۔ مختلف سڑکوں سے ہوتی ہوئی جب گاڑی قبرستان کے دروازے پر پہنچی تو میرا دل بیٹھ سا گیا۔ انہوں نے خاموشی سے میرا ہاتھ تھپتھپایا اور آنے کا اشارہ کیا ۔ مختلف قطاروں سے گزرتے ہوئے ہم آخر ایک تازہ قبر پر پُہُنچے جس پر چونے سے ایک نمبر لکھا ہوا تھا ۔ "تمہاری ماں کا انتقال تقریباً دس دن پہلے ہو چکا تھا۔ چونکہ اسکے ورثا اپنا فون نمبر چھوڑ کر چلے گئے تھے اسلئے ہم نے ان سے رابطہ کیا جس پر ہمیں سرد مہری سے جواب ملا کہ وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اسلئے آخری رسومات زکات فنڈ سے ادا کر دے جائیں۔ آخر کار ہم نے ضروری کاروائی تک انکو سرد خانے میں رکھا اور پھر ایک ہفتہ قبل انکو یہاں دفنا دیا۔ تم یہاں آنے والے پہلے شخص ہو"۔ مجھے لگا کہ میری ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے اور میں وہیں بیٹھ گیا۔ شدید صدمے کے احساس سے میرا ذہن مفلوج سا ہوگیا تھا"۔ 

"آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھے ساتھ واپس چلنے کیلئے کہا مگر میں نے منع کر دیا ۔ مجھے نہیں معلوم کہ میری کیفیت دکھ کی تھی، احساس پشیمانی کی یا صدمے کی، مگر میری سوچنے سمجھنے کی قوت ختم ہو چکی تھی۔ مجھے اندازہ ہی۔ نہیں ہوا کہ کب شام ڈھلی اور رات کی تاریکی چھا گئی۔ میرا یہ قبرستان آنے کا پہلا واقعہ تھا۔ تدفین کیلئے تو عزیز رفقا کی خاطر آنا پڑتا ہے اور میری زندگی تو ہمیشہ اکیلے ہی گزری تھی۔ قسمت کے کھیل ایسے کہ میں یہاں اپنی ماں کی تلاش میں آیا اور وہ بھی ایسے وقت میں کہ اسکو بے نام و نشان دفنا دیا گیا تھا۔ میرے آنسو کبھی کے خشک ہو گئے تھے ۔ رات گہری ہوئی تو میں اسی قبر سے لپٹ کر سو گیا"۔ 

"اگلی صبح گورکن آیا تو میری مٹی سے اٹی حالت دیکھ کر سمجھا کہ میں کوئی مجذوب یا کفن چور ہوں۔ جب اسکو میرے حالات سے آگاہی ہوئی تو اس نے ترس کھا کر مجھے اپنی کوٹھری میں پناہ دے دی۔ تب سے آج تک میں وہیں رہتا ہوں۔ یا تو قبرستان کے چھوٹے موٹے کاموں میں اسکی مدد کر دیتا ہوں یا کبھی کبھار مارکیٹ سے کڑھائی کا کوئی کام اٹھا کر رزق کا سامان کرتا ہوں۔ باقی وقت اسی جھوٹی آس میں گزار دیتا ہوں کہ شاید ایک دن ماں پھر اٹھے گی، میرے الجھے ہوئے بالوں میں کنگھی کرے گی، مجھے گلے سے لگا کر مجھ سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرے گی اور چولہے کے ساتھ بٹھا کر اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاۓ گی۔ اب بس دعا ہے کہ اللّه جلد مجھے میرے ماں باپ سے ملا دے۔ میں اس زندگی کی تکلیف مزید نہیں سہہ سکتا"۔ 

میں نے اپنی نم آنکھیں اٹھا کر دیکھا تو اسکا دامن آنسووں سے بھیگ چکا تھا۔ "بس بابو جی آپ سے ایک التجا ہے۔ اپنے رشتوں کو کبھی ضد یا انا کی بھینٹ نہ چڑھائیے گا۔ توبہ کا دروازہ ایک بار بند ہو جاۓ تو پیچھے صرف پچھتاوے رہ جاتے ہیں ۔ اس شفیق جیسے زندہ، تڑپتے اور روز روز مرتے ہوئے پچھتاوے"۔ وہ میرے سامنے ہاتھ جوڑے ہچکیاں لے کر رو رہا تھا اور میں برف کی ایک سل کی طرح جامد قبروں کی قطار کو تک رہا تھا۔ 

رات ڈھل چکی تھی۔۔۔۔ 
(عدیل کاظمی )

Wednesday, December 21, 2022

ہابیل و قابیل

 یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب روئے زمین پر انسانی زندگی ابتدائی حالت میں تھی اور حضرت حواء کے بطن سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے۔ ایک ساتھ پیدا ہونے والے لڑکے اور لڑکی کا نکاح دوسری مرتبہ پیدا ہونے والے لڑکے اور لڑکی کے ساتھ کر دیا جاتا تھا۔ ہابیل اور قابیل یہ دونوں حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہیں ۔جب یہ جوان ہوئے تو دستور کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام نے قابیل کا نکاح ( غازہ ) کے ساتھ جو ہابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی کرنا چاہا تو قابیل اس بات پر رضامند نہیں ہوا کیونکہ ( اقلیما ) غازہ کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت تھی۔ جو قابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی۔ 
حضرت آدم علیہ السلام نے قابیل کو سمجھایا کہ یہ اللہ کا حکم ہے لہٰذا تم یہ بات مان لو۔ لیکن یہ یاد رکھیں ( یہ حکم اللہ نے صرف حضرت آدم علیہ السلام کے شریعت میں جاری کیا تھا )
 اقلیما تمہارے ساتھ پیدا ہوئی ہے اس لئے وہ تیری بہن ہے، اس کے ساتھ تیرا نکاح نہیں ہوسکتا۔ مگر قابیل اپنی بات پر اڑا رہا ۔ با لآخر حضرت آدم علیہ السلام نے ان دونوں بھائیوں کو حکم دیا کہ تم دونوں اپنی اپنی قربانی اللہ کے حضور میں پیش کرو۔ جس کی قربانی مقبول ہوگی وہی اقلیما سے نکاح کا حق دار ہوگا۔ اس زمانے میں قربانی کی مقبولیت کی علامت یہ تھی کہ لوگ اپنی قربانیاں پہاڑ پر رکھ دیتے تھے اور آسمان سے آگ آکر انھیں کھا جاتی تھی۔
قابیل کھیتی باڑی کرتا تھا اور ہابیل بکریا بھیڑ پالتا تھا ۔ چنانچہ قابیل نے گندم کی بالیاں اور ہابیل نے ایک خوبصورت ، موٹا تازہ مینڈھا قربانی کے لئے ایک پہاڑ پر رکھ دیا اور اللہ سے دعا مانگی یا الٰہی ہماری قربانی کو قبول فرما ۔ آسمان سے آگ آئی اور اس نے ہابیل کی قربانی کو کھا لیا اور قابیل کی قربانی قبول نہیں ہوئی ۔ جس سے قابیل کے دل میں ہابیل کے لئے غصہ ،حسد اور بغض پیدا ہوگیا اور وہ ہابیل سے کہنے لگا کہ میں تجھے مار ڈالوں گا کیونکہ تیری قربانی قبول ہوگئی ہے۔ ہابیل نے قابیل سے کہا ۔ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کی قربانی قبول کرتا ہے اگر تو میرے قتل کے لئے مجھ پر ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھ پر ہاتھ نہیں اٹھاﺅں گا کیونکہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ 
قربانی دے کر دونوں بھائی حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئے ، آدم علیہ السلام نے فرمایا اے قابیل تیری بہن اقلیما اب ہابیل پر حلال ہوئی اور تجھ پر حرام۔ قابیل اب مایوس ہوچکا تھا کہ اقلیما اس کے نکاح میں نہیں آسکتی اس لئے وہ ہابیل کو مارنے کی تدبیر میں رہنے لگا۔ اس دوران آدم علیہ السلام جب مکہ چلے گئے ، تو ایک دن قابیل نے دیکھا کہ ہابیل سورہا ہے تو سوچنے لگا کہ اسے کس طرح سے ماروں کیونکہ اس زمانے تک کسی نے کسی کو نہیں مارا تھا۔جب شیطان نے دیکھا کہ اسے قتل کرنے کا طریقہ نہیں آتا تو اس لعین نے ایک جانور پکڑا اور اس کا سر ایک پتھر پر رکھ کر دوسرا پتھر زور سے اس کے سر پر دے مارا جس سے وہ جانور اسی وقت مر گیا۔ یہ ترکیب دیکھ کر قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کے ساتھ یہ ہی کیا اور زمین پر سے ایک پتھر اٹھا کر ہابیل کے سر پر دے مارا ،اور اپنے بے گناہ بھائی ہابیل کو قتل کردیا۔ 
ہابیل کے قتل کے بعد قابیل یہ سوچ کر بے حد پریشان ہوا کہ اب اس لاش کا کیا کرے ۔ یہ روئے زمین پر کسی انسان کا یہ پہلا قتل تھا، کیونکہ اس سے پہلے کوئی آدمی مرا ہی نہیں تھا۔ اس لئے قابیل حیران و پریشان تھا کہ بھائی کی لاش کو کیا کروں، چنانچہ وہ کئی روز تک بھائی کی لاش کو اپنی پیٹھ پر لاد کر پھرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے اس نیک بندے کی لاش کی بے حرمتی منظور نہ تھی چنانچہ اس جگہ پر دو کوّے آئے اور وہاں آکر آپس میں لڑے اور ایک نے دوسرے کو مار ڈالا ۔ پھر زندہ کوّے نے اپنی چونچ اور پنجوں سے زمین میں گڑھا کھود ا اور اس میں اس مرے ہوئے کوّے کو ڈال کر مٹی سے دبادیا ۔ کوّے کو دیکھ قابیل اپنے اوپر ملامت کرنے لگا کہ میں اس کوّ ے سے بھی گیا گزرا ہوں کہ اتنا بھی نہ کرسکا۔ اس طرح قابیل کو معلوم ہوا، کہ ہابیل کی لاش کو زمین میں گڑھا کھود کر دفن کردینا چاہیئے۔ چنانچہ اس نے ایک گڑھا کھود کر اس میں اپنے بھائی ہابیل کی لاش کو دفن کردیا 
جب حضرت آدم علیہ السلام مکّہ سے واپس آئے اور ہابیل کو نہ پایا تو اس کو بہت تلاش کیا، مگر وہ نہ ملا، لوگوں سے پوچھنے لگے ، کسی نے جواب دیا کہ ہابیل کچھ دنوں سے نہ معلوم کہاں گیا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے ہابیل صدمے میں کھانا پینا اور سونا سب ترک کردیا اور شب و روز ہابیل کے غم میں رہنے لگے۔ ایک روز آپ نے خواب کی حالت میں دیکھا کہ ہابیل الغیاث الغیاث ، اے پدر، اے پدر، پکار رہا ہے، حضرت آدم علیہ السلام نیند سے چونک کر اٹھے اور زار زار رونے لگے۔ اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حواء کو ہابیل کی قبر پر لے گئے ۔
حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حواء نے قبر کھود کر ہابیل کو دیکھا کہ اس کا مغز نکلا ہوا ہے اوروہ خون سے آلودہ ہورہا ہے ۔ یہ حال دیکھ کر آپ ؑ دونوں بہت روئے۔ اور ہابیل کی لاش کو ایک تابوت میں بند کرکے اپنے مکان میں لاکر دفن کردیا ۔ اس وقت آپ ؑ کے ایک سو بیس بیٹے تھے جن میں سے سوائے ہابیل کے کوئی نہیں مرا تھا۔ 
روایت ہے کہ جب ہابیل قتل ہوگئے تو سات دن تک زمین میں زلزلہ رہا ۔ قابیل جو بہت خوبصورت تھا بھائی کا خون بہاتے ہی اس کا چہرہ بالکل سیاہ اور بدصورت ہوگیا۔ آدم علیہ السلام نے قابیل کو اپنے دربار سے نکال دیا اور وہ (یمن) کی سر زمین (عدن) میں چلا گیا ، وہاں ابلیس اس کے پاس آکر کہنے لگا کہ ہابیل کی قربانی کو آگ نے اس لئے کھالیا تھا کہ وہ آگ کی پوجا کرتا تھا لہٰذا تو بھی آگ کی پرستش کیا کرو۔ چنانچہ قابیل پہلا شخص ہے جس نے آگ کی پرستش کی اور زمین پر یہ پہلا شخص ہے جس نے اللہ کی نافرمانی کی اور زمین پر خون ناحق کیا۔ یہ وہ پہلا مجرم ہے جو جہنم میں ڈالا جائے گا۔ حدیث میں ہے کہ زمین پر قیامت تک جو بھی خون ناحق ہوگا۔ اس کے عذاب کا ایک حصہ بوجھ اور گناہ قابیل پر بھی ہوتا ہے کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کا طریقہ ایجاد کیا۔ قابیل کا انجام یہ ہوا کہ اس کے ایک لڑکے نے جو کہ اندھا تھا۔ اس کو پتھر مار کر قتل کردیا۔ اور یہ بدبخت آگ کی پرستش کرتے ہوئے کفر و شرک کی حالت میں اپنے لڑکے کے ہاتھ مارا گیا 
کسی بے گناہ کو قتل کرنا (خون ناحق) بہت بڑا جرم ہے قابیل نے غصہ، حسد اور بغض میں گرفتار ہو کر اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا اس سے معلوم ہو ا کہ حسد، غصہ اور بغض انسان کے لئے کتنی بری اور خطرناک قلبی بیماری ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا :” جو شخص کسی کو بلا وجہ مار ڈالے ، جبکہ اس نے نہ کسی کو قتل کیا تھا اور نہ زمین میں فساد پھیلایا تھا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا۔ اور جو شخص کسی بے قصور شخص کے قتل سے باز رہے گویا اس نے تما م لوگوں کو زندگی دی “
(پارہ 6 سورة مائدہ )

ہم ( ہم سیریز)

شادی ہال ، نکاح اور ولیمہ کی تقریب کے لیے رینٹ پر لیے جاتے ہیں اور نکاح ایک شرعی حکم ہے مگر شادی ہال کا مالک پھر بھی پیسے مانگتا ہے
حج اور عمرہ ایک عبادت اور شرعی حکم ہے مگر ایئر لائن کمپنیز اور ٹریول ایجنٹس پھر بھی پیسے مانگتے ہیں
ختنے کروانے ایک فطری و شرعی حکم ہے مگر ڈاکٹرز پھر بھی پیسے مانگتے ہیں
قربانی ایک شرعی فریضہ ہے مگر قصائی پھر بھی پیسے مانگتا ہے 
تعلیم ایک شرعی حکم ہے مگر ٹیچرز پھر بھی پیسے مانگتے ہیں 
مسجد بنانا نیکی کا کام ہے مگر مستری و مزدور پھر بھی پیسے مانگتے ہیں 
قرآن و حدیث کی اشاعت ایک اہم فریضہ ہے مگر پبلشرز پھر بھی قیمت مانگتے ہیں 
تو نہ کسی کو ان کے تقوے پر شک ہوتا ہے نہ کوئی انہیں دنیا دار لالچی کہتا ہے نہ وہ دین فروش بنتے ہیں نہ ہی ریٹ فکس کرنے کو حرام کہا جاتا ہے           
*اور نماز پڑھانا*
*خطبہ جمعہ*
 *عیدین*
*تراویح* 
*درس و تقریر* 
*یہ سب بھی شرعی احکام ہیں* 
مگر مگر مگر
جب امام، خطیب، مدرس، یا مقرر ہر طرف سے مجبور ہو کر، اپنے دل و ضمیر پر پتھر رکھتے ہوئے اپنی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کردے یا تنخواہ طے کر لے یا تنخواہ لیٹ ہونے پہ اظہارِ ناراضگی کردے 
تو بس پھر .....
*وہ دنیا دار بن جاتا ہے*
*دین فروش کہلواتا ہے* 
*لالچی ہوتا ہے*
*تقوٰی سے خالی ہوتا ہے*                                                                                   
*اسلام کے شہزادو!*
صرف علماء کرام اور ائمہ مساجد کے ساتھ ہی ہمارا دوہرا معیار کیوں ہے؟
حالانکہ مسجد خوبصورت ہو، مزین ہو، ہر سہولت اس میں ہو، مگر امام نہ ہو 
*تو جانتے ہیں آپ!*
وہ مسجد اصلاح کا مرکز نہیں بن سکتی
وہ تربیت گاہ نہیں کہلا سکتی
لوگ اس سے دین نہیں سیکھ سکتے
امام کے بغیر مسجد میں بھی پڑھی ہوئی نماز ایک ہی شمار کی جائے گی
مگر مسجد کچی ہو یا کجھور کے پتوں سے بنی ہو مگر امام موجود ہو تو 
امام کے ساتھ پڑھی ہوئی ایک نماز 27 نمازوں کے برابر اجر دلواتی ہے
وہ تربیت گاہ بھی بن جاتی ہے 
دین کا مرکز بھی کہلواتی ہے
اور اسلامی تعلیمات کا سر چشمہ ہوتی ہے
لیکن پھر بھی کچھ لوگوں کا نظریہ ہے مسجد میں ٹائل لگوانا AC لگوانا ایسا صدقہ جاریہ ہے جو مسجد کے امام و خطیب پر خرچ کرنے سے افضل ہے۔۔۔
👈اس لیے اپنے علماء کرام اور ائمہ مساجد کی قدر کریں
انکی ضروریات کا پورا پورا خیال رکھیں۔۔۔
اسکے علاوہ اگر کوئ بھی انسان مسجد کی خدمت کر رہا ہے تو اسکا بھی حق ادا کرو 
اللہ پاک ہمیں نیک لوگوں کی عزت کرنے والا بناےُ. آمین. .

آداب گفتگو

 چند معیوب اور غیر اخلاقی قسم کے سوالات جن سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے:

1- (بیروزگار سے) اور کہیں نوکری وغیرہ شروع کی؟

2- (رشتے کے انتظار میں بیٹھی لڑکی سے) اور رشتے کی کوئی بات چلی؟

3- (بے اولاد جوڑے سے) کب تک خوشخبری سنارہے ہو؟

4- (کرایے پر رہنے والوں سے) اپنے مکان کا کب تک ارادہ ہے؟

5- (موٹر سائیکل یا بناء سواری والوں سے) اور گاڑی کب خرید رہے ہو؟

وغیرہ وغیرہ

آپ کے ایسے لاپرواہ سوالات کسی دوسرے کے لیے شدید ڈپریشن یا کوفت کا باعث بن سکتے ہیں۔ وہ سوشل آئسولیشن میں جاسکتے ہیں۔

میں خود ایک دور میں سوال نمبر 1، 4 اور 5 کی چبھن "جھیل" چکا ہوں۔ ایسے سوالات احساس کمتری پیدا کرنے کا مؤجب بن سکتے ہیں۔

جن کے اپنے معاملات حل ہوجائیں وہ دوسروں کو کریدتے پھرتے ہیں جو انتہائی نامناسب ہے

یہ اللہ کے معاملات ہیں، انھیں اللّٰہ پر چھوڑدیں۔ دوسروں کے sensitive معاملات کی ٹوہ میں پڑنے کی بجائے ان کے لیے خاموشی سے دعا کردیں۔

کسی کی دل آزاری کا باعث نہ بنیں اور بلاوجہ گناہ نہ کمائیں

کچھ بعید نہیں کہ آپ کا کوئی چبھتا ہوا سوال کسی کو ایسی چوٹ پہنچا جائے کہ اس کے دل سے نکلی آہ اللّٰہ کو آپ سے ناراص کردے۔۔۔۔۔!!!!

منقول


کتا اور چیتا

 چیتے نے کتے سے پوچھا: تم نے انسانوں کو کیسا پایا؟

کتے نے جواب دیا: جب وہ کسی کو حقیر سمجھتے ہیں تو اسے کتا کہتے ہیں

چیتا: کیا تم نے ان کے بچوں کو کھایا؟

کتا: نہیں

چیتا: کیا تم نے انہیں دھوکہ دیا؟

کتا: نہیں

چیتا: کیا تم نے ان کے مویشی مارے؟؟

کتا: نہیں

چیتا: کیا تم نے ان کا خون پیا؟؟

کتا: نہیں 

چیتا: کیا تم نے ان کو میرے حملوں سے بچایا؟؟

کتا: ہاں

چیتا: انسان  بہادر اور ہوشیار کو کیا کہتے ہیں؟

کتا: وہ اسے چیتا  کہتے ہیں

چیتا: کیا ہم نے تمہیں شروع سے مشورہ نہیں دیا تھا کہ ہمارے ساتھ چیتا بن کر رہو مگر تم نے انسانوں کے تحفظ کا ٹھیکے دار بننا پسند کیا۔ میں ان کے بچوں اور مویشیوں کو مارتا ہوں، ان کا خون پیتا ہوں، ان کے وسائل اور محنت کھا جاتا ہوں، اس کے باوجود نہ صرف وہ مجھ  سے ڈرتے ہیں بلکہ اپنے ہیروز کو چیتے کے طور پر بیان کرتے ہیں۔

تمہیں یہ سیکھنا چاہیے کہ “انسان اپنے جلادوں کے سامنے سرتسلیم خم کر لیتے ہیں اور اپنے وفاداروں اور ہمدردوں کی توہین کرتے ہیں


Monday, December 19, 2022

دانت کا کیڑا

ریل کے سفر کے دوران ایک صاحب کی جب بھی سامنے بیٹھی خاتون سے نظر ملتی مسکرا دیتے، جب یہ چوتھی بار ہوا تو خاتون بھی مسکرائیں اور کہا، "جب بھی آپ مسکرا کر مجھے دیکھتے ہیں میرا دل کرتا ہے کہ آپ سے ملاقات ضرور کرنی چاہیئے".
یہ سن کر صاحب کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیا کریں.
فوراً بولے ۔۔
جی ضرور ضرور، جب آپ کہیں، اور کہاں ملنا ہے ؟.
خاتون نے اپنا کارڈ دیا اور کہا میرے کلینک میں....میں ڈینٹسٹ ہوں.
آپ کے دانت میلے کچیلے، ٹیڑھے میڑے اور کالے ہیں. سائیڈ کی دو داڑھوں میں کیڑا بھی لگا ہوا ہے. مجھے لگتا ہے شاید ایک ملاقات کافی نہ ہو لیکن یہ گارنٹی ہے کہ مجھ سے ملاقات کے بعد آپ مسکراتے ہوئے کم از کم اتنے برے نہیں لگیں گے.
مہذب خاتون تھیں اسی لیئے صرف "دانت" کے کیڑے کا بتایا،،،
__________________
(مشتاق احمد یوسفی)

Wednesday, December 14, 2022

ہم ماڈرن لوگ

 ہم لوگ ماڈرن کہلائے جانے کے چکر میں بہت قیمتی چیزیں چھوڑ بیٹھے ہیں۔ ہم نے آسانیاں ڈھونڈیں اور اپنے لیے مشکلیں کھڑی کر دیں۔

آج ہم دھوتی پہن کے باہر نہیں نکل سکتے لیکن صدیوں کی آزمائش کے بعد یہ واحد لباس تھا جو ہمارے موسم کا تھا۔ ہم نے خود اپنے اوپر جینز مسلط کی اور اس کو پہننے کے لیے کمروں میں اے سی لگوائے۔ شالیں ہم نے فینسی ڈریس شو کے لیے رکھ دیں اور کندھے جکڑنے والے کوٹ جیکٹ اپنا لیے۔ ہمیں داڑھی مونچھ اور لمبے بال کٹ جانے میں امپاورمنٹ ملی اور فیشن بدلا تو یہ سب رکھ کے بھی ہم امپاورڈ تھے!

ہم نے حقہ چھوڑ کے سگریٹ اٹھایا اور ولایت سے وہی چیز جب شیشے کی شکل میں آئی تو ہزار روپے فی چلم دے کر اسے پینا شروع کر دیا۔ ہے کوئی ہم جیسا خوش نصیب؟

ہم نے لسی چھوڑی، کولا بوتلیں تھام لیں، ہم نے ستو ترک کیا اور سلش کے جام انڈیلے، ہم نے املی آلو بخارے کو اَن ہائی جینک بنا دیا اور وہی چیز ایسنس کے ساتھ جوس کے مہر بند ڈبے خرید کے بچوں کو پلائی، وہ پیک جس کے آر پار نہیں دیکھا جا سکتا کہ گتے کا ہوتا ہے۔ ہم نے ہی اس اندھے پن پہ اعتبار کیا اور آنکھوں دیکھے کو غیر صحت بخش بنا دیا۔

ہم نے دودھ سے نکلا دیسی گھی چھوڑا اور بیجوں سے نکلے تیل کو خوش ہو کے پیا، ہم نے چٹا سفید مکھن چھوڑا اور زرد ممی ڈیڈی مارجرین کو چاٹنا شروع کر دیا، اس کے نقصان سٹیبلش ہو گئے تو پھر ڈگمگاتے ڈولتے پھرتے ہیں۔ گوالے کا پانی ہمیں برداشت نہیں لیکن یوریا سے بنا دودھ ہم گڑک جاتے ہیں، الحمدللہ!

اصلی دودھ سے ہمیں چائے میں بو آتی ہے اور ٹی واٹنر ہم نوش جان کرتے ہیں جس پہ خود لکھا ہے کہ وہ دودھ نہیں۔ گھر کے نیچے بھینس باندھ کر ہم نے سوکھا دودھ باہر ملک سے خریدنے کا سودا کیا اور کیا ہی خوب کیا!

ہم تو وہ ہیں جو آم کے موسم میں بھی اس کا جوس شیشے کی بوتلوں میں پیتے ہیں۔

ہم گڑ کو پینڈو کہتے تھے، سفید چینی ہمیں پیاری لگتی تھی، براؤن شوگر نے ہوٹلوں میں واپس آ کے ہمیں چماٹ مار دیا۔ اب ہم ادھر ادھر دیکھتے ہوئے گال سہلاتے ہیں لیکن گڑ بھی کھاتے ہیں تو پیلے والا کہ بھورا گڑ تو ابھی بھی ہمیں رنگ کی وجہ سے پسند نہیں۔

آئیں، ہم سے ملیں، ہم ایمرجنسی میں پیاسے مر جاتے ہیں، گھروں کی ٹونٹی کا پانی نہیں پی سکتے، نہ ابال کر نہ نتھار کے، ہم پانی بھی خرید کے پیتے ہیں۔ ہم ستلجوں، راویوں، چنابوں اور سندھوں کے زمین زاد، ہم ولایتی کمپنیوں کو پیسے دے کے پانی خریدتے ہیں۔

ہم تو پودینے کی چٹنی تک ڈبوں میں بند خریدتے ہیں۔ چھٹانک دہی اور مفت والے پودینے کی چٹنی ہم ڈیڑھ سو روپے دے کے اس ذائقے میں کھاتے ہیں جو ہمارے دادوں کو ملتی تو انہوں نے دسترخوان سے اٹھ جانا تھا۔

سوہانجنا ہمیں کڑوا لگتا تھا، جب سے وہ مورنگا بن کر کیپسولوں میں آیا ہے تو ہم دو ہزار میں پندرہ دن کی خوراک خریدتے ہیں۔ وہی سوکھے پسے ہوئے پتے جب حکیم پچاس روپے کے دیتا تھا تو ہمیں یقین نہیں تھا آتا۔

پانچ سو روپے کا شربت کھانسی کے لیے خریدیں گے لیکن پانچ روپے کی ملٹھی کا ٹکڑا دانتوں میں نہیں دبانا، ’عجیب سا ٹیسٹ آتا ہے۔‘

ہم پولیسٹر کے تکیوں پہ سوتے ہیں، نائلون ملا لباس پہنتے ہیں، سردی گرمی بند جوتا چڑھاتے ہیں، کپڑوں کے نیچے کچھ مزید کپڑے پہنتے ہیں اور زندگی کی سڑک پہ دوڑ پڑتے ہیں، رات ہوتی ہے تو اینٹی الرجی بہرحال ہمیں کھانی پڑتی ہے۔

ہم اپنی مادری زبان ماں باپ کے لہجے میں نہیں بول سکتے۔ ہم زبان کے لیے نعرے لگاتے ہیں لیکن گھروں میں بچوں سے اردو میں بات کرتے ہیں۔ ہم اردو یا انگریزی کے رعب میں آ کے اپنی جڑیں خود کاٹتے ہیں اور بعد میں وجہ ڈھونڈتے ہیں کہ ہم ’مس فٹ‘ کیوں ہیں۔

عربی فارسی کو ہم نے مدرسے والوں کی زبان قرار دیا اور ہاتھ جھاڑ کے سکون سے بیٹھ گئے۔ ’فورٹی رولز آف لَو‘ انگریزی میں آئی تو چومتے نہیں تھکتے۔ الف لیلیٰ، کلیلہ و دمنہ اور اپنے دیسی قصے کہانیوں کو ہم نے لات مار دی، جرمن سے گورے کے پاس آئی تو ہمیں یاد آ گیا کہ استاد مال تو اپنا تھا۔

جا کے دیکھیں تو سہی، عربی فارسی کی پرانی ہوں یا نئی، صرف وہ کتابیں ہمارے پاس اب باقی ہیں جو مدرسوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ باقی ایک خزانہ ہے جسے ہم طلاق دیے بیٹھے ہیں۔ پاؤلو کوہلو اسی کا ٹنکچر بنا کے دے گا تو بگ واؤ کرتے ہوئے آنکھوں سے لگا لیں گے۔ متنبی کون تھا، آملی کیا کر گئے، شمس تبریز کا دیوان کیا کہتا ہے، اغانی میں کیا قصے ہیں، ہماری جانے بلا!

ہماری گلیوں میں اب کوئی چارپائی بُننے والا نہیں آتا، ہمیں نیم اور بکائن میں تمیز نہیں رہ گئی، ہمارے سورج سخت ہوگئے اور ہمارے سائے ہم سے بھاگ چکے، ہمارے چاند روشنیاں نگل گئیں اور مٹی کی خوشبو کو ہم نے عطر کی شکل میں خریدنا پسند کیا۔

وہ بابا جو نیم کی چھاؤں میں چارپائی لگائے ٹیوب ویل کے ساتھ دھوتی پہنے لیٹا ہوتا ہے، وہ حقے کا کش لگاتا ہے، ہمیں دیکھتا ہے اور ہنس کے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ اسے کب کی سمجھ آ گئی ہے، ہمیں نئیں آتی!


انسان

 دنیا میں کسی جانور کسی مخلوق نے انسان کا اتنا شکار نہیں کیا جتنا انسان نے انسان کا کیا ہے  انسان نے انسان کو جنگوں میں مارا، رشتوں میں مارا، محبت سے مارا، دھوکے سے مارا ..

یہ انسان اتنے رنگ بدلتا ہے کہ کوئی مخلوق نہیں بدلتی اور یہ اپنی ہی نسل کا شکار کرنا پسند کرتا ہے...  

کوئی دوست کے روپ میں دشمن ہے، کوئی مسافر کے بھیس میں لٹیرا ہے جو سچائی کی قسم کھا رہا ہے  وہ سچ سے ہی دور ہے، جسے ایمانداری کا غرور ہے  وہ برتری کے احساس کا غلام ہے ..مختصر یہ کہ

انسان نے سب بن کر رہنا سیکھا ایک انسان ہی بن کر رہنا اس کے لئے مشکل رہا۔۔۔✍️۔۔۔۔!!!


اچھی باتیں

خالق سے اچها تعلق اور مخلوق سےاچها برتاؤ مومن کی نشانی ہے۔ سانس لینا، کھانا، پینا، سونا، یا روز مرہ کے کام کرنا ہی زندگی نہیں بلکہ دوسروں کے دلوں میں زندہ رہنا اور انکی دعاؤں میں شامل رہنا ہی اصل زندگی ہے۔

الله رب العزت آپکو دین و دنیا کی دولت سے مالا مال فرمائے، روز محشر سرکار دو جہاں صلی الله علیہ وآله و سلم کی شفاعت نصيب فرمائے اور آپکی تمام نیک خواہشات پوری فرمائے۔ (آمین)


Monday, December 12, 2022

ایام طفلی

تھے ديار نو زمین و آسماں میرے لیے 

وسعت آغوش مادر اک جہاں میرے لئے 

تھی ہر اک جنبش نشان لطف جاں میرے لئے 

حرف بے مطلب تھی خود میری زباں میرے لیے 

درد طفلي میں اگر کوئی رلاتا تھا مجھے 

شورش زنجیر در میں لطف آتا تھا مجھے 

تکتے رہنا ہائے وہ پہروں تلک سوئے قمر 

وہ پھٹے بادل میں بے آواز پا اس کا سفر 

پوچھنا رہ رہ کے اس کے کوہ و صحرا کی خبر 

اور وہ حیرت دروغ مصلحت آمیز پر 

آنکھ وقف‌ دید تھی لب مائل گفتار تھا 

دل نہ تھا میرا سراپا ذوق استفسار تھا 

یہ مختصر اور خوبصورت نظم علامہ اقبال کی کتاب بانگ درا کا حصہ ہے اور اقبال نے اس نظم میں انسان کے بچپن کی کیفیات کا احاطہ کیا ہے- بچپن کی زندگی کی بے فکری اور معصومیت کی ایک اپنی دنیا ہوتی ہے جب ہمیں علم نہیں ہوتا کہ دنیا میں ہماری اپنی چھوٹی سی دنیا کے علاوہ بھی کوئی دنیا ہے- جب لگتا ہے کہ ماں کی آغوش ہی سارا جہان ہے- جب ہر چیز نئی محسوس ہوتی ہے- جب کوئی بھی درد اور تکلیف توجہ بانٹ کر بھلا دی جاتی ہے- جب آسمان پر چاند کو دیکھنا اچھا لگتا ہے- جب ارد گرد موجود لوگوں سے ہر شے کے بارے میں من چاہے سوال پوچھے جاتے ہیں اور جوابات پا کر انہی کو سچ سمجھا جاتا ہے اور حیرتوں کی ایک دنیا آباد رہتی ہے- جب دیکھنے کو دل کرتا ہے، جب بولنے کو دل کرتا ہے اور جب سوال سوال ہی سوال ہوتے ہیں-

علامہ اقبال نے اس مختصر نظم میں بچپن کی زندگی کی بہت سی کیفیات کو خوبصورتی سے بیان کر دیا اور یہ نظم بچوں کے لئے نہیں ہے بلکہ ہم سب کے لئے ہے جو اس عہد کو پیچھے چھوڑ آئے اور اب اس کی معصومیت کو یاد کرتے اور پہچانتے ہیں اور اپنے سامنے موجود آج کے بچوں کے بچپن میں اس کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں. 

Sunday, December 11, 2022

گل رنگیں از بانگ درا

نظم ' گُلِ رنگیں' معہ فرہنگ

تُو شناسائے خراشِ عُقدۀ مشکل نہیں
اے گُلِ رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
زیبِ محفل ہے، شریکِ شورشِ محفل نہیں
یہ فراغت بزمِ ہستی میں مجھے حاصل نہیں
اس چمن میں مَیں سراپا سوز و سازِ آرزو
اور تیری زندگانی بے گدازِ آرزو
•┈┈•☆❁☆•┈┈•
لغت بند نمبر 1
🌟 شناسا = واقف، آگاہ، جاننے والا
🌟 خراش = رگڑ، کھجلی
🌟 عقدئہ مشکل = پیچیدہ بات کا حل، مشکلات کی گرہوں کو کھولنا
🌟 گُلِ رنگیں = رنگدار یا دل کو لبھانے والا پھول
🌟 زیبِ محفل = محفل کو سجانے والا، محفل کی زینت
🌟 شورش = شوروغوغا، ہنگامہ
🌟 فراغت = فرصت
🌟 بزمِ ہستی = محفلِ زندگی، کائنات، دنیا
🌟 سراپا = سر سے پاؤں تک، ہمہ تن
🌟 سوزوساز = جلانا اور بنانا
🌟 گداز = پگھلانا، نرم، ملائم
🌟 بے گدازِ آرزو = آرزو کی لذت سے خالی
•┈┈•☆❁☆•┈┈•
توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئِیں نہیں
یہ نظر غیر از نگاہِ چشمِ صورت بیں نہیں
آہ! یہ دستِ جفا جُو اے گُلِ رنگیں نہیں
کس طرح تجھ کو یہ سمجھاؤں کہ مَیں گُلچیں نہیں
کام مجھ کو دیدۀ حِکمت کے اُلجھیڑوں سے کیا
دیدۀ بُلبل سے مَیں کرتا ہوں نظّارہ ترا
•┈┈•☆❁☆•┈┈•
لغت بند نمبر 2
🌟 آئین = دستور، طریقہ، قائدہ
🌟 چشمِ صورت میں = صرف ظاہری شکل کو دیکھنے والی آنکھ
🌟 جَفاجُو = ظالم
🌟 دست = ہاتھ
🌟 دستِ جَفاجُو = ظلم کرنے والا ہاتھ
🌟 گُلچیں = پھول توڑنے والا
🌟 دیدئہ حکمت = چشمِ بینا، عقل مند کی آنکھ، سائنسی اندازِ فکر
🌟 الجھیڑا = جھگڑا، جھنجھٹ
🌟 دیدہ بلبل = بُلبُل کی آنکھ، عاشقانہ اندازِ نظر
•┈┈•☆❁☆•┈┈•
سَو زبانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے
راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے
میری صورت تُو بھی اک برگِ ریاضِ طُور ہے
مَیں چمن سے دُور ہوں، تُو بھی چمن سے دُور ہے
مُطمئن ہے تُو، پریشاں مثلِ بُو رہتا ہوں میں
زخمیِ شمشیرِ ذوقِ جُستجو رہتا ہوں میں
•┈┈•☆❁☆•┈┈•
لغت بند نمبر 3
🌟 سوزبانوں = پھول کی پتیوں کی طرف اشارہ ہے
🌟 مستُور = پوشیدہ، چھپا ہوا
🌟 برگ = پتا، پتی
🌟 ریاض = باغ
🌟 طُور = مقدس پہاڑی، سیدنا موسی علیہ السلام اس پر چڑھ کر باری تعالٰی سے احکام پاتے تھے
🌟 مثل = مانند
🌟 زخمی = گھائل
🌟 شمشیر = تلوار
🌟 ذوقِ جستجو = تلاش و جستجو کی لذت، شوقِ تجسس
•┈┈•☆❁☆•┈┈•
یہ پریشانی مری سامانِ جمعیّت نہ ہو
یہ جگر سوزی چراغِ خانۀ حکمت نہ ہو
ناتوانی ہی مری سرمایۀ قوّت نہ ہو
رشکِ جامِ جم مرا آئینۀ حیرت نہ ہو
یہ تلاشِ متصّل شمعِ جہاں افروز ہے
تَوسنِ ادراکِ انساں کو خرام آموز ہے
•┈┈•☆❁☆•┈┈•
لغت بند نمبر 4
🌟 جمعیت = سکون، قلب، اطمینان 
🌟 جگر سوزی = دل جلانا، تحقیق و جستجو 
🌟 چراغِ خانئہ حکمت = دانائی کے گھر کا چراغ 
🌟 ناتوانی = کمزوری، بے بسی 
🌟 سرمایہ قوت = طاقت کا سامان 
🌟 جامِ جم = جمشید کا پیالہ جس کو جامِ جہاں بھی کہتے ہیں. جمشید ایران قدیم کے ایک مشہور بادشاہ کا نام، جس کے پاس ایک پیالہ تھا جس میں دُنیا کے تمام گزشتہ و آئندہ واقعات نظر آجاتے تھے
🌟 آئینہ حیرت = ششدر آئینہ مراد دل، حیرت میں ڈوب جانے کی کیفیت 
🌟 تلاشِ متصل = مسلسل کوشش، سعی پیہم 
🌟 رشک = رقابت، یہاں مراد حریف سے ہے 
🌟 جہاں افروز = دنیا کو روش کرنے والی 
🌟 توسن = گھوڑا 
🌟 ادراک انسانی = انسانی عقل و شعور
🌟 خرام آموز = چلنا سکھانے والا /والی، متحرک کرنے والی
شاعر : علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ
کتاب: بانگ درا